”دعائیں قبول ہوگئیں، پاکستان دوسرے راؤنڈ میں داخل “

Pakistan Won Hollalnd

جیت کے باوجودفیلڈرزمیں کیچ ڈراپ کرنے کا مقابلہ ،بلے بازوں کی غیرذمہ دارانہ بیٹنگ آسان راؤنڈ کو مشکل سے پار کرنے کے بعد مشکل راؤنڈ سے سیمی فائنل تک رسائی کیلئے ایمانداری اور جذبہ حب الوطنی سے کھیلنا ہوگا

بدھ 10 جون 2009

Pakistan Won Hollalnd
اعجازوسیم باکھری : پاکستان اور ہالینڈ کے مابین میچ اختتام پذیر ہوئے کافی دیربیت چکی ہے اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ قومی ٹیم کو82رنز کی بھاری مارجن سے جیت پر مبادکباد دینی چاہئے یا اس ناقابل فراموش کامیابی پر شکرانے کا نوفل ادا کرنے چاہیں کیونکہ اس کامیابی سے پاکستان کا نام مزید بدنام ہونے سے بچ گیاہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ٹیم کو ہالینڈ کے خلاف کامیابی کھلاڑیوں کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم کی دعاؤں کی وجہ سے ملی ہے اور میرے جیسے جذباتی لوگوں کی ناراضگی کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی لاج رکھ لی ورنہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہالینڈ نے جب بیٹنگ کی شروع کی تو پاکستان نے کیچز گرانے اور رن آؤٹ مس کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ عمرگل کے آخری وکٹ لینے تک جاری رہا۔

(جاری ہے)

پاکستان نے 175رنز کے جواب میں ہالینڈ کی پوری ٹیم 93رنز پر سمیٹ تو دی لیکن جہاں یہ میچ جیتنے کیلئے باؤلرز نے دس وکٹیں لیں وہیں فیلڈرز نے ڈچ بیٹسمینوں نے سدھرنے اورہوش مندی سے کھیلنے کیلئے 10 مرتبہ چانس بھی دیا لیکن جیساکہ میں نے پہلے کہاکہ یہ کامیابی کارکردگی سے نہیں بلکہ دعاؤں کے بدلے ملی اس لیے ڈچ بیٹسمین کیچ ڈراپ اور رن آؤٹ مس ہونے کے باوجود بھی اپنی وکٹیں گنواتے رہے اور آخرکار پاکستان کو ضرورت کے مطابق 82رنز کے بھاری مارجن سے فتح نصیب ہوئی جس نے پاکستان کو نہ صرف مزید جگ ہنسائی سے بچالیا بلکہ دوسرے راؤنڈ تک رسائی بھی میسر آگئی۔

ہالینڈ کے خلاف میچ میں کپتان یونس خان نے ایک بارپھر سلمان بٹ کو موقع دیا جو ایک بارپھر ناکام ہوئے ،شاہدآفریدی بیٹنگ پر آئے لیکن صرف ایک چھکا لگانے کے بعد وہ بھی پویلین لوٹ گئے تاہم بولنگ میں آفریدی نے انتہائی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ سعید اجمل کو بھی جیت کا برابر کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے انتہائی سمجھ داری سے بولنگ کی اور حریف بیٹسمینوں کا وکٹ پر ٹھہرنا دوبھر کردیا۔

ہالینڈ کے خلاف جتنا بڑا اور اہم میچ تھا اس میچ میں ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو اپنے اپنے حصے کی کارکردگی پیش کرنے کی ضرورت تھی تاہم چند کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان نے ایک کمزور ٹیم پر قابوپایا لیکن”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“ کے مصداق سپرایٹ مرحلہ انتہائی سخت اور دشوار ہوگا کیونکہ قومی ٹیم کی میچ جیتنے کی تاحال کوئی پلاننگ نظر نہیں آئی اور نہ ہی کھلاڑیوں میں ٹائٹل جیتنے کا جذبہ جھلک رہا ہے ۔

ایسے حالات میں اگلے راؤنڈ میں پاکستان کو سری لنکا ،نیوزی لینڈ اور ائرلینڈ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے جہاں سیمی فائنل تک رسائی کیلئے تمام میچز میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے ، ایسے میں اگر ہالینڈ اور انگلینڈ کیخلاف قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھی جائے تو سیمی فائنل تک رسائی انتہائی مشکل لگ رہی ہے تاہم کرکٹ ایک بائی چانس کھیل ہے اور یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے اور پاکستانی ٹیم کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب کسی بڑی ٹیم کو شکست دیدے اور کبھی کمزور ٹیم کے سامنے گھٹنے ٹیک دے ، لہذا اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کے بعد سیمی فائنل تک رسائی مشکل تو لگ رہی ہے تاہم اگر کھلاڑی جذبے اور خلوص نیت سے کھیلے اور اگر انفرادی کارکردگی کی بجائے یکجا ہوکر پرفارمنس دی تو پاکستانی ٹیم کیلئے سیمی فائنل تک رسائی کوئی مشکل نہیں ہے لیکن یہ سب اُس وقت ممکن ہے جب کھلاڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کرینگے اور اپنی غلطیوں پر کنٹرول کرینگے ۔

اگر ہالینڈ کے خلاف جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا اور ایک اوور میں کیچ اور اگلے اوور میں رن آؤٹ کا موقع ضائع کیا گیا تو ایک بار پھر شائقین کو مایوسی کا سامنا کرنے پڑیگا اور لوگوں کے جذبات مجروح ہونگے ۔لہذا یونس خان اینڈکمپنی کو سپر ایٹ میں ہوش مندی سے کرکٹ کھیلنا چاہئے تاکہ پاکستان ورلڈکپ میں سرخرو ہوکر لوٹے ۔ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کا ابھی آغاز ہے اور پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہوا ہے اور ویسے بھی ماہرین ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کو ”کرکٹ“نہیں سمجھتے لیکن میں حیران ہوں کہ پاکستان میں اوربیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس ٹورنامنٹ میں گہری دلچسپی لے رہی ہے اور انگلینڈ کے خلاف کے قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر پوری دنیا سے موصول ہونیوالے پیغامات اور آراء میں تمام لوگوں کی مایوسی یکساں نظر آئی۔

بیشمار موصول ہونیوالے پیغامات میں قارئین کی بڑی تعداد نے قومی ٹیم کو سخت برابھلا کہااور بہت سوں نے تویونس خان کی کپتانی سے برطرفی کا مطالبہ بھی کیا جبکہ اکثریت قارئین نے میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ٹیم کی شکست کوغیرذمہ داری اور جذبے کے فقدان سے منسوب کیا اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ٹیم کو کچھ عرصے کیلئے ختم کرکے ڈومیسٹک سطح پر نیا ٹیلنٹ تلاش کرکے ایک مضبوط ٹیم تشکیل دی جائے تاکہ روز روز کی جگ ہنسائی سے بچا جا سکے ۔

قارئین :ہماری جو ٹیم اس وقت ورلڈکپ کھیل رہی ہے اس میں صرف دو سے تین افراد کی سلیکشن غیر ضروری ہے جبکہ دیگر کھلاڑی ٹیم میں کھیلنے کے اہل ہیں لیکن اُن میں فتح کی بھوک پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کوئی ذمہ داری کا احساس دلارہا ہے جس سے ٹیم بڑی کامیابی حاصل نہیں کررہی ۔اگریہ ٹیم ایمانداری اور خلوص نیت سے کھیلے تومیں ورلڈکپ جیتنے کا دعویٰ کرتے وقت عاربھی محسوس کرونگا کیونکہ پاکستانی ٹیم میں صلاحیت بھی ہے اور تجربہ بھی ،یہی ٹیم پچھلے ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچی تھی اور اگر اس بار کھلاڑیوں نے ایمانداری سے کھیلنے کی کوشش کی تو یقینی طور پر اللہ بھی ان کی مدد کریگا اور یہ بہترین نتائج بھی دیں گے۔

جہاں تک رہی بات ٹیم کیلئے دعاؤں کی تو شاید میرے سے بہتر کوئی نہ جانتا ہو کہ لوگ کس حد تک اپنی ٹیم سے محبت کرتے ہیں اور اپنی ٹیم کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔ہمارے ہاں قارئین کی جانب سے بھیجے گئے ہزاروں پیغامات اس بات کا ثبوت پیش کررہے ہیں لوگوں میں اگر غصہ بھی ہے تووہ صرف اس لیے ہے کہ ٹیم کامیاب کیوں نہیں ہورہی ،لوگ صرف اور صرف کامیابی چاہتے ہیں اور میری ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں سے اپیل ہے کہ وہ اس وقت انگلینڈ میں صرف 18رکنی سکواڈ کی شکل میں موجود نہیں ہے بلکہ اُن کے ہمراہ کروڑوں پاکستانیوں کی دعائیں اور نیک تمنائیں بھی ہیں لہذا آ پ کو محنت کرنی چاہئے ،ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور ہربار کامیابی نصیب نہیں ہوتی لیکن اگر محنت کرکے شکست ملے تو اس کا دکھ نہیں ہوتا اور اگر بغیر کچھ مزاحمت کیے ہار ملے تو وہ ناقابل برادشت ہوتی ہے ۔

یہی وہ شائقین تھے جنہوں نے بھارت جیسے بدترین دشمن کے ہاتھوں پچھلے ورلڈکپ کے فائنل میں ملنے والی شکست کودل سے قبول کیا تھا اور پوری ٹیم کو سر آنکھوں پر بٹھایا کیونکہ وہاں نظر آیا کہ مصباح الحق محنت کررہا تھا اور اگر وہ ایک غلط شارٹ پر آؤٹ بھی ہوا تو کم از کم اُس نے چوکے لگانے کی کوشش تو کی، گوکہ وہ اپنی ٹیم کو میچ نہ جتواسکا لیکن اُس کی محنت اور خلوص دلی نے اُسے پاکستانیوں کا ہیروبنا دیا اور آج بھی لوگ اُس پر فخرکرتے ہیں ۔

لہذاسپر ایٹ میں پہنچنے کے بعد لوگوں نے ایک بارپھر ٹیم سے توقعات وابستہ کرلی ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی ٹیم سپر ایٹ میں جیت کیلئے بھر پورفائٹ کریگی اورمایوسی اور اداسی میں اضافہ کرنے کی بجائے قوم کو کامیابی کی شکل میں خوشیاں دے گی۔

مزید مضامین :