لاہورٹیسٹ پہلا روز،مہمان ٹیم کی پوزیشن مضبوط ،سنگاکارا اور سماراویرا کی سنچریاں

Pakistan Vs Sri Lanka Lahore Test Day 1st Report

عمرگل تنہا حریف بیٹسمینوں کے ساتھ مقابلے میں مصروف ،فیلڈرز نے کئی یقینی کیچ گرائے حنیف محمد اور جاوید میاندادکا گراؤنڈ آمد پروالہانہ استقبال ،آئی سی سی ہال آف فیم کیپ وصول کی

پیر 2 مارچ 2009

Pakistan Vs Sri Lanka Lahore Test Day 1st Report
اعجازو سیم باکھری : پاکستان اور سری لنکا کے مابین لاہور میں دوسرا اور آخری ٹیسٹ میچ جاری ہے ۔آج کھیل کا دوسرا روز ہے ۔گزشتہ روز کھیل کے اختتام پر سری لنکانے چار وکٹ کے نقصان پر 317رنز بنالیے تھے۔مہمان ٹیم کی جانب سے کمارسنگا کارا اور سمارا ویرا نے سنچریاں سکور کیں۔سنگا کارا 104رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ سمارا ویرا 133پر وکٹ پر موجودہیں۔پاکستان نے اس میچ میں ایک تبدیلی کی ۔

کراچی ٹیسٹ میں ناقص کھیل پیش کرنے والے سہیل خان کو ڈراپ کرکے 20سالہ محمد طلحہ کو گراؤنڈ میں اتارا گیا جو اپنے سے وابستہ توقعات پر پورا نہ اتر سکے ۔ پاکستان کی جانب سے سب سے کامیاب ترین باؤلر عمرگل رہے انہوں نے تین وکٹیں حاصل کیں جبکہ آل راؤنڈر یاسر عرفات کے حصے میں ایک وکٹ آئی۔ لاہور کی چمکتی دھوپ میں قومی کپتان یونس خان نے ٹاس جیت کر سری لنکا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی جس پر تبصرہ نگاروں نے اعتراض کیا ۔

(جاری ہے)

کیونکہ وکٹ بظاہر تیز نظر آرہی تھی اسی ایڈونٹیج کو مدنظر رکھ کر یونس خان نے پہلے بولنگ کافیصلہ کیا تاہم کھیل کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین نے اسی وقت ہی یونس کے اس فیصلے کوغلط قراردیدیا۔ 35کے مجموعی سکور پر جب سری لنکا کے دونوں اوپنرز آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ گئے تو یونس کا فیصلہ درست محسوس ہونے لگا اور پھر جب 96کے مجموعی سکورپر ان فارم بیٹسمین جے وردھنے بھی آؤٹ ہوئے تو قومی ٹیم کی پوزیشن بہتر نظر آنے لگی تاہم سنگا کارا اور سماراویرا نے پاکستانی باؤلرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا دونوں نے اپنی اننگز تعمیر کرنا شروع کردی اس دوران ان کے مابین چوتھی وکٹ کی شراکت میں 204رنزبنے ۔

ان دونوں کی پارٹنرشپ کے بعد شاید یونس خان کو بھی احساس ہوگیا ہوکہ اس نے بیٹنگ کیلئے ایک آسان وکٹ پر خود کھیلنے کی بجائے مہمان ٹیم کو دعوت دیکر غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔کیونکہ سنگا کارا اور سماراویرا کی پارٹنر شپ نے سری لنکاکو ایک مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کردیاہے۔ ٹیسٹ میچ میں کوئی بھی ٹیم جب پہلے روز 300سے زائد رنز سکوربورڈ پر سجا لیتی ہے تو وہ بہترین پوزیشن میں آجاتی ہے اسی بات کے پیش نظر سری لنکن ٹیم کراچی ٹیسٹ کی طرح میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی ہے اور اب دیکھنا ہوگا کہ پاکستانی بیٹسمین اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔

بولنگ کے حوالے سے اگر قومی باؤلرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو عمرگل سب سے کامیاب گیند باز رہے ، انہوں نے وکٹ ٹو وکٹ بولنگ کی اور حریف بیٹسمینوں کیلئے مشکلات پیداکرکے تین قیمتی وکٹیں حاصل کیں ۔محمدطلحہ کا یہ پہلا ٹیسٹ میچ ہے گوکہ اس نے عمدہ لائن و لینتھ کے ساتھ بولنگ کی تاہم سری لنکا کے تجربہ کار بیٹسمینوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ۔

ممکن ہے آج میچ کے دوسرے روز یا پھر اگلی اننگز میں وہ کوئی وکٹ حاصل کرسکیں تاہم پہلے روز انہیں نئی بال کے ساتھ آزمایہ گیا جہاں وہ کامیاب نہیں ہوسکے ۔دیگر باؤلرز میں دانش کنیریا نے بے شمار طویل سپیل کرائے لیکن وہ بھی وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔شعیب ملک نے بھی وکٹ حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں انہیں بھی کامیابی نہ مل سکی جبکہ یا سرعرفات جن کی دوبارہ ٹیم میں سلیکشن پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں نے آخری سیشن میں سنچری میکر سنگاکارا کی وکٹ حاصل کرکے اپنی ٹیم کو بریک تھرو دیا ۔

بظاہر قومی باؤلرز کی کارکردگی غیر معیاری رہی البتہ اگر فیلڈرز ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے تو یقینی طور پر سری لنکن ٹیم اتنابڑ اسکور کرنے میں کامیاب نہ ہوتی۔یہ بات درست ہے کہ کسی بھی کرکٹ میچ میں کیچ انتہائی اہمیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ماہرین ”کیچز ون دی میچز “کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی وقت ایک بہترین کیچ میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے ۔

بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ کا شعبہ انتہائی کمزور ہے اورکئی مرتبہ پاکستان کو ناقص فیلڈنگ کی وجہ سے شکست کا سامنا کرناپڑا ،کراچی ٹیسٹ میں بھی فیلڈرز نے جے دورھنے اور سماراویرا کے کیچز گرائے بعدازاں دونوں نے ڈبل سنچریا ں سکور کیں اور یہاں لاہور میں بھی سنگاکارا اور سماراویرا کو مواقع فراہم کیے گئے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں نے سنچریاں بنائیں۔

لاہور ٹیسٹ کا پہلا روز پاکستان کرکٹ کیلئے یادگار دن کی حیثیت رکھتا ہے ۔گزشتہ روز آئی سی سی کی طرف سے پاکستان کے تین عظیم کھلاڑیوں حنیف محمد ،عمران خان اور جاوید میانداد کوہال آف فیم کیپ دی گئی ۔چائے کے وقفے کے دوران آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیورچرڈسن اور چیئرمین پی سی بی اعجازبٹ کے ہمراہ جب عظیم بیٹسمین حنیف محمد اور جاوید میاندادقذافی سٹیڈیم میں داخل ہوئے تو سٹیڈیم میں موجو د ہرشخص نے قومی ہیروز کا بھر پوراستقبال کیا اور حنیف محمد اور جاوید میانداد کیلئے کافی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔

چیئرمین پی سی بی اعجازبٹ نے دونوں عظیم کھلاڑیوں کو ہال آف فیم کیپ پہنائیں جبکہ عمران خان سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اس تقریب میں شرکت نہیں کرسکے ۔آئی سی سی نے اپنی سوسالہ تقریبات کے سلسلے میں کرکٹ کی تاریخ کے 55نامور کھلاڑیوں کو ہال آف فیم کیپ دینے کا فیصلہ کیا ہے اس فہرست میں پاکستان کی طرف سے حنیف محمد ،عمران خان اور جاویدمیانداد شامل ہیں۔

یہ تینوں کھلاڑی اپنے دور کے عظیم کرکٹرز رہے ہیں ،آج اگر پاکستان کرکٹ میں عالمی پہچان رکھتا ہے تو اس بات سہرا ان عظیم کھلاڑیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی لازوال پرفارمنس سے نہ صرف دنیا میں خود کومنوایا بلکہ پاکستان کو تاریخی فتوحات بھی دلائیں ۔حنیف محمد نے 1958ء میں اُس وقت ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹرپل سنچری سکور کی جبکہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کی دنیا پر راج کیا کرتی تھی ،چھوٹے قدکے مالک حنیف محمد نے 337رنز کی اننگز کھیل کر دنیائے کرکٹ میں انقلاب برپا کردیا تھا ۔

عمران خان بھی کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔ان کے کریڈٹ میں صرف 1992ء کا ورلڈکپ ہی نہیں آتا بلکہ پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں بھارت ،آسٹریلیا ، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر شکست دیکر اپنی دھاک بٹھائی۔وہ بطور کپتان اور آل راؤنڈ اپنا ثانی نہیں رکھتے انہیںآ ج بھی کرکٹ کی تاریخ کی سب سے معتبر ترین شخصیات میں شمارکیا جاتا ہے جبکہ جاوید میانداد بھی کسی سے کم نہیں تھے ۔

شارجہ میں بھارت کے خلاف آخری گیند پر چھکا رسید کرکے میانداد نے پاکستانی قوم کے دل میں کرکٹ کا ایسا شوق و جذبہ پیدا کیا جو آج دھڑکن بن چکا ہے۔گوکہ کرکٹ کی تاریخ میں میانداد سے بھی بڑے بڑے بیٹسمین آئے لیکن جو حوصلہ اور دلیری جاوید میانداد کے پاس تھی دوسرے کسی میں نظر نہیں آسکی ۔میانداد کی یہ خوبی تھی کہ وہ بڑے سے بڑے باؤلر کو ٹارگٹ بنا کر اس قدر جارحانہ رویہ اختیار کرتے تھے کہ باؤلر کیلئے اوور مکمل کرنا محال ہوجاتا تھا ۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے بڑے بڑے کھلاڑی میسر آئے جنہوں نے نہ صرف اپنے ملک کیلئے فتوحات سمیٹیں بلکہ اس خطے میں کرکٹ کے فروغ کیلئے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

مزید مضامین :