پاکستان فٹبال ٹیم پریکٹس کیلئے در بدر کے دھکے کھانے پر مجبور

Qoumi Football Team Dardar Ki Thokrain Khane Per Majboor

فٹبال فیڈریشن اور سپورٹس بورڈ پنجاب کے عہدیداروں کی ”قابلیت “کا ایک جائزہ سرکاری حلقے ایسی ”فکرآمیز“رپورٹس کو مایوسی پھیلانے کے نام دینا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں

پیر 3 مارچ 2008

Qoumi Football Team Dardar Ki Thokrain Khane Per Majboor
اعجاز وسیم باکھری: فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے اور یہ واحد کھیل ہے جسے پوری دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا اور کھیل جاتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نہ تواس کھیل کا مستقبل ہے اور نہ اس کھیل کو کھیلنے والے کھلاڑیوں کامستقبل ہے جس کا تمام تر ”کریڈٹ“پاکستان فٹبال فیڈریشن کے “سیاسی“عہدیداروں کو جاتا ہے جو اپنے طور پرتو فٹبال کی ترقی کیلئے بھرپور کوشاں نظر آتے ہیں مگر اصولی، بنیادی ،ترقیاتی ،مثبت اورکامیابی کے حصول کے حساب سے اگر بغور دیکھاجائے تو یکسر ،یکسر ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔

ہورہے ہیں ۔اور اگریہ روش ،یہی رویہ ،یہی اقدامات، یہی سوچ اور یہی فکربرقرار رہی تو مستقبل میں بھی ناکام ہی ہوتے رہیں گے ۔کیونکہ جس معاشرے اور ادارے میں دیانتداری کا عنصر کم پایا جاتا ہو وہ معاشرہ دنیا میں اپنا مقام کھودیتا ہے اور وہ ادارہ چندہی سالوں اپنا نام اور مقام دونوں کھوبیٹھتا ہے۔

(جاری ہے)

ہم صحافیوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے ہم جھوٹی باتوں کو ہوا دیتے ہیں اور عوام میں مایوسی پھیلاتے ہیں ،یہ الزام بے بنیاد ہے۔

کیونکہ ہم بڑے بڑے مگر مچھوں کے کالے چہرے عوام کے سامنے بے نقاب کرتے ہیں اسی لیے ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ ذرا آج کی کہانی سنیئے۔ سپورٹس بورڈ پنجاب کی من مانی اور پاکستان فٹبال فیڈریشن کے عہدیداروں کی نااہلی سے قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی اے ایف سی کپ کی تیاری کرنے کیلئے ٹریننگ کی غرض سے دربدر کے دھکے کھانے پر مجبور ہوچکے ہیں مگر کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیارنہیں ہے اور روایتی طورپردونوں اطراف سے اپنا اپنا دامن بچایا جارہا ہے ۔

بات در اصل یہ ہے کہ پاکستان کی قومی فٹبال ٹیم آجکل لاہور میں موجود ہے اور وہ اے ایف سی کپ کیلئے ٹریننگ کررہی ہے ۔ٹریننگ کیلئے قومی ٹیم کیلئے کوئی گراؤنڈ موجود نہیں ہے ۔فیفافٹبال ہاؤس کے سامنے پنجاب حکومت کا سٹیڈیم موجود ہے جو بظاہر فٹبال کیلئے بنایا گیا تھا مگر پنجاب حکومت سٹیڈیم میں بجائے قومی ٹیم کو پریکٹس کیلئے جگہ دے پرائیوٹ فنکشن کرارہی ہے کیونکہ پرائیوٹ فنکشن والے 10ہزار روپے دیتے ہیں اور اگر وہاں قومی فٹبال ٹیم پریکٹس کرتی ہے تو پنجاب سپورٹس بورڈ کے حصے میں محض 1000ہزار روپے آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے پنجاب سپورٹس بورڈ کی انتظامیہ فٹبال فیڈریشن کو گراؤنڈ دینے سے نالاں ہے ۔

اس سلسلے میں جب پاکستان فٹبال ٹیم کے ہیڈ کوچ اخترمحی الدین سے بات ہوئی تو انہوں نے انتہائی کرب سے کہا کہ ”کھلاڑیوں کیلئے پریکٹس کی کوئی جگہ نہیں ہے کبھی ہم کہاں جارہے ہیں اور کبھی کس جگہ ٹریننگ کررہے ہیں سپورٹس بورڈ سے اپیل کی تھی کہ وہ پنجاب سٹیڈیم میں قومی فٹبال ٹیم کو پریکٹس کیلئے جگہ دے ،مگر انہوں نے سٹیڈیم دینے سے انکار کردیا ۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے اس سلسلے میں سپورٹس بورڈ پنجاب سے کوئی باقاعدہ شکایت کی تو ان کا کہنا تھا کہ “گزشتہ ایک مہینے سے سپورٹس بورڈ پنجاب کو درجنوں لیٹر لکھے حتیٰ کہ پی ایچ ایف کے عہدیددار خود چل کر گئے اور سپورٹس بورڈ پنجاب سے قومی ٹیم کی ٹریننگ کیلئے اجازت مانگی جس پر سپورٹس بورڈ والوں کا موقف تھا کہ ہم نے پرائیوٹ فنکشن کیلئے پہلے ہی سے بکنگ کررکھی ہے لہذا آپ الصبح سات اور آٹھ بجے کے درمیان پریکٹس کرلیا کریں شام کے اوقات کیلئے انہوں معذرت کی قومی ٹیم کے کوچ جب مجھ سے باتیں کررہے تھے تو ان کے چہرے سے اداسی عیاں تھی میں نے اس سلسلے میں جب سپورٹس بورڈ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئر(ر) فاروق یعقوب سے بات چیت کی ۔

پہلے تو ان کے ”پی اے صاحب “نے مجھے ان سے ملنے کی کیلئے کافی انتظار کرایا تو جب میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو انہوں نے ”مہربانی کی “ ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئر(ر) فاروق یعقوب کا موقف تھا کہ ”میرے سے کسی نے آکر بات نہیں کی“ اور نہ ہی فیڈریشن کے کسی عہدیدار نے ان سے سٹیڈیم کو اپنے استعمال میں لانے کیلئے کوئی اجازت طلب کی“۔یہی سوال جب پریس کانفرنس میں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر مخدوم سید فیصل صالح حیات کے سامنے اٹھایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”پنجاب سپورٹس بورڈ والے سٹیڈیم پریکٹس کیلئے دینے پرتیار تو ہیں مگر وہ اتنی بڑی رقم کا مطالبہ کررہے ہیں جو اس وقت ہماری پہنچ سے دورہے ۔

جب سپورٹس بورڈ پنجاب والوں سے ہم نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ آپ نے فٹبال فیڈریشن سے کتنا رقم طلب کی ہے تو جواب ملا محض ”ایک ہزار“روپے۔مگر وہاں مخدوم صاحب نے تو بات دوکروڑ سے بھی آگے تک پہنچادی تھی ۔ان دونوں باتوں میں اس قدر تضاد اور اختلاف ہے کہ سوائے پریشان ہونے کے اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ سپورٹس بورڈ کے عہدیدار یہ اچھی جانتے ہیں کہ قومی فٹبال ٹیم جس نے اے ایف سی کپ میں شرکت کرنی ہے ٹریننگ کیلئے کبھی پنجاب یونیورسٹی اور کبھی گورنمنٹ کالج کا رخ کررہی ہے کیونکہ پنجاب سٹیڈیم میں پرائیوٹ سکولوں کی فنکشن کرائے جارہے ہیں سپورٹس بورڈ پنجاب کو از خود پرائیوٹ فنکشن ختم کرکے قومی ٹیم کو پنجاب سٹیڈیم میں پریکٹس کی اجازت دینی چاہیے مگر پرائیوٹ فنکشن کرنے والے فی ایونٹ 10ہزار روپے کی رقم دیتے ہیں جس سے سپورٹس بورڈکے عہدیداروں کی جیبیں گرم ہوتی ہیں اس لیے وہ بے فکر نظر آرہے ہیں جس ثبوت بریگیڈئر فاروق یعقوب نے پیش کیا کہ انہیں کسی چیز کوئی خبر نہیں ہے ۔

لیکن دوسری جانب فٹبال فیڈریشن کے عہدیداروں کی خاموشی حیران کن ہے کیونکہ ایک سٹیڈیم جو بنا ہی فٹبال کیلئے ہے اور اس میں قومی ٹیم کو پریکٹس کی اجازت ہی نہیں دی جارہی اور وہ نہ تو کسی سے احتجاج کررہے ہیں اور نہ ہی وہ ٹیم کیلئے کسی متبادل گراؤنڈ کا انتظام کررہے ہیں۔اور ایک ہزار فیس کے انکشاف نے تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے۔

اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں بورڈز کے عہدیدار محض ذاتی دوستی کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں وگرنہ پاکستان کی فٹبال ٹیم محض پریکٹس کیلئے یوں در در کے دھکے نہ کھاتی۔چلیں چھوڑیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر آپ یہاں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے اداروں میں کیا کچھ ہورہا ہے اور کیسے انتظامی امور چلائے جارہے ہیں ۔ہماری ترقی اور ”فکر“کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور کس طرف جارہے ہیں ؟؟۔

مزید مضامین :