سیاست اور ذاتی پسند ، قومی کھیل ہاکی تباہی کی آخری سٹیج پر

Qoumi Khel Hockey Tabahi Ki Aakhri Stage Per

پی ایچ ایف کی دوست نواز پالیسی ، ورلڈکپ میں بربادی کے ذمہ داروں کو پچھلے دروازوں سے اندر بلالیا انوکھی منطق،طاہرزمان، قمر ابراہیم،شہباز سینئر،سمیع اللہ ، اصلاح الدین اور شہناز شیخ کو نظرانداز کرکے غیر ملکی کوچ کی تلاش جاری

پیر 31 مئی 2010

Qoumi Khel Hockey Tabahi Ki Aakhri Stage Per
اعجازوسیم باکھری: پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اذلان شاہ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد ایک بار پھر ٹیم مینجمنٹ کو فارغ کرتے ہوئے نئے سرے سے مینجمنٹ تشکیل دینے کافیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں چیف کوچ کے عہدے کیلئے غیرملکی کوچ کی ہنگامی بنیادوں پر تلاش شروع کردی ہے ۔ پی ایچ ایف کے سیکرٹری آصف باجوہ کا کہنا ہے کہ ورلڈکپ میں بدترین شکست کے بعد فیڈریشن نے ملکی کوچزکو اعتماد دیتے ہوئے اذلان شاہ کپ میں ٹیم میں بھیجی لیکن بہتری نہیں آسکی جس کے بعد فیڈریشن نے کوچنگ کی ذمہ داریاں کسی غیرملکی کوچ کو سونپنے کافیصلہ کیا ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کھلاڑی بین الاقومی معیارکے مطابق ٹریننگ کرکے اپنے سکیلزکو بہترکرینگے۔

پی ایچ ایف کی جانب سے غیرملکی کوچ تعینات کرنے کے حتمی فیصلے کے بعد سابق اولمپئنز اور ماہرین کے درمیان ایک نئی بحث چھڑگئی ہے جس میں اکثریت کا خیال ہے کہ غیرملکی کوچ پاکستان ہاکی کو بحران سے نہیں نکال سکتا کیونکہ ماضی میں بھی یہ تجربہ کیا جاچکا ہے اور حالیہ ورلڈکپ میں بھی پاکستان نے دو غیرملکی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود پاکستان ایونٹ میں شریک بارہ ٹیموں میں سے 12ویں نمبرپرآیا۔

(جاری ہے)

پاکستان میں کرکٹ ہویا ہاکی غیرملکی کوچز کا تجربہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔کرکٹ میں رچرڈ پائی بس اور جیف لاسن کو ملکی تاریخ کے ناکام ترین کوچز کہا جاتا ہے البتہ باب وولمر کے دورمیں پاکستان نے شاندار کارکردگی پیش کی جس کی بنیادی وجہ باب وولمر کا ذاتی تجربہ اور کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ ہاکی میں پاکستان نے رولٹ اولٹمنیز کو آزمایا لیکن وہ نہ تو ٹیم کو فتوحات کے ٹریک پر لاسکے اور نہ ہی ٹیم میں پروفیشنل ازم آیا۔

اس کے بعد فیڈریشنز نے ملکی کوچز پر انحصار کیا لیکن ہرسیریز اور ٹورنامنٹ کے بعد مینجمنٹ کو تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کی بدولت نہ تو کوئی مینجمنٹ حالات ٹھیک کرسکی اور نہ ہی کھلاڑیوں میں پروفیشنل ازم آیا۔ ماضی میں جب پاکستان کا دنیائے ہاکی میں طوطی بولتا تھا اس وقت پاکستان کے پاس غیرملکی کوچ نہیں تھے بلکہ ملک کیلئے اعلیٰ خدمات دینے والے عظیم کھلاڑیوں کو بطور کوچ اور ٹیم منیجر ساتھ رکھا جاتا تھا مگرموجودہ فیڈریشن سابق اولمپئنز اور لیجنڈز کو پرانی گاڑی قرار دیکر اپنی لسٹ سے نکال چکی ہے جس کا خمیازیہ ورلڈکپ میں بارہویں پوزیشن حاصل کرکے بھگتنا پڑا۔

یہ بات درست ہے کہ خواجہ ذکاؤالدین ، سمیع اللہ، حسن سردار، اصلاح الدین اور خالد محمود لگاتار ٹیم کے ساتھ کوچنگ کی ذمہ داریاں نہیں سنبھال پائیں گے لیکن ٹیم منیجرکے طور پر ان کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور بین الاقومی سطح پر ہاکی اور فٹبال میں اپنے لیجنڈز کو ٹیم منیجرکے طور پر ساتھ رکھنا ایک کامیاب تجربہ اور روایت سمجھی جاتی ہے جس سے نہ صرف جونیئرکھلاڑیوں کو ان سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے جبکہ حریف ٹیموں کے خلاف بڑے میچوں میں یہ عظیم کھلاڑی گیم پلان میں مفید مشورے دیتے ہیں جن پر عمل کرکے غیرملکی ٹیمیں کامیابیاں سمیٹتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

اگر کوالیفائیڈ کوچز کی بات کی جائے تو ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس نصف درجن سے زائد کوچز ایف آئی ایچ کے کوالیفائیڈ کوچ ہیں لیکن فیڈریشن کی ذاتی پسند اور سیاست کی وجہ سے انہیں ٹیم سے دور رکھا جارہا ہے ۔ ان میں طاہر زمان ، قمر ابراہیم، منصوراحمد، شہباز سینئر، ایاز محمود اور طیب اکرام جیسے بڑے نام ورلڈہاکی میں تسلیم شدہ کوچز ہیں لیکن قومی کھیل میں پھیلی سیاست اور ذاتی پسند کی بنا پر نہ تو یہ لوگ ٹیم کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار ہیں اور نہ ہی فیڈریشن ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی کھلاڑی کم پڑھے لکھے اور انگلش زبان سے عاری ہوتے ہیں۔ غیرملکی کوچز اور کھلاڑیوں کے مابین ہمیشہ زبان کا مسئلہ رہا ہے جس کی وجہ سے نہ تو کھلاڑی کوچ کو اپنی پرابلم بتا سکتا ہے اور نہ ہی کوچ منظم طریقے سے کھلاڑیوں کو اپنی بات سمجھا سکتا ہے۔ اگر پی ایچ ایف ہٹ دھرمی اور ذاتی پالیسی کو ترک کرکے اپنے ملک کے کوالیفائیڈ کوچز کو موقع دے تو نہ صرف قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ کھلاڑیوں میں پروفیشنل ازم بھی آجائیگا لیکن موجودہ حالات میں ایسا ہونا ممکن نظرنہیں آتا۔

کیونکہ پی ایچ ایف کے سیکرٹری آصف باجوہ اور صدر قاسم ضیاء پیپلزپارٹی کی حکومت کی وجہ سے اپنی من مانی کررہے ہیں اوران کے اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ قومی کھیل کو بحران سے نکالنے کی بجائے دوستوں کو نوازنے کا عزم لیکر آئے ہیں جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ ورلڈکپ میں بدترین شکست کے ذمہ داروں کو کوچنگ اور سلیکشن سے فارغ کرکے دوسرے معاملات کی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں جس سے ظاہرہوتا ہے کہ فیڈریشن کسی بھی صورت میں اپنے نااہل دوستوں کو تنہا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے چاہے اس کا کتنا بھیانک انجام ہی نہ ہو۔

ایسی صورتحال میں ہاکی کیسے ترقی کریگا اور کیسے پاکستان ہاکی میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریگا ؟ لیکن حیرت ہے فیڈریشن کے عہدیدار آج بھی کہتے ہیں کہ ہم تو ہاکی کی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں حالانکہ ترقی کی بجائے تنزلی کے پرانے سے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں ۔بحرحال : کرکٹ بورڈ پر اگر نسیم اشرف کی آمریت کا تسلسل ٹوٹ سکتا ہے کہ قومی کھیل کو موجودہ ”ٹولے “سے نجات مل جائے گی کیونکہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی لمبی ہو،آخر صبح ضرور ہوتی ہے۔

مزید مضامین :