پاکستان کرکٹ کیلئے ایک اور بری خبر،پی سی بی وزارت سپورٹس کے سپرد

Pcb Wizart E Sports K Under Kar Diya Giya

آصف زرداری کی انتھک کوشش کے باوجود بورڈ کے چیئرمین کیلئے کوئی ”قابل“آدمی نہ مل سکا پوری دنیا میں بورڈ کا چیئرمین ایسوسی ایشنز منتخب کرتی ہیں،پاکستان میں یہ فرض صدر مملکت اداکرتے ہیں

جمعرات 25 ستمبر 2008

Pcb Wizart E Sports K Under Kar Diya Giya
اعجاز وسیم باکھری : یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں اہل اور قابل بھروسہ اشخاص کا فقدان پیداہوگیا ہے۔کیونکہ گزشتہ کئی دنوں سے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا رہا جسے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا جا سکے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ڈھونڈنے سے بھی پورے ملک میں ایسے آدمی کا سراغ نہیں ملا جس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب کیلئے بھی کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیاتھا اور اس بار کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا انتخاب بھی اسی سابقہ طرز عمل پر کیا جارہا ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس بار بھی پیپلزپارٹی کوئی ”انوکھا “فیصلہ کریگی۔خیر…پیپلزپارٹی تو جب بھی نئے چیئرمین کا انتخاب کریگی لیکن اس سے قبل مفاد پرستوں اور موقع کے گھات میں بیٹھے حضرات کا ٹولہ بورڈ میں گھس چکا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے پیر جمانے شروع کردئیے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر نسیم اشرف کے دور صدارات میں سینٹ کی سٹیڈنگ کمیٹی برائے کھیل ہمیشہ یہ مطالبہ کرتی رہی کہ کرکٹ بورڈ اپنے اخراجات کا آڈٹ کرائے لیکن کسی کو یہ ہمت نہ پڑی کہ وہ نسیم اشرف سے حساب کتاب لے سکیں۔بعد ازاں جب نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور وزارت سپورٹس کاقلمدان نجم الدین خان کو سونپا گیا جو کہ ایک خالص پٹھان ہیں۔خان صاحب نے پہلی پریس کانفرنس میں نسیم اشرف کومخاطب ہوکر کہاتھا” آپ کے بہت تھوڑے دن باقی ہیں“ لیکن اس گرج کے بعد نجم الدین خان بھی خاموش ہوگئے تھے۔

کیونکہ نسیم اشرف کے ”باس“ پرویز مشرف اس وقت برسراقتدار تھے۔مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو ایک امید کی کرن نظر آئی کہ شاید پاکستان میں خوشحالی لوٹ آئے اور ملک کا نظام بدل جائے ،لیکن بجائے بہتری آنے کے حالات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ماہ ہونے کوہے مگر پی سی بی کے چیئرمین کا انتخاب نہیں کیا جاسکا کیونکہ کرکٹ بورڈ کے آئین میں لکھا ہے کہ ملک کا صدر پی سی بی کا پیٹرن انچیف ہوگا اور چیئرمین پی سی بی کا انتخاب بھی صدر پاکستان کریگا۔

پاکستان کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کرکٹ بورڈکے چیئرمین کاانتخاب صدر مملکت کرتے ہیں جبکہ پوری دنیا میں ایسوسی ایشنز کے ذریعے ووٹنگ ہوتی ہے اور جمہوری طریقے سے چیئرمین کا انتخاب وجود میں آتا ہے لیکن پاکستان یہ کام صدر مملکت کرتے ہیں جہاں ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اہل کو صدر بنائیں یا نااہل کو۔اکثریت ایسا دیکھا گیا ہے کہ یا تو کسی ایسے سفارشی شخص بورڈ میں بٹھایا جاتا ہے جسے کرکٹ کے بارے میں سمجھاتے سمجھاتے چھ ماہ بیت جاتے ہیں یا پھر ملکی تاریخ کے کرپٹ ترین آدمی کو یہ عہدہ اعزاز میں دیا جاتا ہے ۔

کیونکہ پی سی بی وہ واحدملکی ادارہ ہے جس میں پیسے کی ریل پیل ہونے کے ساتھ ساتھ خصوصی میڈیا کوریج بھی فری میں ملتی ہے ۔ایسے میں ہر”ایرے غیرے نتھو خیرے “کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ میں چلا جائے تاکہ بنک اکاؤنٹ بھی تروتازہ رہے اور مفت کی شہرت بھی ملتی رہے۔اسی غیرجمہوری طرز عمل نے پاکستان کے تمام کھیلوں کا بیڑا غرق کیا ہے اور اب رہی سہی کسر کرکٹ میں پوری کی جارہی ہے جس کا حالیہ ثبوت پی سی بی کو وزارت کھیل کے ماتحت کرنا ہے۔

وزارت کھیل کی جانب سے نئے چیئرمین کی تقرری میں تاخیر کی وجہ آصف علی زرداری کی مصروفیت کو جواز بنا کر پی سی بی کو اپنے ماتحت کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا جو دو دن قبل کرکٹ بورڈ کو موصول ہوا اور گزشتہ روز وفاقی سپورٹس سیکرٹری اشرف خان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا دورہ کیا جہاں ان کے اور پی سی بی کے عہدیداروں کے درمیان پاور شیئرنگ پر تفصیلی بات چیت ہوئی ۔

بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اشرف خان نے کہاکہ یہ تاثر غلط ہے کہ وزارت کھیل کرکٹ بورڈ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی وہ دولت کی چمک دیکھ کر کرکٹ بورڈ میں آئے ہیں۔حالانکہ سچ یہی ہے کہ یہ دولت کی چمک ہی ہے جس نے وزارت سپورٹس کو اس جانب متوجہ کیا ہے کیونکہ پی سی بی میں بہت کم ایسے افسر ہیں جو اپنے کام اور پاکستان کرکٹ کے ساتھ مخلص ہیں ورنہ اکثریت محض دولت سیمٹنے میں مگن ہے ایسے میں وزارت سپورٹس کیسے اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے بغیر رہ سکتی تھی۔

اشرف خان نے مزید کہاکہ کرکٹ بورڈ ایک خود مختار ادارہ ہے اور سپورٹس منسٹری کی مداخلت کا بنیادی مقصد چیئرمین پی سی بی کی تقرری میں تاخیرسے پیدا ہونے والے آئینی خلاکو پر کرنا ہے کیونکہ چیئرمین کی عدم موجودگی میں پی سی بی میں کچھ مسائل بڑھ رہے تھے اور اہم کاموں میں رکاوٹ پیدا ہونے سے بچنے کیلئے آئین میں ترمیم کی گئی۔یہاں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ اگر سپورٹس منسٹری کو اس بات کا ادراک بھی ہوا کہ چیئرمین کی غیرموجودگی سے پی سی بی پریشانی کا شکار ہے تو انہوں نے ایوان صدر سے رجوع کیوں نہیں کیا اور کرکٹ بورڈ کی جانب رخ کیونکر کیا؟شاید وزارت سپورٹس کے پاس اس سوال کا جواب نہ ہو کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا قدم اٹھایا جس میں محض افراد کا فائدہ ہے ادارہ کا نہیں۔

اور نہ ہی سپورٹس منسٹری کی مداخلت سے پاکستان کرکٹ کے حالات تبدیل ہونگے۔کیونکہ جب تک نان کرکٹرز پاکستان کرکٹ بورڈ پر قابض رہیں گے تب تک نہ تو پاکستان کرکٹ ترقی کرسکتی ہے اور نہ ہی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ نسیم اشرف اور اس کی باقیات نے پاکستان کرکٹ کو بے پناہ نقصان پہنچایا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سپورٹس منسٹری اس نقصان میں اضافہ کا باعث بنے گی لیکن حالات میں بہتری نہیں آئے گی۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں اگر کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بجائے اس سانحہ کو قومی نقصان سمجھیں ،تجوریاں لیکر موقع سے فائدہ اٹھانے پہنچ جاتے ہیں ۔یہاں لوگ اس گھات میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع میسر آئے تاکہ اپنے ہاتھ صاف کیے جائیں کیونکہ ہماری نیت میں فتور ہوتا ہے اور ہم نے شرافت کا غول چڑھایا ہوتا ہے اور جو بھی کرتے ہیں محض دکھاوے کیلئے کرتے ہیں ۔

اگر ہم خلوص نیت اور ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے تو آج پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 61برس کا عرصہ بیت چکا ہے اس عرصے میں ہم کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ۔اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں ہر نعمت پیداکی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہرگزنہیں ہے لیکن ہماری نیت میں فتوررہتا ہے اور ہم ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں ۔آج پورے پاکستان میں ہر شخص محض اپنی ذات کے مفاد کیلئے کوشاں ہے ۔جس روز ہم نے یہ تسلیم کرلیا کہ پاکستان کی ترقی میں ہماری ترقی ہے ،اس دن سے ہم نہ صرف بحران سے نکلنا شروع کردیں گے بلکہ منزل بھی از خود ہماری جانب بڑھنا شروع کردے گی۔

مزید مضامین :