ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان کا سست، مایوس کن اور بزدلانہ آغاز

T20 World Cup Main Pakistan Ka Mayuskun Aghaz

پاکستانی ٹیم نے ورلڈکپ مقابلوں میں بھارت سے شکست کی روایت برقرار رکھی محمد حفیظ کو جاکر کوئی سمجھائے کہ بڑے میچز خوف زدہ چہرے اورغیرضروری محتاط رویے سے نہیں بلکہ ہشاش بشاش چہرے اور دلیری دکھا کر جیتے جاتے ہیں

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری منگل 3 فروری 2015

T20 World Cup Main Pakistan Ka Mayuskun Aghaz
اعجازوسیم باکھری: بھارت کیخلاف میچ ہارنے کا نہ نجانے ماضی کے مقابلے اس بار کیوں کم دکھ ہوا۔ شاید اس لیے کہ میچ کے آغاز ہی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ قومی شہزادے آج کیا چن چڑھائیں گے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے پہلے میچ میں قومی ٹیم کی شکست کی ذمہ داری میں صرف اور صرف کپتان محمد حفیظ پہ ڈالنا چاہوں گا کیونکہ دونوں ٹیموں میں فرق صرف اور صرف کپتانی کا تھا۔

بھارتی کپتان دھونی کے مقابلے میں محمد حفیظ گوکہ کم تجربہ کار ہے لیکن جس طرح دھونی نے کپتانی کی اس کے مقابلے میں محمد حفیظ نے دس فیصد بھی کپتانی نہیں کی۔ اگر پروفیسر صاحب کپتانی بھی نہیں کرنا چاہتے یا کرنانہیں آتی تو کم از کم دلیری تو دکھاتے ۔ ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ تو میدان میں اترتے۔ میدان میں اترتے ہی حفیظ کا چہرہ ہی اتر گیا تھا بلکہ ٹاس ہار کر حفیظ کے شکل قابل ترس لگ رہی تھی۔

(جاری ہے)

بچپن کے بہترین ٹیپ بال کے بلے باز محمد حفیظ کو کوئی جاکر سمجھائے کہ کپتان جی ، اللہ نے اگر کپتانی کا موقع دے ہی دیا ہے تو کپتانی دلیری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ بہترین اور رسکی فیصلے کیے جاتے ہیں، محمد حفیظ کی نظر میں شاید کپتانی اس چیز کا مطلب ہے کہ پہلی بال بھی میں کھیلوں گا اور پہلا گیند بھی میں پھینکوں گا۔ ایسی حرکتیں اور کپتانی اتوار کے دن سڑک پر کھیلنے والے محلے کے لڑکے بھی نہیں کرتے جس طرح کپتانی محمد حفیظ نے کی۔

مجھے تو معین خان پر حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا بڑا کھلاڑی ٹیم کے ساتھ بطور ہیڈ کوچ موجود ہے ، نجانے وہ کہاں گم تھا، جب آپ کے ٹاپ بلے باز سکور نہیں کررہے اور رن ریٹ شرمناک حد تک گرچکا ہے تو بھائی صاحب بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا کیا کوئی گناہ تھا۔ صہیب مقصود کو آخری نمبروں پر بھیجنے کا کیا مطلب تھا؟ شاہدآفریدی کا ایک طرح کا ہوا بنا ہوا تھا اُسے کیوں تاخیر سے بھیجاگیا؟، یہی وہ رسکی فیصلے ہوتے ہیں جو کپتان اور کوچ کو کرنا ہوتے ہیں لیکن شاید دونوں ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر سردیوں میں ”ستوو“ پی رہے تھے جو ان کی عقل پر ٹھنڈ جم چکی تھی۔

پاکستانی بیٹنگ پر بار بار تنقید کرنا بھی بیکار ہے۔ جب سب کو معلوم ہے کہ یہ کھوٹے سکے ایک میچ میں چلتے ہیں تو دوسرے میچ میں زمین پر رینگنا شروع کردیتے ہیں ،ان چلے ہوئے کارتوسوں سے کیا شکار کیا جائے یا شکار میں کامیابی کی کیا توقع رکھی جائے جو مشکل وقت میں بندوق میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ خزاں کے بیکار پتے اگر دھونی کے پاس ہوتے تو وہ انہیں تاش کے پتے بناکر ایسے اندازمیں کھیلتا کہ کسی بھی ٹیم کو تہس نہس کردیتا ۔

لیکن ہمارے کپتان جی اور کوچ صاحب تمام پہلوؤں سے آشنا ہونے کے باوجودبھی ان سے مناسب کام نہیں لے سکے اور بھارت کو ہرانے کا ایک اچھا موقع گنوا دیا۔ جب بیٹنگ آرڈر پر ٹرسٹ نہیں ہے تو بھئی ان کے نمبرز تبدیل کرو، نیچے والوں کو اوپر بھیجو اور اوپروالوں کو نچلے نمبروں پر کھلاؤتاکہ حریف ٹیم کی حکمت عملی اور پلاننگ تو خراب ہو۔ لیکن مجال ہے کسی کو یہ عقل آئی ہو۔

جو جو دھونی نے سوچ رکھا تھا اور جس طرح اس نے ہر بلے باز کی پلاننگ کررکھی تھی اُسی طرح اس نے سب کا باری باری اپنی مرضی سے شکار کیا اور پاکستان کیخلاف ورلڈکپ مقابلوں میں بھارتی فتوحات کے ریکارڈ کو برقرار رکھا جس پر دھونی تعریف کا مستحق ہے۔ اس تفصیل میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ کامران اکمل کیسے رن آؤٹ ہوا اوراس میں احمد شہزاد کتنا قصور وار ہے، شعیب ملک کیوں نہیں چلا اور عمراکمل میں مستقل مزاجی کیوں نہیں آتی، آفریدی کیوں دھوکہ دے گیا اور حفیظ کس برے انداز میں آؤٹ ہوا۔

یہ سب باتیں یہ سب واقعات یہ سب حرکتیں گزشتہ تین سے چار سال سے ہرمیچ میں بار بار دہرائی جارہی ہیں اور ان پر کافی لے دے ہوچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکمت عملی کیوں نہیں بنائی گئی اور اگر بنائی گئی تھی تو اس کا ذمہ دار کون ہے اور اگلے میچز میں کیا یہی سب کو دہرایا جائیگا۔ میرا خیال تھا کہ پاکستان کی باؤلنگ کمزور ہے اور کمزور باؤلنگ کی وجہ سے ہم مار کھا جائیں گے لیکن نہ صرف میں غلط ثابت ہوا بلکہ ہماری بیٹنگ ہی غلط ہوئی جس کی وجہ سے شکست کا صدمہ سہنا پڑا۔

ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ ،وہ بھی ورلڈکپ کا میچ ہو اور دنیا کے بہترین بلے باز حریف ٹیم میں شامل ہو ںآ پ 120گیندوں پر 130رنز کے ہدف کا کیسے دفاع کرسکتے ہیں۔خواب دیکھنے اور چمتکار کا انتظار کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن حقیقت سے آنکھیں بھی نہیں چرانی چاہیں کہ آپ 120گیندوں پر 130رنزکے ٹارگٹ کو حریف ٹیم کیلئے مشکل بنادیں گے۔ اتنا قلیل ٹارگٹ مشکل بن بھی جاتا ہے لیکن ہربار چمتکار نہیں ہوتا۔

ہمارے باؤلرز نے اچھی باؤلنگ کی اور بھارت نے 19اوویں میں جاکر ہدف پورا کیا ، یہ میچ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ کی وجہ سے بھی سے ہاتھ سے نکلا۔بھارت کے خلاف جو ہونا تھا ہوگیا اب آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے خلاف مقابلہ ہے، سیمی فائنل تک رسائی کیلئے ہوش کے ساتھ ساتھ جوش کے ساتھ بھی کھیلنا پڑیگا اور مثبت سوچ کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔

ٹی ٹونٹی کرکٹ میں آپ کو رسکی فیصلے کرنا پڑتے ہیں، یہاں ایک ایک اوور میں میچ کا نقشہ تبدیل ہوتا ہے۔ بلاول بھٹی نے جب یوراج کا غرور خاک میں ملایا تو پاکستان کے چانس نظر آنا شروع ہوگئے تھے یہی ٹی ٹونٹی کرکٹ کا حسن ہے، حفیظ کو حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی اور اٹیکنگ کرکٹ کھیلنا ہوگی۔ بیس اوور میں آپ نہ تو وکٹ پر سیٹل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی میڈان اوور افورڈ کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو آئندہ میچز میں پوری قوت اورجوشیلے انداز میں کرکٹ کھیلنا ہوگی ورنہ آسٹریلیا ویسٹ انڈیز تو کیا بنگالی ٹائیگرز کے جبڑوں سے بھی ہاتھ چھڑانا مشکل ہوجائیگا۔

مزید مضامین :