سڈنی ٹیسٹ دوسرا دن، پاکستان کو آسٹریلیا پر204 رنز کی برتری حاصل

Pakistan Vs Australia 2nd Test Day 2

کینگروز پر شکست کے بادل منڈلانے لگے ،پاکستان کے پاس جیت کا نادر موقع سمیع اور آصف کی تباہ کن باؤلنگ نے وسیم وقار کی ٹو ڈبلیوز کی جوڑی کی یاد تازہ کردی

پیر 4 جنوری 2010

Pakistan Vs Australia 2nd Test Day 2
اعجازوسیم باکھری: پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین سڈنی ٹیسٹ کے دوسرے روز کھیل ختم ہونے پر پاکستان نے9وکٹوں کے نقصان پر331رنز بنالیے ہیں،یوں پاکستان کو کینگروز پران کی پہلی اننگز127رنز کے جواب میں204رنز کی برتری حاصل ہوچکی ہے اور ابھی ایک وکٹ باقی ہے۔سڈنی کے تاریخی گراؤنڈ پر جاری میچ میں پاکستان کو ملنے والی204رنز کی برتری نے میچ جیتنے کی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے کیونکہ آسٹریلوی بیٹسمین اپنی پہلی اننگزمیں پاکستانی باؤلرز کے وار سہنے میں ناکام رہے تھے، لہذا اب 204رنز کی برتری کو ختم کرکے اس کے بعد پاکستان کو جیت کیلئے کوئی بڑا ٹارگٹ دینا آسٹریلیا کیلئے کوئی آسان بات نہیں ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں جو ٹیم ایک بارخسارے میں چلی جائے اس کیلئے کم بیک کرنا آسان نہیں ہوتا ، ہاں یہ بات درست ہے کہ بعض مرتبہ ٹیمیں فالوآن کے بعد بھی کھیل میں واپس آکر میچ جیت جاتی ہیں لیکن سڈنی ٹیسٹ میں جس طرح محمد آصف اور محمد سمیع نے آسٹریلوی بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچایا،لہذا اُس کو مدنظررکھ کر دیکھا جائے تو آسٹریلیا پر اننگز کی شکست کے بادل منڈلانے لگے ہیں لیکن چونکہ آسٹریلیا عالمی چیمپئن ٹیم ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے کھیل کی دنیا پر آسٹریلوی راج چلا آرہا ہے لہذا توقع کی جارہی ہے کہ آسٹریلوی ٹیم کم بیک کریگی اور اگر آسٹریلیا کو اس میچ میں شکست بھی ہوئی تو پونٹنگ الیون آسانی سے پاکستان کو ٹیسٹ میچ نہیں جیتنے دی گی ۔

(جاری ہے)

اور اگر پاکستان نے ٹیسٹ میچ جیتنا ہے تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنا ہوگی کیونکہ اب آسٹریلیا کے پاس صرف بیٹنگ کے ذریعے خود کو شکست سے بچانے کا راستہ بچاہے اور وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ نئے سال کے پہلے ٹیسٹ میں شکست سے بچنے کی کوشش کرینگے لہذا کل یعنی تیسرے روز کا کھیل انتہائی اہم اور دلچسپ ہوگا جہاں پاکستانی باؤلرز بالخصوص محمد سمیع اور محمد آصف کے وار خطاکرنے کیلئے آسٹریلوی بیٹسمین کیا حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں اور کس طرح خطرناک بولنگ ایک تجربہ کار بیٹنگ لائن اپ پر برتری حاصل کرتی ہے اس کیلئے کل صبح تیسرے دن کا کھیل دیکھنے کا لائق ہوگا۔

سڈنی ٹیسٹ میں آسٹریلوی ٹیم اپنی پہلی اننگز میں 125رنز کے قلیل سکور پر سمٹ گئی۔ آسٹریلیا کے پاکستان کے خلاف 125رنزکینگروز کاچوتھا کم ترین اور اُن کا اپنے ہوم گراوٴنڈ پر 13 سال میں سب سے کم ٹوٹل ہے ۔یہاں سے حساب لگایا جاسکتا ہے کہ آسٹریلوی ٹیم گزشتہ دہائی میں کتنا مضبوط اور خطرناک ٹیم رہی ہے۔محمد آصف نے جب اپنا ڈبیو کیا تب بھی آسٹریلوی ٹیم اپنے عروج پرتھی۔

جنوری2005ء میں آصف نے میلبورن ٹیسٹ میں اپنا ڈبیو کیا تھا لیکن اس وقت آصف کوئی وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے اور ماہرین اور ناقدین نے آصف کی سلیکشن پر پی سی بی اور سلیکشن کمیٹی پر خوب تنقید کی ، اُس وقت آصف کی سلیکشن پر تنقید کرنے والوں میں قومی ٹیم کے موجودہ بولنگ کوچ وقاریونس بھی شامل تھے ، اُس وقت وقار یونس نے کہا تھا کہ ”کیسے کیسے باؤلرز کو ٹیسٹ کیپ دی جارہی ہے“لیکن آج اُسی وقاریونس کو آصف پرفخرہے کیونکہ آصف وقارکے دئیے ہوئے مشوروں پر عمل کرکے دن بدن خطرناک باؤلر کی حیثیت اختیار کرتا چلا جارہے ہیں۔

ایک سال کی پابندی کے بعد آصف نے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلی ٹیسٹ سیریز میں19وکٹیں حاصل کیں اور اب آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں نہ صرف اپنے ڈبیو کی ناکامی کا داغ دھوڈالا بلکہ اپنے کیرئیر کے بہترین باؤلنگ کرتے ہوئے 41 رنز کے عوض 6وکٹیں بھی حاصل کیں۔سڈنی ٹیسٹ میںآ صف کے ہمراہ محمد سمیع نے بھی شاندار بولنگ کی۔آسٹریلوی بیٹسمینوں کوڈرانے اور انہیں پریشان کرنے کا سہراا محمد سمیع کے سر جاتا ہے جس کے بعد محمد آصف نے کینگروز بیٹنگ لائن اپ کاصفایا کیا۔

سمیع کے ٹیم میں واپس آنے اور آصف کا پابندی سے نجات حاصل کرکے بطورخطرناک باؤلر ٹیم میں آنا پاکستانی ٹیم کیلئے نیک شگون ہے ، یہ دونوں عمرگل اور محمد عامر کے ہمراہ ملکر دنیا کی کسی بھی بیٹنگ لائن اپ کو صفایا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پاکستانی ٹیم اپنی فیلڈنگ کا معیار بہتر بنالے اور ٹاپ آرڈرزبلے باز تھوڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو پاکستان کرکٹ کے میدانوں میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتاہے۔

سڈنی ٹیسٹ میں پاکستانی باؤلرز نے جوتباہی کی بنیاد رکھی تھی ایک طویل عرصے بعد بیٹسمینوں نے باؤلرز کی محنت کو ضائع نہ ہونے دیا اور ذمہ داری سے بیٹنگ کرکے آسٹریلیا پر 200سے زائد رنزکی برتری حاصل کی۔اس سے پہلے بہت کم مرتبہ ایسا دیکھنے کو ملا کہ باؤلرز نے بھی اچھی کارکردگی پیش کی ہواور بعد میں بیٹسمین بھی ذمہ داری سے کھیلے ہوں ، ہمیشہ باؤلرز حریف ٹیم کیلئے مشکلات پیداکرکے جیت کیلئے راہ تلاش کرکے دیا کرتے تھے لیکن بیٹسمین ساری محنت پر پانی پھیر دیتے تھے۔

لیکن آج صبح پاکستانی بیٹسمینوں نے جس عمدگی ، ذمہ داری اور مہارت سے بیٹنگ کی ہے اس پر پوری ٹیم داد تحسین کی مستحق ہے۔پاکستانی اوپنرزسلمان بٹ اور عمران فرحت نے ایک بارپھر ذمہ داری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے پہلی وکٹ کی شراکت میں 109رنز بنائے اور دونوں نے ہاف سنچریاں بنائیں۔مڈل آرڈرز میں فیصل اقبال ایک بارپھر ناکام رہے تاہم کپتان محمد یوسف اور ان فارم بلے باز عمراکمل نے روایتی انداز میں عمدہ بیٹنگ کی اور ٹیم کو 200سے زائد رنز کی برتری دلانے میں کلیدی کردار اداکیا۔

پاکستانی اننگز سے قبل رکی پونٹنگ نے کہا تھا کہ وہ عمراکمل جیسے تیز رنز بنانے والے بیٹسمین کو اپنے قابومیں رکھنے کی کوشش کرینگے کیونکہ وہ جارحانہ رویہ اختیار کرکے ٹیسٹ میچ کا نقشہ بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ، لیکن رکی پونٹنگ کی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی،عمراکمل نے وکٹ پر آتے ہی آسٹریلوی باؤلرز کوآڑے ہاتھوں لے لیا اور ابتدائی7گیندوں میں سے 5پرعمراکمل نے چوکے لگاکر 20رنزبنائے ، مجموعی طورپرعمراکمل نے 48گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے49رنزبنائے اور ان کی اننگز 9چوکوں سے مزین تھی۔

رکی پونٹنگ کہتے ہیں کہ عمراکمل جیسے کھلاڑی مجھے پسند ہیں کیونکہ میں بھی اپنے کیرئیر کے ابتدائی ایام میں ایسی طرز کی بیٹنگ کرنا پسند کرتا تھا۔عمراکمل تو اس وقت بھرپورفارم میں ہیں لیکن اُن کے بڑے بھائی کامران اکمل نے حالیہ عرصے میں کوئی بڑی اننگز نہیں کھیلی لیکن کامران کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، ہمیشہ وہ اہم موقع پر ٹیم کو سہارا دیتے ہیں۔

میلبورن میں کھیلے پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹسمینوں نے مایوس کن کھیل پیش کرکے آسٹریلیا کو ایک آسان جیت کا موقع فراہم کیا تھا لیکن دوسرے ٹیسٹ میں قومی کھلاڑیوں کی کارکردگی اب تک تسلی بخش رہی ہے اور اب تیسرے روز کے کھیل میں باؤلرز پرپھرسے ذمہ داری آن پڑی ہے،امید ہے آصف اور سمیع دوسری اننگز میں بھی آسٹریلوی بیٹسمینوں کو اپنی سوئنگ اور تیزگیندوں کا شکار بناکر پاکستان کو بھاری مارجن سے کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کرینگے۔

مزید مضامین :