سیمی فائنل کی بجائے مستقبل کا سوچیں!

Semi Final Ki Bajaye Mustaqbil Ka Sochain

ورلڈ ٹی20میں پاکستانی ٹیم کی حالت ایسے ”سائیکل سوار“ کی ہے جو ”فراری“ کو شکست دینے کا سوچ رہا ہے۔۔۔۔ نیوزی لینڈ کیخلاف میچ ہارنے کے بعد سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کیلئے آسٹریلیا کو شکست دینے کے علاوہ بھارت کی آسٹریلیا کیخلاف ہار کی ”دعا“ کرنا ہوگی

Farhan Nisar فرحان نثار منگل 22 مارچ 2016

Semi Final Ki Bajaye Mustaqbil Ka Sochain

شاہد آفریدی کو پہلی ہی گیند پر چانس ملا تو یوں محسوس ہوا کہ یہ شام ”لالہ“ کی شام ہے مگر یوں لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی شاہد آفریدی سے روٹھ گئی ہے کیونکہ بیس برس تک ”بوم بوم“ کی غلامی کرنے والی یہ دیوی بھی اب اُکتا گئی ہے کیونکہ کم و بیش ہر مرتبہ شاہد آفریدی کامیابی کے حصول کیلئے اسی دیوی کی جانب دیکھتے ہیں۔نیوزی لینڈکیخلاف شکست نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ جب تک نام نہاد ”سپر اسٹارز“ اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کریں گے اس وقت تک فتح اس ٹیم سے روٹھی رہے گی۔ جس انداز میں احمد شہزاد نے سیٹ ہوجانے کے بعد اپنی وکٹ گنوائی اور پھر اوپری نمبروں پر بیٹنگ کرنے کی ”بھیک“ مانگنے والے عمر اکمل نے جس بے بسی کیساتھ اپنی وکٹ کیویز کے حوالے کی اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے عمر اکمل اور احمد شہزاد ”میچ ونرز“ ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی عقلوں پر ماتم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان کیلئے یہ میچ ”مارو یا مرجاوٴ“ والی صورتحال کے مترادف تھا جہاں وکٹ پر گھاس کی موجودگی بھی پاکستانی پیسرز میں جوش نہ بھر سکی کیونکہ محمد عامر کے پہلے اوورکے علاوہ پاور پلے میں مارٹن گپٹل نے دل کھول کر پاکستانی پیسرز کی ٹھکائی کی جس کے نتیجے میں کیویز نے پاور پلے میں بغیر کسی نقصان کے 55رنز بنالیے ۔رنز بنانے کا یہ سلسلہ تھم سکا جس کا اختتام نیوزی لینڈ نے 180رنز کے پہاڑ جیسے مجموعے کیساتھ کیا۔ پاکستان کے سب سے عمدہ بالر محمد عامر نے چار اوورز کے کوٹے میں 41رنز دیے جبکہ شاہد آفریدی نے ایک رن کم دیتے ہوئے دو وکٹیں حاصل کیں۔ محمد عرفان اس میچ میں آف کلر دکھائی دیے جنہوں نے چار اوورز میں 41رنز دیے مگر اسپنر عماد وسیم نے عمدہ بالنگ کرتے ہوئے کیویز کو چار اوورز میں 26رنز بنانے کی اجازت دی جبکہ محمد سمیع حیرت انگیز طور پر سب سے کامیاب بالر ٹھہرے جنہوں نے 2/23کی کارکردگی دکھائی۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے 12اوورز میں 100رنز مکمل کیے جبکہ آخری آٹھ اوورز میں پاکستانی بالرز نے 80رنزکا جرمانہ اداکیا۔
وکٹ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے 181کا ہدف ناممکن نہیں تھا اور پھر شرجیل خان کی جارح مزاجی کی بدولت پاکستان نے پہلے اوور میں15اور پاور پلے میں 66رنز بنائے مگر 25بالز پر 47 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلنے والے شرجیل خان کے آوٴٹ ہوتے ہی پاکستانی ٹیم بیک فٹ پر چلی گئی اور پاکستان کے دو ”باصلاحیت ترین“ نوجوان احمد شہزاد اور عمر اکمل ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں کیساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہے۔ احمد شہزاد ہمیشہ کی طرح اچھے اسٹارٹ کو بڑی اننگز میں تبدیل نہ کرسکے اور ایسے موقع پر 30رنز بنا کر آوٴٹ ہوگئے جب پاکستانی ٹیم کی صحیح معنوں میں احمد شہزاد کی جانب سے بڑی اننگز کی ضرورت تھی۔ آخری آٹھ اوورز میں پاکستان کو 85رنزدرکار تھے جہاں احمد شہزاد اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرین شرٹس کو کامیابی کی جانب لے جاسکتا تھا مگر 32گیندوں پر 30 رنز بنانے کے باوجود احمد شہزاد نے نہایت غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیلتے ہوئے اپنی وکٹ گنوائی ۔ شاہد آفریدی نے 200پلس اسٹرائیک ریٹ ضرور حاصل کیا مگر جیت کی جانب پیش قدمی نہ کرسکے اور 181رنز کا ہدف مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔پاکستانی ٹیم کا بنیادی مسئلہ زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنا اور اہم کھلاڑیوں کا پرفارم نہ کرنا ہے۔ نیوزی لینڈ کیخلاف ایک بڑے مجموعے کے تعاقب میں 40ڈاٹ بالز کھیلنا کسی ”گناہ“ سے کم نہیں ہے کیونکہ جس ٹیم کے بیٹسمین صورتحال کے تقاضوں کے مطابق اپنی اننگز کی تعمیر نہیں کرتے انہیں فتح حاصل کرنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
نیوزی لینڈ کیخلاف شکست کے بعد پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ”اگرمگر“ کی صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے۔ آسٹریلیا کیخلاف آخری میچ میں کامیابی لازمی حاصل کرنا ہوگی جبکہ اس کے علاوہ بھارت کی بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کی بھارت کیخلاف فتح پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان،بھارت اور آسٹریلیا کو برابری کی سطح پر لے کر آئے گی جہاں پاکستانی ٹیم بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے (جس کا انحصار بقیہ میچز میں پاکستان اور دیگر ٹیموں کے بنائے گئے رنز پر ہے)لیکن دوسری طرف اگر بھارت نے بنگلہ دیش کیساتھ ساتھ آسٹریلیا کو بھی زیر کرلیا تو پھر گرین شرٹس کا ڈبہ گول ہوجائے گا۔
جمعہ کی شام یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ ورلڈ ٹی20میں گرین شرٹس کا سفر جاری رہے گا یا نہیں اور اگر پاکستانی ٹیم گرتے پڑتے دوسرے میچز کے نتائج پر انحصار کرتے ہوئے سیمی فائنل تک پہنچ بھی جائے تو اسے کامیابی تصور نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ پاکستانی ٹیم ٹی20فارمیٹ کے تقاضوں کے مطابق نہیں کھیل رہی اور کم از کم اس فارمیٹ میں یہ ٹیم دیگر ٹیموں سے بہت زیادہ پیچھے ہے اس لیے ورلڈ ٹی20کے سیمی فائنل کی جانب دیکھنے کی بجائے پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس ٹیم کو کس طرح دیگر ٹیموں کے برابر کھڑا کیا جائے کیونکہ ورلڈ ٹی20میں پاکستانی ٹیم کی حالت ایسے ”سائیکل سوار“ کی ہے جو ”فراری“ کو شکست دینے کا سوچ رہا ہے!

مزید مضامین :