قومی ٹیم کا سقوط ڈھاکہ، پہلے ون ڈے میں بدترین شکست

Qoumi Team Ka Saqoot Dhaka

بنگلہ دیش کی لکیر کھینچنے کی خواہشمند پاکستانی ٹیم اپنی لکیر ہی چھوٹی پڑ گئی

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری ہفتہ 18 اپریل 2015

Qoumi Team Ka Saqoot Dhaka

پاکستان کرکٹ ٹیم کی بنگلہ دیش کیخلاف 16سال بعد ون ڈے میچ میں شکست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بنگلہ دیشی ٹیم ورلڈکپ کا کوارٹرفائنل کھیلنے کے بعد کوئی خطرناک حریف بن کر سامنے ابھری ہے، اس شکست کا یہ مطلب لیا جائے کہ پاکستانی ٹیم اپنے بدترین اور مشکل دور دھنستی جاری ہے جس کا کریڈٹ ٹیم مینجمنٹ کو جاتا ہے۔ ورلڈکپ سے پہلے اور ورلڈکپ کے بعد دنیا کی تمام چھوٹی بڑی ٹیمیں بلندیوں کو سفر کرتی نظر آئیں جبکہ اس کے برعکس پاکستانی ٹیم ورلڈکپ سے پہلے ، ورلڈکپ کے دوران اور افسوسناک امریہ ہے کہ ورلڈکپ کے بعدبھی ٹیم پاکستان الٹے قدموں پر چل رہی ہے۔ شکستوں کو اپنے لیے آسان بنانے والی قومی ٹیم ایک المیہ سے نکل کر دوسرے سانحے میں دھنس جاتی ہے اور انتظامیہ کہتی ہے کہ اگلی بار سب حساب چکتے کردیں گے لیکن اگلی بار سود سمیت نئے قرض کی بوجھ تلے آجاتی ہے اور یہ سلسلہ کوئی بنگلہ دیش کیخلاف پہلے ون ڈے سے نہیں شروع ہوا بلکہ رواں سال آسٹریلیا کیخلاف متحدہ عرب امارات میں ون ڈے سیریز میں پٹنے کے بعد نیوزی لینڈ کیخلاف شکست ہوئی پھر نیوزی لینڈ کو نیوزی لینڈ میں جاکر دو ون ڈے میچز بھی پلیٹ میں رکھ کر پیش کردئیے گئے۔

(جاری ہے)

ورلڈکپ کے ابتدائی میچز میں کیا ہوا اس پر بھی راگ دوبارہ اپلانے کا مطلب ہے کہ سانپ گزر گیا ہے تو اب کیا لکیر پیٹنی۔ مصباح الحق کے ناقدین شاید اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں لیکن بنگلہ دیش کیخلاف ون ڈے سیریز کے آغاز میں ہی ثابت ہوگیا کہ ٹک ٹک کا منفی خطاب پانے والے مثبت قائد کی ٹیم کو شدت سے کمی محسوس ہوئی۔ بنگلہ دیشی ٹیم کوئی تیس مار الیون نہیں لیکن بدقسمتی پاکستان ٹیم کے تعاقب میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ 16سال بعد آخرکار بنگلہ دیش نے پاکستان کو جکڑ ہی لیا اور حیران کن طور پر پہلے ون ڈے میں 92ء کی ورلڈ چیمپئن ٹیم کو شکست کی صورت میں شیر بنگال سٹیڈیم میں ویلکم دیا گیا۔ بنگلہ دیش ایک اچھی ٹیم ضرور ہے لیکن پاکستان جس طرح بھارت سے آزاد ہونے کے بعد اسے ہرانے اپنا قومی فرض سمجھتا ہے اس لیے بنگالیوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پاکستان سے آزاد ہونے کے بعد یہ فرض قرض سمجھ کر ادا کریں اور اس بار کمزور ٹیم نے بنگلہ دیشیوں کو یہ موقع فراہم کردیا۔
پہلے ایک روزہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کا اگر موازانہ کیا جائے تو دونوں ٹیموں میں فرق صرف فیلڈنگ کا تھا اور شاید یہ فرق تمام دیکھنے کو محسوس بھی ہوا۔ ورلڈکپ میں بدترین دور سے گزرنے والی قومی ٹیم نے بدترین حالات دیکھے لیکن اپنی اس بدترین غلطی کو سدھارنے میں ٹیم بدستور ناکام ہے ، یہی وجہ ہے کہ ورلڈکپ کے بعد بہترین آغاز کی توقعات کے ساتھ بنگلہ دیش جانے والی قومی ٹیم بدترین آغاز سے نہ بچ سکی۔بنگلہ دیش نے 329 رنز کا ریکارڈ مجموعہ بورڈ پر سجایا تو مصباح الحق کے بغیر میدان میں اترنے والی قومی ٹیم کی اننگز شروع ہونے سے پہلے ہی یقین ہوگیا تھا کہ شکست مقدر بنے گی اور وہ یقین اپنے انجام تک خوش اسلوبی سے پہنچا اور ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ گرتے پڑتے 250 رنز ہی بنا سکی۔ اظہرعلی گوکہ بطور کپتان پہلا ون ڈے ہار گئے لیکن وہ مصباح الحق کے کیا خوب جانشین ثابت ہوئے، بطور کپتان وکٹ پر ٹکے رہے اور سنچری مکمل کرنے سے پہلے سب سے زیادہ رنز بناکر آؤٹ ہوگئے، اظہر علی کو اس لیے بھی قصووار کہنا مناسب ہے کیونکہ بطور کپتان اظہر جانتے تھے کہ اس کی ٹیم ریت کی دیوار ثابت ہوگی اور اپنی وکٹ کا خیال رکھتے لیکن کرکٹ ایک بائی چانس کھیل ہے اور اس میں اگر یہ توقع کی جائے کہ سیٹ بیٹسمین سنچری سے پہلے کیوں آؤٹ ہوا تو یہ بھی زیادتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ سیٹ بلے باز کو اپنی اننگز کو اتنی جلدی ختم بھی نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن اظہر علی غلطی کرگئے اور ان کے بعد آنیوالے بیٹسمینوں نے خوب خانہ پری کی اور شکست سے بچنے کی کوشش میں ایسے ناکام ہوئے کہ دھڑم سے نیچے گر گئے۔

مزید مضامین :