پاک بھارت ٹاکرا، برصغیر کرکٹ فیور میں مبتلا

The Big Game

بھارت کی بہترین بیٹنگ پاکستان کی قدرے مضبوط باؤلنگ اٹیک کا مقابلہ دیکھنے لائق ہوگا بھارت نے ہرورلڈکپ مقابلے میں پاکستان کو ٹنڈولکر کی موجودگی میں شکست دی ، اب ٹنڈولکر ٹیم کا حصہ نہیں تو کیا تاریخ بھی بدل جائے گی ؟

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری ہفتہ 14 فروری 2015

The Big Game

کہنے کو تو کرکٹ محض ایک کھیل ہے، لیکن 15 فروری کو عالمی کپ میں پاک بھارت مقابلے کے منتظر کھلاڑیوں اور دونوں کے کروڑوں پرستاروں کے لیے یہ صرف کھیل نہیں ہے۔عالمی کپ 2015ء میں گروپ ’بی‘ کے اس مقابلے کے تمام ٹکٹ صرف 20 منٹوں میں فروخت ہوگئے تھے اس سے واضح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ہائی ولٹیج میچ کا کتنا اثر لیا جارہا ہے۔پاک بھارت کی میچ کی یہ خوبصورتی ہے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی اتنے تناؤ کا شکار نہیں ہوگا جتنا پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی اور کروڑوں کرکٹ دیوانے محسوس کریں گے۔

جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک جب بھی کرکٹ میدان میں مدمقابل ہوتے ہیں، جذبات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی نوعیت کی ہے کیونکہ پاکستان و ہندوستان آزادی کے بعد سے اب تک تین مرتبہ جنگ لڑچکے ہیں اور تنازع کشمیر کی وجہ سے ان کے حالات عموماً کشیدہ ہی رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے اکثر کرکٹ شائقین اس بات کو تو گوارہ کرلیتے ہیں کہ ٹیم عالمی کپ کے اگلے مرحلے تک نہ پہنچے لیکن پڑوسی ملک کے ہاتھوں شکست برداشت نہیں کی جاتی اور اس معاملے میں بھارت خوش نصیب ہے کہ عالمی کپ کی تاریخ میں جب بھی اس کا مقابلہ پاکستان سے ہوا ہے، جیت اس کا مقدر ٹھہری ہے۔یہ پاک بھارت رقابت گویا دنیائے کرکٹ کی سرد جنگ ہے کہ جہاں گولیوں کا تبادلہ تو نہیں ہوتا لیکن حالات بالکل جنگ جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ شعیب اختر نے دہلی میں ایک کرکٹ محفل سے گفتگو کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اکثریت کے لیے یہ مقابلہ عالمی کپ سے بھی بڑا ہوتا ہے اور ایک ارب سے زیادہ افراد کے ذہنوں سے کرکٹ کے سوا سب کچھ محو ہوجاتا ہے۔ ہم عالمی کپ مقابلوں میں کبھی بھارت کو نہیں ہرا پائے ہیں لیکن ان اس بار پاکستان کو جیت نصیب ہوگی۔یہ سچ ہے کہ پاک بھارت مقابلے کا حصہ چاہئے جونیئر ہو یا سینئر کھلاڑی میچ سے ایک دن پہلے کھلاڑیوں کی بے چینی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی ہے ، عالمی کپ سے پہلے سخت ذہنی دباؤ کی وجہ سے کئی راتیں نیند نہیں آتیں، مقابلے کے دوران ڈریسنگ روم کا ماحول بھی اتنا بہت کشیدہ ہوتا ہے جتنا گراؤنڈ میں یا سٹینڈز میں دیکھتے کو ملتا ہے۔ پچھلے عالمی کپ میں پاکستان کے خلاف سیمی فائنل میں بھارت نے کامیابی حاصل کی تو پورا پاکستان سکتے میں آگیا۔ اس بار بھارتی ٹیم آسٹریلیا میں دوماہ سے موجود ہے اور اس نے ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں جیتا، بھارت کو ٹیسٹ سیریز ون ڈے سیریز دونوں میں شکست ہوئی جس سے بھارتی ٹیم کی کمزوری اور تھکاوٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، پاکستانی ٹیم فریش ضرور ہے لیکن باؤلنگ اٹیک کمزور ہونے کی وجہ سے بھارت کی بہترین بیٹنگ لائن اپ بڑا ٹوٹل کھڑا کرسکتی ہے۔ پاک بھارت مقابلے میں کپتانوں کا بھی مقابلہ ہوگا، دھونی اور مصباح الحق سب کی نظروں میں ہونگے تو ویراٹ کوہلی اورشاہد آفریدی دونوں اطراف کے شائقین کی امیدوں کا محور ہونگے۔ بڑے مقابلے میں بڑے کھلاڑیوں سے بڑی اننگز کی توقع کی جاتی ہے اور ایسے میں ٹیم میں موجود تمام 11 کھلاڑی پریشر میں ہوتے ہیں کہ اس میچ میں کچھ کرنا ہے، پاکستان کے پاس محمد حفیظ، جنید خان اور سعید اجمل ہوتے تو شاید بھارت کیخلاف میدان میں اترنے سے پہلے پاکستان فیورٹ ہوتا لیکن اب پاکستان فیورٹ نہیں ہے تاہم پاکستانی ٹیم میں جذبہ اور ہمت بھارتی ٹیم کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور میدان میں ٹیم کو شکست دی جاسکتی ہے لیکن ہمت کو کوئی بھی نہیں ہراسکتا۔ پاکستان کو بھارت کیخلاف صرف دلیری دکھانا ہوگی اور یہ دلیری ہی ہے جو پاکستان کو بھارت کیخلاف فتحیاب کرکے سرخرو کرسکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی برداشت کے بھی امتحان بھی اسی میچ میں دیتے ہیں ، جو یہ امتحان پاس کرجاتا ہے وہ ہیرو بن جاتا ہے اور جو فیل ہوجاتا ہے وہ چیتن شرما بن جاتا ہے ۔ خوش کن امر یہ ہے کہ دونوں ٹیمیں اپنا پہلا مقابلہ ہی آپس میں کھیل رہی ہیں یعنی جو جیتے گا، اس کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور جسے شکست ہوئی اسے سنبھلنے میں وقت لگے گا یا زخمی شیر کی طرح بقیہ پانچ میچز میں باقی حریف ٹیموں پر ٹوٹ پڑیگی، پاک بھارت ٹاکرے کی جیت آئندہ مقابلوں کے لیے محرک ثابت ہوگی۔

ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کھیلے جانے والے میچ میں سچن ٹنڈولکر بھارتی ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔ پہلی بار دونوں ٹیمیں 1992 ء کے ورلڈ کپ میں مد مقابل ہوئی تھیں جس کے بعد 1996 ء ، 1999 ء ،2003 ء اور 2011 ء میں بھی دونوں ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ان تمام میچوں میں پاکستان کو شکست کا سامناکرنا پڑا تھا۔اب ٹنڈولکر ٹیم کا حصہ نہیں ہیں اور شاید اس بار پاکستان تاریخ بدل دے کیونکہ تاریخ ایک نہ ایک دن بدل ہی جاتی ہے۔


مزید مضامین :