پاکستان کرکٹ ٹیم تین ماہ کے دورے پر بیرون ملک روانہ

Pakistani Team 3 Month K Doora Per Beroon Mulk Raawana

تین نومبرسے ابوظہبی،24نومبرسے نیوزی لینڈ اور26دسمبرسے آسٹریلیا میں سیریزکھیلی جائیگی چیمپئنزٹرافی کی شکست اور کپتانی ایشو کو بھلا کر قومی ٹیم جیت کی راہ پر واپس آنے کیلئے پرعزم

جمعہ 30 اکتوبر 2009

Pakistani Team 3 Month K Doora Per Beroon Mulk Raawana
اعجاوسیم باکھری: پاکستان کرکٹ ٹیم تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط بین الاقومی دورے پر آج صبح لاہور سے روانہ ہوگئی ہے۔طویل دورے کے پہلے مرحلے کا آغاز تین نومبرسے ابوظہبی میں ہوگا جہاں پاکستان اور نیوزی لینڈ ون ڈے سیریز کیلئے ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گے۔تین ون ڈے میچز کی سیریز کے بعد دونوں ٹیمیں 12اور13نومبرکو دبئی سپورٹس سٹی میں دو ٹونٹی ٹونٹی میچز کھیلیں گی بعدازاں پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ روانہ ہوجائے گی جہاں 24نومبر سے تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریزکا پہلا معرکہ شروع ہوگا۔

26دسمبر سے پاکستانی ٹیم دورہ آسٹریلیا کا آغاز کریگی جہاں ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کے ساتھ ساتھ ٹونٹی ٹونٹی میچز بھی کھیلے جائیں گے یہاں سے قومی ٹیم 5فروری کو فارغ ہوکر وطن واپس لوٹے گی۔

(جاری ہے)

تین ماہ سے زائد مدت کے دورے کے دوران پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ ، ون ڈے اور ٹونٹی ٹوٹنی میچزپرمشتمل شیڈول ملا ہے اور گزشتہ دوسال میں یہ پہلا موقع آرہاہے کہ جب پاکستان کو مکمل سیریز کھیلنے کو مل رہی ہیں اور تین سال بعد پاکستانی ٹیم تین ماہ کے انٹرنیشنل دورے پر ملک سے باہر کرکٹ کھیلے گی۔

سلیکشن کمیٹی نے اس طویل دورے کے ابتدائی دو حصوں کیلئے تین مختلف ٹیمیں تشکیل دیدی ہیں جہاں عمران فرحت ،عبدالرازق اور سلمان بٹ کی واپسی ہوئی ہے جبکہ مصباح الحق کو ڈراپ کردیاگیا ہے۔فاسٹ باؤلر محمد آصف پابندی کی وجہ سے یواے ای سیریز میں ٹیم کا حصہ نہیں ہونگے تاہم نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے وہ ٹیم کو کیویزکے دیس میں جوائن کرینگے۔

نیوزی لینڈ سے چیمپئنزٹرافی کی شکست کا بدلہ چکانے کیلئے پاکستانی کھلاڑی بے تاب ہیں اور یواے ای سیریز کی بہترین تیاری کیلئے تمام کرکٹرز نے قائداعظم ٹرافی میں بھر پورحصہ لیا اور اپنی کھوئی ہوئی فارم کو واپس لانے کی کوشش کی۔مسائل ،بحران ،مس انڈرسٹیڈنگ ،چپقلش، گروپ بندی اور ناراضگی کو ختم کرنے کیلئے روانگی سے پہلے گزشتہ روز نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں تمام کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ کی ایک طویل ترین میٹنگ ہوئی جس میں تمام کھلاڑیوں کو خصوصی لیکچر دئیے گئے اور سب کی شکایات سن کر ان کی تلافی کی گئی ۔

اسی سلسلے میں ٹیم کے نئے منیجر عبدالرقیب نے کپتان یونس خان اور شاہد آفریدی کے مابین کراچی میں ملاقات بھی کرائی تھی جہاں دونوں سٹارز کرکٹرز نے آپس میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں کو دور کیا اور آئندہ کیلئے ہرقسم کی غلط فہمی سے بچنے کیلئے ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کا عزم کیا۔یونس اور آفریدی کی آپس میں ملاقات ایک قابل تحسین اقدام ہے اور اس سے ظاہرہوتا ہے کہ دونوں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کیلئے فکرمند ہیں اور ٹیم کو دوبارہ جیت کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں ، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں گروپ بندی کا شکار تھے اس ملاقات کے بعد گروپنگ سے دور رہنے پر اتفاق کیا، لیکن سچ یہ ہے کہ یونس خان اور آفریدی ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی غرض سے ملے اور ہماری دعا ہے کہ ان کی آپس میں ملاقات پاکستانی ٹیم کی جیت کا سبب بنے کیونکہ پاکستانی ٹیم کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ٹیم کے تمام کھلاڑی یکجا ہوکر صرف اور صرف جیت کیلئے کھیلے پاکستان ہرمیدان میں فاتح ٹھہرا۔

بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم بہت جلدگروپ بندی کا شکار ہوجاتی ہے اور سینئرکھلاڑیوں کے آپس میں تعلقات خراب ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیم کی کارکردگی متاثرہوتی ہے۔پاکستانی ٹیم میں گروپ بندی یا آپس کی رنجش کوئی نئی چیز نہیں ہے ، یہ ناسور ہمیشہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ رہا ، البتہ ہاں ۔ماضی میں کھلاڑی جب گروپ بندی کا شکار ہوتے تھے تو وہ صلح کے مقابلے میں رنجش کے دنوں میں زیادہ اچھا کھیلتے تھے اور ایک دوسرے سے اچھی کارکردگی پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

لیکن آج کل ایسا نہیں ہوتا، اب کھلاڑیوں کی آپس کی چپقلش کا براہ راست اثر ٹیم کی کارکردگی پرپڑتا ہے۔ماضی میں عمران خان اور سرفراز نواز جب آپس میں ناراض ہوتے تھے تو دونوں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے اینڈ پر زیادہ سے زیادہ وکٹیں لیں تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ میں ٹیم کے ساتھ زیادہ مخلص ہوں۔ اسی طرح جاویدمیانداد اورظہیر عباس چپقلش کے ایام میں ایک دوسرے سے زیادہ سکورکرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

وقاریونس اور وسیم اکرم کی چپقلش تو ہم سب کے سامنے ہے ،یہ دونوں اپنی چپقلش کے غصے میں حریف بیٹنگ لائن اپ تباہ کردیا کرتے تھے ، ایک اینڈسے وسیم اکرم ہراوور میں وکٹ لینے کی جستجو میں نظرآتے تو دوسرے اینڈ پر وقاریونس اپنے تیزاور پنجے توڑ یارکر سے حریف بیٹسمینوں کو زبردستی کریزچھوڑنے پر مجبورکرنے کی کوشش میں نظر آتے تھے ، ان کھلاڑیوں کی آپس میں چپقلش کا ٹیم کو فائدہ ہوتا تھا اور پاکستان نے اس زمانے میں کھلاڑیوں کی رنجش کی بنا پر ہر میدان میں کامیابیاں سمیٹیں لیکن آج کل جب بھی کھلاڑی آپس میں لڑتے ہیں یا چپقلش ہوتی ہے تو وہ جان بوجھ کر ذمہ داری سے نہیں کھیلتے جس کا نقصان ٹیم کواٹھانا پڑتا ہے ۔

لہذا شاہد آفریدی اور یونس خان کی ملاقات اور نیشنل اکیڈمی میں پوری ٹیم کی آپس میں میٹنگ تین ماہ کے طویل دورے سے قبل بہترین اور قابل ستائش اقدام ہے اور امید ہے اس کاوش کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔دوسری جانب یونس خان کو دوبارہ عوام کے بھاری مینڈیٹ کے عوض کپتان بنا دیاگیا ہے اور ان کا استعفیٰ مسترد کردیا گیا ، اب یونس خان کو چاہئے کہ جس طرح عوام نے اس کے حق میں آواز اٹھائی اب وہ بھی عوام کی خوشی کی خاطر نہ صرف خود ذمہ داری سے کرکٹ کھیلے بلکہ اپنی ٹیم کو دوبارہ جیت کے ٹریک پر لے آئے ۔

پاکستانی ٹیم ہرلحاظ سے ایک مکمل اور مضبوط ٹیم ہے لیکن صرف اس ٹیم میں تسلسل کی کمی ہے ،اگر کپتان اور کوچ کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پاکستانی ٹیم جوکہ اس وقت عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر فائز ہے تین ماہ کے دورے کے اختتام پر عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آسکتی ہے ۔تاہم یہ ٹیم کی کارکردگی پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک تسلسل کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن قوم اور شائقین کرکٹ ہمیشہ ٹیم سے بڑی اور مثبت توقعات وابستہ کرتے ہیں امید ہے اس بارتوقعات بھی پوری ہونگی اورقوم کو کرکٹ کے ذریعے خوشیوں کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔

مزید مضامین :