پاکستان کا دورہ انگلینڈ، کیا اس ٹور پربھی کوئی تنازعہ کھڑا ہوگا؟

Pakistan Vs England

سپاٹ فکسنگ، میچ فکسنگ، بال ٹمپرنگ جیسے تنازعات انگلینڈ میں ہی کیوں رونما ہوتے ہیں ؟ ٹیسٹ سیریز میں تو مصباح سے امیدیں ہیں، ون ڈے میں کس سے توقعات رکھی جائیں ؟

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری اتوار 19 جون 2016

Pakistan Vs England
پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ کیخلاف 6 سال بعد برطانوی سرزمین پر سیریز کھیلنے کیلئے انگلستان پہنچ گئی ہے۔ قومی ٹیم کا دورہ انگلینڈ کئی اعتبار سے اہم ہے جس میں نمایاں محمد عامر کی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں چھ سال بعد واپسی ہے جبکہ اس سے بڑھ کر پاکستانی ٹیم پر سب کی نظریں ہونگی کیونکہ پاکستانی ٹیم کا کوئی بھی دورہ تنازعات کے بغیر مکمل نہ ہوتا۔ عمران خان اور آئن بوتھم کی بال ٹمپرنگ عدالتی جنگ ہو یا وسیم اکرم اور وقاریونس پر بال ٹمپرنگ کے الزامات،یا پھر وقاریونس کا شراب پی کر گاڑی چلانے کا واقعہ یہ سب قومی ٹیم کے ماضی کے تنازعات ہیں جو ہمیشہ قومی ٹیم کے تعاقب میں رہے۔

1999ء کے ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم پر آسٹریلیا کیخلاف فائنل میں میچ فکسنگ کے الزامات بھی انگلینڈ میں ہی لگے جبکہ 2006ء کی سیریز میں انضمام الحق کا امپائرڈیرل ہیئر کیخلاف احتجاج اور ٹیم کو گراؤنڈ میں نہ اتارنے کا فیصلہ بھی برطانوی دورے میں ہی ہوا۔

(جاری ہے)

2010ء میں سپاٹ فکسنگ کا واقعہ بھی انگلینڈ میں ہی رونما ہوا جس سے پاکستان کرکٹ کی جگ ہنسائی ہوئی اور قومی کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو برطانوی جیل میں چکی پیسنا پڑی۔

اب 6 سال بعد قومی ٹیم دوبارہ انگلینڈ پہنچ چکی ہے، اس بار بھی برطانوی میڈیا کی ہٹ لسٹ پر پاکستانی کرکٹرز ہونگے جبکہ گراؤنڈ میں محمد عامر کیخلاف ری ایکشن کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔انگلش شائقین کو عالمی کرکٹ میں سب سے معتبر کراؤڈ سمجھا جاتا ہے لیکن حریف پلیئرز کیخلاف سب سے زیادہ ہوٹنگ میں بھی برطانوی کراؤڈ نمایاں ہے۔ 2013ء کی ایشز سیریز میں مچل جانسن کیخلاف باؤنڈری لائن پر نعرے بازی اور آسٹریلوی کپتان کی امپائروں سے شکایت پر بھی برطانوی میڈیا کو ناگوار گزری جبکہ اگلے روز مائیکل کلارک کو مجبوراً مچل جانسن کو سرکل میں فیلڈنگ پر کھڑا کرنا پڑا۔

اب محمد عامر سپاٹ فکسنگ میں قید کاٹنے کے بعد برطانوی حکومت کی مہربانی سے ویزہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پی سی بی کو خدشہ ہے کہ محمد عامر کو دوران میچ دوران فیلڈنگ سخت تنقید اور فقرے بازی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، ایسے میں کرکٹ بورڈ کے بڑوں شہریارخان، نجم سیٹھی اور سبحان احمد نے محمد عامر کے ساتھ خصوصی وقت گزارا اور نوجوان کھلاڑی کو تنبیہ کی کہ وہ اپنا سر جھکا کر رکھیں اور کسی قسم کی فقرے بازی کا زبان سے جواب دینے کی بجائے گراؤنڈ میں کارکردگی سے ناقدین کا منہ بند کریں اور عامر نے پی سی بی سے اتفاق کیا کہ وہ اس بار شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔


پاکستانی کرکٹ ٹیم کا پہلا ٹیسٹ لارڈزمیں ہے اور 2010ء میں بھی آخری ٹیسٹ لارڈز میں کھیلاگیا، میچ کے آغاز سے قبل اورلارڈز ٹیسٹ کے دوران ٹیم کے بارے میں اخبارات اور جرائد میں آرٹیکلز لکھے جائیں گے، مظہرمجید سے مظہر محمود تک کے کرداروں کو دوبارہ تحریروں میں زندہ کیا جائیگا اور قومی کرکٹرز کی نیت اور کارکردگی پر شکوک کا اظہار بھی کیا جائیگا۔

ان حالات میں قومی کرکٹ ٹیم کے سینئر کھلاڑی مصباح الحق اور یونس خان کی ذمہ داری بڑھ جائے گی کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو قابو میں رکھیں اور ان کا فوکس تنقید کی بجائے کھیل پر مرکوز رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔یونس خان اور مصباح الحق کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ٹیم کیلئے نمایاں کارکردگی دکھائیں کیونکہ اپنے ہوم گراؤنڈز میں انگلینڈ آسٹریلیا کیخلاف ایشز سیریز بھی جیت جاتا ہے اور پاکستانی ٹیم تو گزشتہ کچھ عرصے سے اوسط درجے کی کرکٹ کھیل رہی ہے، ایسے حالات میں سینئرز کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ گئی ہے۔


تنقید اور میڈیا کی الزامات کے باوجود یہ بات تو طے ہے کہ شائقین کو طویل عرصہ بعد اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی کیونکہ انگلش ٹیم کو اپنے باؤلرز پر بہت انحصار ہے تو پاکستانی ٹیم بھی چار پیسرز کے ساتھ میدان میں اترے گی ، وہاب ریاض، محمد عامر، راحت علی اور عمران خان کے پاس دورہ انگلینڈ بہترین موقع ہے کہ وہ خود کو کرکٹ کے افق پر منوائیں۔

انگلش وکٹوں پر فاسٹ باؤلرز کو ہمیشہ مدد ملتی ہے اور پاکستانی پیسرز نے ہمیشہ انگلینڈ میں نمایاں کارکردگی دکھائی، 1992ء کی سیریز میں وسیم اکرم اور وقاریونس کی تباہ کن باؤلنگ، 1999ء کے ورلڈکپ میں شعیب اختر کی 17وکٹیں ، 2006ء کی سیریز میں عمرگل کی پرفارمنس اور 2010ء کی سیریز میں محمد آصف اور محمد عامر کی تباہ کن باؤلنگ پاکستانی پیسرز کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اب وہاب ، عامر، عمران اور راحت کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ بھی اپنی کارکردگی سے وہ مقام حاصل کریں کہ مستقبل میں لکھی جانیوالی تحریروں میں ان کا بھی ذکر کیا جائے۔

مزید مضامین :