ٹرائی سیریز،پاکستان نے فائنل میں بھارت کو ہراکرٹورنامنٹ جیت لیا

Pakistan Won Trination Series

شعیب اخترپر پابندی پانچ برس سے کم کرکے ڈیڑھ سال کردی گئی فاسٹ باؤلر کی جلدکرکٹ میں واپسی کے امکانات معدوم ،ہائی کورٹ جانے پر غور

اتوار 15 جون 2008

Pakistan Won Trination Series
اعجازوسیم باکھری: بالآخر پاکستانی ٹیم بھارت کے ہاتھوں پے در پے شکستوں کے بھنور سے نکل آئی ہے اور ڈھاکہ میں تین ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو 25رنز سے شکست دیکر نہ صرف ٹورنامنٹ جیت لیا ہے بلکہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں ملنے والی شکست کا بدلہ بھی لے لیا ہے۔راؤنڈ میچ میں بھارت کے ہاتھوں 140رنز سے شکست کھانے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم شدید تنقید کی زد میں تھی اور کرکٹ بورڈ میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں نسیم اشرف نے ڈھاکہ میں موجود کوچ اور کپتان کو ای میل کرکے اپنا قبلہ درست کرنے کی تنبیہ کی اور فائنل میچ میں پاکستانی ٹیم ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں اتری اور بھارت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

فائنل میچ میں پاکستانی ٹیم کا مورال بلند نظر آیا پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی بیٹسمینوں سلمان بٹ اور یونس خان نے سنچریاں سکور کرکے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور بعدازاں بولنگ میں عمرگل اور شاہدآفریدی نے ذمہ دارانہ گیندبازی کرکے اپنی ٹیم کو تاریخی فتح دلائی ۔

(جاری ہے)

بھارت کے خلاف پاکستان کی تین ملکی ٹورنامنٹ میں فتح قومی ٹیم کیلئے کئی لحاظ خاصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اگلے ہفتے سے پاکستان میں ایشیا کپ شروع ہورہا ہے جہاں پاکستان نے بھارت کا سامنا کرنا ہے اور قومی ٹیم کو ایشیا کپ اور چیمپئنزٹرافی سے قبل ایک بہت بڑی کامیابی کی ضرورت تھی جو تین ملکی ٹورنامنٹ کی صورت میں پاکستان کو حاصل ہوچکی ہے جس کے آنے والے دنوں میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

اس کے علاوہ کپتان شعیب ملک اور کوچ جیف لاسن کو برطرف کرنے کے مطالبے بھی اس فتح سے دب جائیں گے اور کرکٹ بورڈ میں متوقع بڑی تبدیلیاں بھی کچھ عرصے کیلئے یہ کامیابی مئوخرکرانے میں سرخروہوجائے گی۔ اگرقومی ٹیم نے اسی ذمہ داری سے کھیل پیش کیا تو ایشیا کپ میں بھارت اور سری لنکا کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے تاہم اس کیلئے ٹیم کے ایک ایک فرد کو نیک نیتی سے محنت کرنا ہوگی اور ملک کی عزت کو سامنے رکھ کر گراؤنڈ میں اترنا ہوگا۔

ادھردوسری جانب یہ سوال ایک پیچیدہ سوال کا روپ اختیار کرچکا ہے کہ شعیب اختر دوبارہ ایکشن میں نظر آسکتے ہیں یا نہیں؟یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب شاید خود شعیب اختر بھی دینے سے قاصر ہو۔کیونکہ ایپلٹ ٹریبونل نے شعیب کی سزاپانچ برس سے کم کرکے ڈیڑھ سال کردی ہے اور ساتھ 70لاکھ جرمانہ بھی کیا گیا ہے لہذا اس نئے فیصلے کے بعد بھی ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوپایا کہ شعیب کا مستقبل کیا ہوگا تاہم ایپلٹ کمیٹی نے فاسٹ باؤلر کو ایک اور موقع دیتے ہوئے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اختیارتودے دیا ہے لیکن شعیب اختر کے وکیل عابد حسین منٹونے واضع طورپر نہیں بتایا کہ وہ کب ہائی کورٹ کا رخ کررہے ہیں۔

دو ایک کی اکثریت کے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ایپلٹ ٹربیونل کے سربراہ جسٹس (ر)فرخ آفتاب نے کہاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پانچ سال کی سزا ایک زیادتی ہے اور انہوں نے انتہائی سوچ بچار اور ماضی کے تمام ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ شعیب اختر پر ڈیڑھ برس کی سزا جائزہ ہے اور 70لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ انہوں ڈاکٹرز سے معلوم کرایا کہ شعیب اختر کا محض تین سال کیرئیر باقی ہے جس میں ڈیڑھ سال اس کو سزا دی گئی ہے اور ڈیڑھ سال وہ کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔

ٹریبونل کے تیسرے رکن نوید چوہدری نے فرخ آفتاب کے اس فیصلے سے اختلاف کیا نوید چوہدری کا کہنا تھا کہ میں شعیب کی کرکٹ پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ شعیب پاکستانی ٹیم کا اہم باؤلر ہے اور عوام اسے کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے کرکٹ کھیلنے پر پابندی سے اسے تو سزا ملے گی لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کے تماشائیوں اور پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی اس کی سزا ملے گی جونامناسب ہے۔

نوید چوہدری نے شعیب اختر کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیکر اس پر دو کروڑروپے جرمانہ کی سفارش کی لیکن ٹریبونل کے سربراہ نے ان کی سفارشات کو مسترد کردیا ۔نوید چوہدری نے اس موقع پر کہاکہ پی سی بی کے قانون کے مطابق بھی شعیب اختر کو سزا نہیں دی جا سکتی اس لئے ٹیم کے مفاد کی خاطر میں نے اس کی سزا کی مخالفت کی ہے۔دوسری جانب فیصلے کے بعد شعیب اختر نے خود تو بات نہیں کی لیکن ان کے وکیل عابد منٹو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ابھی تک فیصلے کی کاپی نہیں ملی اس لئے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ہم اپیل کرینگے یا نہیں ،ہم نے ڈسپلنری کمیٹی کے فیصلے پر اعتراضات اٹھائے تھے اگر ٹربیونل نے ان اعتراضات کا مناسب جواب نہیں دیا تو ہم ہائیکورٹ میں جانے پر غور کر سکتے ہیں ۔

ادھر پی سی بی کے وکیل تفضل حسین رضوی کا کہنا ہے کہ پی سی بی اس فیصلے سے مطمئن ہے ہم اس فیصلے کیخلاف اپیل نہیں کرینگے ۔ سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ اگر کرکٹ بورڈ ڈیڑھ سالہ پابندی پر مطمئن ہے تو پانچ سال کی سزا کیوں سنائی گئی تھی ؟اور ٹریبونل نے ڈیڑھ سال کی سزا سنا کر اس کیس کو مزید الجھا دیا ہے اب نہ تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شعیب دوبارہ ٹیم کا حصہ بن پائیں گے یا ڈیڑھ برس کی سزا کاٹتے کاٹتے ان کا کیرئیر ہی ختم ہوجائیگا ۔

نئی کمیٹی نے سزا میں کمی تو ضرورکی ہے لیکن جس چیز کو بنیاد بنا کر سزا ختم کی گئی ہے اس پر اصولی طور پر عمل نہیں کیا گیا۔جسٹس فرخ آفتاب سے جب یہ سوال کیا گیا کہ انہوں نے شعیب کی سزا کن وجوہات کی بنا پر کم کی ہے تو ان کا کہنا تھاکہ پہلے تو پانچ سال کی سزا غیرمناسب تھی اور دوسرا اس کا پورا کیرئیر تباہ ہونے کا خطرہ تھا لہذاپابندی ڈیڑھ برس تک محدود کردی گئی ہے۔

سزا میں کمی پیدا کرنے والے ٹریبونل کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ شعیب اختر دنیائے کرکٹ تیزترین باؤلر ہے اورآج وہ عمر کے جس حصے میں پہنچ چکا ہے اس کیلئے تو ایک سال کی سزا بھی کافی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ فٹنس مسائل میں الجھا رہتا ہے لہذا کرکٹ سے دور رہنے سے وہ نہ صرف اپنی فٹنس کھوبیٹھے گا بلکہ واپسی پر اس کی پرفارمنس کا وہ معیار بھی نہیں رہے گا جو اس کی وجہ پہچان ہے۔ لہذا ماہرین کا خیال ہے کہ ٹریبونل نے شعیب اختر کوکوئی بڑا ریلیف نہیں دیا محض پابندی کی مدت کم کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ شعیب اختر کو ریلیف دیا گیا لیکن بنیادی پر طور پر شعیب اخترکو اس کوئی فائدہ نہیں پہنچالہذا توقع کی جارہی ہے فاسٹ باؤلر اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کا رخ کرینگے۔

مزید مضامین :