شیر پنجاب دنگل کا کامیاب انعقاد،شاہد پہلوان کھوئے والا نے ٹائٹل جیت لیا

Sher E Punjab Dangaal

پنجاب حکومت کی”فنِ پہلوانی بچاؤ”مہم ،شیر پنجاب دنگل میں 20ہزار سے زائد شائقین کی شرکت رستم زماں گاما پہلوان ، امام بخش ، بھولو پہلوان اور جھارا پہلوان نے برصغیر میں دیسی کشتی کو عروج بخشا

ہفتہ 16 مئی 2009

Sher E Punjab Dangaal
اعجاز وسیم باکھری : دیسی کشتی پاکستان روایتی اور مقبول ترین کھیل ہے۔یوں توپورے ملک میں لوکل سطح پر دیسی کشتی کے مقابلے تواتر کے ساتھ منعقد ہوتے رہتے ہیں لیکن پنجاب میں اس کھیل کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور پنجاب کو دیسی کشتی کا گڑھ کہاجاتاہے۔پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے فن پہلوانی کوحکومتی سطح پر اہمیت نہیں دی جارہی تھی تاہم شہبازشریف کی حکومت نے پنجاب میں دیسی کشتی کے بڑے دنگل منعقدکرکے ایک بار پھر فن پہلوانی کو زندہ کردیا ہے۔

دیسی کشتی کے فروغ کیلئے گزشتہ دنوں لاہور پنجاب سٹیڈیم میں”شیر پنجاب“دنگل منعقد کیا گیاجس میں شاہدکھوئے والا نے اچھی ملتانی کو ہراکر شیرپنجاب کا ٹائٹل جیت لیا۔چیئرمین وزیر اعلیٰ ٹاسک فورس برائے کھیل اعجاز گل کی سرپرستی میں ہونیوالے اس تاریخی دنگل سے لطف اندوز ہونے کیلئے پنجاب سٹیڈیم میں 20ہزارسے زائد شائقین نے شرکت کرکے دیسی کشتی سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

شیر پنجاب دنگل میں مجموعی طور پر 15چھوٹے بڑے مقابلے ہوئے تاہم ٹائٹل کشتی میں شاہدکھوئے والا نے اچھی ملتانی کو 22منٹ کی کشتی کے بعد شکست دیکر اگلے ایک سال تک شیر پنجاب کی ”پگ“اپنے سرسجالی۔یہ دوسرا موقع ہے کہ رستم ملتان اچھی ملتانی شیر پنجاب دنگل کی ٹائٹل کشتی میں شکست کھا گئے ،گزشتہ سال بلوشیخوپوریہ نے اسی مقام پر اچھی ملتانی کو ہرایا تھا۔

شاہد کھوئے والے نے شیر پنجاب ٹائٹل حاصل کرنے کے بعد رستم پاکستان مقابلے میں شرکت کا عزم ظاہر کیا اور پنجاب حکومت کی دنگل کرانے کی روایت کو فن پہلوانی کو دوبارہ بام عروج پر لیجانے کیلئے بہترین کاوش قرار دیا جبکہ اچھی ملتانی شکست کے بعد انتظامیہ سے سخت نالاں نظر آئے ۔اچھی ملتانی کا کہنا تھاکہ وہ زخمی حالت میں دنگل میں شریک ہوئے اور ریفریز نے اس کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کیا لیکن چیئرمین دنگل آرگنائرنگ کمیٹی اعجازگل اچھی ملتانی کے الزام کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی مقابلے میں جانبداری کا سوچا بھی نہیں جاسکتا اور شیر پنجاب 2009ء دنگل توقعات سے بڑھ کر کامیاب رہا ۔

پنجاب حکومت کی جانب سے دیسی کشتی کے فروغ کیلئے کیے جانیوالے اقدامات قابل تحسین ہیں کیونکہ برصغیر کے ثقافتی ورثے میں جو روایات مسلسل زوال کا شکار ہیں ان میں ایک دیسی کشتی بھی ہے ۔ میڈیا نے کرکٹ ، ہاکی ، فٹ بال اور سکواش جیسے کھیلوں کو فروغ دیکرعوام میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے، مگر ساتھ ہی دیسی کشتی جیسے روایتی کھیلوں سے چشم پوشی کرکے نہ صرف فن پہلوانی غیر مقبول بنا دیا بلکہ نوجوان نسل کو اس صحت مندتفریح سے بھی دور کردیا۔

نئی نسل کے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند ایک زمانے میں نامی گرامی پہلوانوں کا مرکز رہا ہے ؟ تقسیم کے بعد نامور مسلمان پہلوانوں نے پاکستان کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ آج ہمارے ملک میں جو لوگ فری سٹائل ریسلنگ کے دلداد ہ ہیں اور اس فیلڈمیں انڈر ٹیکر ، ہوگن اورجان سینا اور بیٹسٹا جیسے ریسلرز کو پسند کرتے ہیں، انہیں شاید علم بھی نہ ہو کہ رستم زماں گاما پہلوان ، امام بخش پہلوان ، رستم ہند بھولو پہلوان ، رحیم بخش سلطانی والا ، یونس گوجرانوالیہ ، زبیر عرف جھارا اور دیگر کئی پہلوان اس دھرتی کے سپوت ہیں، جنہوں نے فنِ پہلوانی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ ان میں سے بعض کے نام اپنے وقت میں دنیا کے طاقتور ترین انسان کے طور پر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں آنے کے قابل ہیں ۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائی تک دیسی کشتی برصغیر، خصوصاً پاکستان، کا مقبول ترین کھیل تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلوانوں کو عام لوگوں میں خصوصی امتیاز حاصل تھا۔ پاکستان میں فنِ پہلوانی کو عروج تک پہنچانے اور اسے مقبول بنانے میں گاما پہلوان کے خاندان کا نمایاں کردار ہے ۔ گاما اور بھولو پہلوان عوام میں افسانوی شہرت رکھتے تھے اور ان سے منسوب کئی قصے زبان زدِ خاص و عام تھے ، حتیٰ کہ مقامی آبادی کی اکثریت انہیں بجا طور پر دنیا کے عظیم ترین پہلوان تصور کرتی تھی ۔

ماضی میں پاکستان کے اندر فن پہلوانی کو محض ایک تفریحی کھیل کے طور پر نہیں لیا جاتا تھا بلکہ یہ فن سائنس ، تکنیک اور قوت کا ایک ایسا امتزاج تھا جسے ہر کوئی انتہائی سنجیدگی سے محسوس کرتا تھا۔ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر میں فنِ پہلوانی مغلوں کی آمد کے ساتھ وارد ہوا اور جلد ہی اس نے عوام میں مقبولیت حاصل کر لی ۔ پاکستان میں پہلوانی کا مرکز لاہور شہر تھا جہاں تقریباً 600 کے قریب اکھاڑے تھے جن میں تقریباً دس ہزار نوجوان روزانہ تربیت حاصل کرتے تھے ۔

ان نوجوانوں کو تربیت دینے والے اپنے اپنے وقت کے نامور پہلوان تھے ۔ پہلوانوں کی تربیت اوائل عمر سے ہی شروع ہو جاتی اور 20 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے نوجوان اپنی مضبوط جسامت سے ہی پہلوان معلوم ہوتا۔ ان پہلوانوں کو دن میں پانچ گھنٹے کسرت کرائی جاتی جو بالعموم سہ پہر تین بجے شروع ہوتی اور بعدازاں دو گھنٹے انہیں اکھاڑے میں زور کرنا ہوتا تھا۔

اگرچہ پوری دنیا میں کشتی کا انداز بدل چکا ہے اور آج امریکہ اور مغرب میں فری سٹائل ریسلنگ کا دور دورہ ہے ، تاہم آج بھی جب کہیں دیسی کشتی کا دنگل ہوتا ہے شائقین ہزاروں کی تعداد میں امڈ آتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فن پہلوانی کی جڑیں ہمارے دلوں میں کس حد تک گہری ہیں۔ آج کے تیزرفتار دور میں پنجاب حکومت کی جانب سے دیسی کشتی کے فروغ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا کسی نعمت سے کم نہیں اوراگر اب بھی اس ثقافتی ورثے کو بچانے کے لئے حکومت نے کوئی اقدام نہ کئے تو آئندہ چند سال بعد فن پہلوانی یا دیسی کشتی کا ذکر صرف کہانیوں میں ہی ملے گا۔

ماضی میں میاں نواز شریف کی حکومت نے اس کھیل کے بچاؤاور فروغ کے لئے اقدامات ضرور کئے تھے جس سے دیسی کشتی کو نئی جان ملی تھی جس کا عملی مظاہرہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے اقبال پارک لاہور میں دیسی کشتی کے لئے ایک سٹیڈیم کی تعمیر شامل ہے ۔ تا ہم صرف لاہور میں ایک سٹیڈیم بنا دینے سے دیسی کشتی دوبارہ بام عروج پر نہیں جاسکتی ۔ لاہور کی طرح گوجرانوالہ اور ملتان میں بھی ایسے ہی سٹیڈیم تعمیر کئے جانے چاہئیں کیونکہ ان دو شہروں میں دیسی کشتی کے دلدادہ افراد اب بھی موجود ہیں۔

پنجاب، جو بالخصوص دیسی کشتی کا مرکز ہے ، وہاں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور توقع کے عین مطابق شہباز شریف کی سرپرستی میں پنجاب میں دنگل منعقد کرانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اورامید ہے کہ شہباز شریف اس کھیل کے فروغ کے لئے مزید بہترین اقدامات کریں گے اور شیر پنجاب دنگل کی طرح پنجاب بھر میں دنگل منعقد کرانے کا سلسلہ جاری رہے گا جس سے فن پہلوانی دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

مزید مضامین :