”ہالینڈ کو زیر کرنے والے شیر سری لنکا کے خلاف ڈھیر “

Srilanka Beat Pakistan Super 8 1st Match

یونس خان کے فیورٹ بیٹسمینوں کی ناقص کارکردگی کا سلسلہ جاری ،سیمی فائنل کیلئے رسائی مشکل ہوگئی آج نیوزی لینڈسے اہم معرکہ آرائی ،عبدالرزاق دو سال کے وقفے کے بعد پاکستان کی نمائندگی کرینگے

ہفتہ 13 جون 2009

Srilanka Beat Pakistan Super 8 1st Match
اعجازوسیم باکھری : آئی سی سی ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کا سپرایٹ مرحلہ شروع ہوچکا ہے جہاں پاکستانی ٹیم اپنے پہلے میچ میں سری لنکا کے خلاف 150رنز کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پہلے ہی میچ میں شکست کے بعد مارو اورمرجاؤکی صورتحال سے دوچار ہوگئی۔سری لنکا کیخلاف اہم میچ میں پاکستانی باؤلرز نے شروع کے چنداوورز میں زیادہ اچھی بولنگ نہیں کی تاہم سپنرز نے حسب معمول حریف بیٹسمینوں کو بڑا ٹوٹل کرنے سے روکے رکھا اور وکٹ ٹو وکٹ گیندیں کروا کر سری لنکن ٹیم جو عمدہ آغاز کے بعد 180سے زائد رنز کا ٹارگٹ مقرر کرچکی تھی انہیں صرف 150رنزتک محدود رکھا۔

جواب میں جب پاکستان نے بیٹنگ کا آغاز کیا تووہی ہوا جس کا ڈر تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمیشہ کی طرح سلمان بٹ نے سست روی سے آغاز کیا اور ایک ایسی بال پر کراس کھیلنے کی کوشش کی جوکہ ان سوئنگ سلوبال تھی جس پر ہمیشہ احتیاط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن شاید سلمان بٹ اپنی ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کیلئے سلیکشن پر اٹھائے جانیوالے اعتراضات کو غلط ثابت کرنے کیلئے کوئی بڑی اننگز کھیلنا چاہتے تھے اور اسی کوشش میں میچ کے پہلے ہی اوورمیں بولڈہوگئے۔

(جاری ہے)

کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ دنیا کی دوسری ٹیموں کو ان کے اوپنر عمدہ آغاز فراہم کرتے ہیں اوراپنی وکٹ روک کرکھیلتے ہیں تاکہ ان کے جلدی آؤٹ ہونے سے ٹیم پر پریشر نہ پڑے لیکن پاکستانی ٹیم واحد ٹیم ہے جس کے اوپنر ابتدائی اوورز میں نہ صرف سلو کھیل کر اپنی ٹیم کا رن ریٹ گرادیتے ہیں بلکہ اس حدتک پریشر لے لیتے ہیں کہ خود بھی آؤٹ ہوجاتے ہیں اور آنیوالے بیٹسمینوں کیلئے بھی مصیبت کھڑی کرجاتے ہیں جس سے ٹیم ایک آسان ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بھی لڑکھڑا جاتی ہے۔

سلمان بٹ گوکہ یونس خان کی نظرمیں ایک عمدہ بیٹسمین ہونگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کیلئے موزوں بیٹسمین نہیں ہے کیونکہ سلمان بٹ شارٹ کھیلتے ہوئے گھبراجاتا ہے اور بوکھلاہٹ کے عالم میں ہٹ کرتا ہے جس پر وہ ہمیشہ ناکام رہا ہے ،ہاں البتہ پاکستان ،بھارت اور سری لنکا کی بے جان وکٹوں پر وہ ٹیسٹ اور ون ڈے میں موٴثر ثابت ہوتا ہے لیکن ٹونٹی ٹونٹی میں سلمان بٹ کی شمولیت نہ صرف خود سلمان کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے ٹیم بھی نقصان اٹھاتی ہے لیکن چونکہ اسے یونس خان نے اپنی مرضی سے ٹیم میں شامل کیاہے چونکہ یونس خود ٹیسٹ کرکٹرہے اور اسے ٹونٹی ٹونٹی کیلئے بھی ٹیسٹ کرکٹرز پسند آئے جس کا خمیازہ آج پوری ٹیم بھگت رہی ہے۔

سری لنکا کے خلاف سپرایٹ کا پہلا میچ ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات تھوڑے کم ہوگئے ہیں کیونکہ اب ٹاپ فور ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے پاکستان کو اگلے دونوں میچز میں کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔پاکستانی ٹیم سپر ایٹ میں اپنا دوسرا میچ آج نیوزی لینڈ کے خلاف کھیل رہی ہے جہاں پاکستان کو ایونٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کیلئے لازمی فتح درکار ہے شکست کی صورت میں پاکستان ٹیم ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہوجائے گی تاہم اگر پاکستان کو کامیابی ملتی ہے تو 15جون کو آئرلینڈ کو ہراکر پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے پاکستانی ٹیم تب سیمی فائنل میں پہنچ سکتی ہے اگر نیوزی لینڈ سری لنکا سے شکست کھاتی ہے ۔

پاکستانی ٹیم کو ایک بارپھر وہی پہلے مرحلے والی صورتحال کا سامنا ہے جس کی تمام ترذمہ داری ناقص مینجمنٹ اور اعجازبٹ پر عائدہوتی ہے جنہوں نے نااہل کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹولہ انگلینڈ روانہ کردیا جوقوم کے جذبات کو پش پشت ڈال کر تفریح کرنے میں لگا ہواہے اور کسی ایک بھی اس بات کی فکر نہیں کہ وہ انگلینڈ میں ایک ملک کی نمائندگی کرنے کیلئے آئے ہیں۔

گزشتہ روز انتخاب عالم ،یونس خان اور ٹیم منیجر یاورسعید سمیت اعجاز بٹ کے کٹ پتلی کردار سے تنگ آکر چیئرمین سلیکشن کمیٹی سے مستعفی ہونیوالے عبدالقادر کی پریس کانفرنس کے بعد کم از کم میری تو پاکستانی ٹیم سے امیدیں ختم ہوگئی ہیں کیونکہ جس قدر انتخاب عالم اور یونس خان نے ٹیم کی سلیکشن میں اپنی مرضی اور کوتاہیاں کیں ان کو مدنظر رکھ کر پاکستانی ٹیم کا دوسرے راؤنڈمیں پہنچنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔

عبدالقادر موجودہ بورڈ میں کام کرنے والے واحدشخص تھے جنہوں نے اس سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی اور وہ مکمل طو رپر حق پر ہیں کیونکہ انہوں نے جوٹیم ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کیلئے بنائی تھی اس میں یونس خان کو ریسٹ کے نام پر شامل نہیں کیا گیا تھا جوکہ ایک درست فیصلہ تھا کیونکہ یونس ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کا کھلاڑی ہی نہیں ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس نے چیئرمین پی سی بی کی تھپکی کی وجہ سے نہ صرف خود کو ٹیم کا کپتان برقرار رکھا بلکہ ٹیم بھی اپنی مرضی سے سلیکٹ کی جو کہ عبدالقادر جیسے عظیم کھلاڑی کی توہین تھی کہ وہ چیئرمین سلیکشن کمیٹی ہونے کے باوجود بھی کچھ نہ کرسکے۔

ہم پاکستانیوں میں یہ ایک بڑی مرض ہے کہ ہم جب کسی عہدے پر آتے ہیں تو پھر اس سے چمٹ کر رہ جاتے ہیں اور حالات چاہیے جیسے بھی ہوجائیں اور پانی جتنا بھی سرسے اوپر چلا جائے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ادارہ تباہ ہوتا ہے ہو جائے ،ملک فنا ہوتا ہے ہوتا رہے، لیکن میں بچا رہوں۔ ہم پاکستانیوں نے کبھی بھی اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جوکرتے ہیں اپنے ذاتی مفادکی خاطر کرتے ہیں۔

میں آپ کو یہاں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان اینڈریوسٹراؤس کی مثال دیتا ہوں کہ وہ انگلینڈ کی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیموں کا کپتان ہے اور دونوں فارمیٹ کی کرکٹ میں اوپنر کی حیثیت سے کھیلتا ہے لیکن جب ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ آنے لگا جو کہ اس کے اپنے ملک میں کھیلا جارہا ہے اس نے نوجوان بیٹسمین لُک رائٹ کی خاطر جوکہ ڈومیسٹک ٹونٹی ٹونٹی کپ میں اچھا کھیل رہا تھا نہ صرف اس کیلئے ٹورنامنٹ سے دستبردار ہوا بلکہ اس نے خوش دلی سے کپتانی کی پگڑی بھی کولنگ ووڈ کے سر رکھ دی، اسی طرح سچن ٹنڈولکر دنیائے کرکٹ کا نمبر ون بلے باز ہے اس کے پاس تمام ریکارڈز موجود ہیں لیکن یہ لگاتار دوسرا ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ ہے وہ بھارتی ٹیم شامل نہیں ہوا کیونکہ اسے اپنی ذات سے زیادہ ٹیم کا احساس ہے لیکن میں معذرت کے ساتھ کہوں گا ہم پاکستانیوں میں یہ خوبی نہیں ہے اور نہ ہی ہم میں سے کسی میں اتنا ہمت ہے کہہ وہ اپنی ذات کے مقابلے میں ملک یا ادارے کے مفاد کو ترجیح دے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہم دنیا بھر میں رسوا ہورہے ہیں۔یونس خان کو اگر ملک عزیز تھااور ٹیم کی کامیابی مقصود ہوتی تووہ نہ صرف عبدالقادر کو ٹیم سلیکٹ کرنے کا موقع دیتا بلکہ ازخود ورلڈکپ میں شرکت سے انکار کردیتا لیکن وہ کیسے ایسا کرتا ؟کیونکہ وہ بھی تو ایک پاکستانی ہے۔ بہرحال:ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے اوراپنے ملک کی عزت کی خاطر ہراگلے میچ کیلئے دعا ہوتی ہے کہ پاکستان کو کامیابی ملے کیونکہ جب ٹیم شکست کھاتی ہے تولوگ یہ نہیں کہتے کہ یونس خان کی ٹیم شکست کھا گئی لوگ اسے پاکستان کی ہار کہتے ہیں جوکہ ہمارے لیے یہ فقرہ باربارسننا ناقابل و قبول ہے۔

شکست کھا جانا کوئی بڑی بات نہیں اور ٹیمیں ہار بھی جاتی ہیں لیکن ہارنے کا طریقہ ہوتا ہے ،اگر ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں میں صرف ہالینڈ کو ہرانے کی صلاحیت ہے تو بڑی ٹیموں کے خلاف یہ اگر کامیابی حاصل نہیں کرسکتے تو قوم کے دکھاوے اور حوصلے کی خاطر کم از کم کچھ مزاحمت تو کرلیا کریں تاکہ ایک پاکستانی یہ تو کہہ سکے کہ میری ٹیم نے جیت کیلئے محنت تو کی۔

سری لنکا سے ہارنے کے بعد ایک بار پھر ہماری دعاہے کہ پاکستان نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی حاصل کرے اور آج کا میچ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ سٹار آل راؤنڈ عبدالرزاق دوسال کے وقفے کے بعد ٹیم میں واپس لوٹ آئے ہیں اور وہ اپنے ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔لندن جانے سے قبل ماڈل ٹاؤن گرین کرکٹ گراؤنڈ پر عبدالرزاق سے ملاقات کے دوران میں نے اسے بتایا کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ہمارے سینکڑوں قارئین ہمیشہ جب بھی ٹیم شکست کھاتی ہے آپ کو اورعمران نذیر کو یاد کرتے ہیں اور آپ کی واپسی کی خبرسن کر قارئین نے مسرت کا اظہار کیا تو زراق نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور کہاکہ وہ ورلڈکپ میں جتنے میچز بھی کھیلے اپنے طورپر بھرپورکوشش کرینگے۔

زراق نے وعدہ کیا کہ ورلڈکپ سے واپسی پر وہ اردوپوائنٹ کے قارئین کیلئے ایک تفصیلی انٹرویو دیں گے۔ہماری نیک تمنائیں رزاق اور پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہیں کیونکہ یہ ٹیم انتخاب عالم ،اعجازبٹ یا یونس خان کی نہیں ہے بلکہ16کروڑ پاکستانیوں کی ٹیم ہے اور ہماری خواہش ہے کہ پاکستان آج نیوزی لینڈکو شکست دیکرسیمی فائنل کی دوڑ میں اپنا جگہ برقرار رکھے۔

مزید مضامین :