ٹونٹی ورلڈکپ میں کامیابی ،پاکستان کرکٹ میں نئی جان آگئی

Twenty Twenty World Cup Main Kamyabi Pakistni Cricket Main Jaan Aa Gaye

آئی سی سی کیلئے ”اب “پاکستان کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگیا ،جیت ورلڈکپ کی میزبانی کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکتی ہے باربار کی تنقیدنے یونس خان کو سنجیدہ کپتان بنا دیا،آئی پی ایل والے بھی فاتح عالم پاکستانی کھلاڑیوں کے مرید بن گئے

جمعہ 26 جون 2009

Twenty Twenty World Cup Main Kamyabi Pakistni Cricket Main Jaan Aa Gaye
اعجازوسیم باکھری : قومی کرکٹ ٹیم نے یونس خان کی قیادت میں ٹونٹی 20و رلڈکپ جیت کر نہ صرف17سال بعد قوم کو ناقابل فراموش خوشی فراہم کی بلکہ پاکستان کرکٹ کے خلاف کی جانیوالی بین الاقومی سازشوں کو بھی ناکام بنا دیا ۔بظاہر تو پاکستان نے ورلڈکپ کے فائنل میں سری لنکا کو ہرایا لیکن اگر مشاہد نظروں سے دیکھا جائے تو 11کھلاڑیوں پر مشتمل قومی ٹیم نے آئی سی سی کے پالیسی ساز کرتا دھرتا ،آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے تنگ نظر افسران اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے تعصب پرست عہدیداروں کو ایک ساتھ مات دی۔

قومی ٹیم نے ورلڈکپ میں کامیابی حاصل کرکے ورلڈکپ 2011ء کی میزبانی کے حوالے سے پاکستان کے خلاف چلائی جانیوالی مہم جوئی کوبے جان کردیا اور دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان دنیا ئے کرکٹ میں ایک اعلیٰ مقام کا حامل ملک ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔

(جاری ہے)

ورلڈچیمپئن بننے کے بعد جہاں بین الاقومی سطح پر پاکستان کی عزت و توقیر میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور دیگر ممالک اور آئی سی سی پاکستان کی برتری تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے وہیں اس کامیابی سے ملکی کرکٹ کی جڑوں کو بھی پانی میسر آیا ہے ۔

پاکستان نے انتہائی مناسب وقت پر ورلڈکپ میں کامیابی حاصل کی کیونکہ ملکی اور بین الاقومی سطح پر پاکستان کرکٹ کے حوالے سے کافی نقصان جھیل رہا تھا مگر اس فتح نے پاکستان کرکٹ کا نقشہ ہی بدل دیا ۔ورلڈکپ کی جیت کی خوشی میں پوری قوم تین دن تک خوشیاں مناتی رہی جسے دیکھ کر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی جیت سے پاکستان میں کرکٹ کا ایک نیا جنم ہوا ہے ۔

چیمپنئزٹرافی 2008کی میزبانی چھینے جانے کے بعد پاکستان کرکٹ پر بہت کڑا وقت آگیاتھا جس نے ملکی کرکٹ کو سخت نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود پی سی بی کراچی میں ایشیا کپ کا انعقاد کرنے میں کامیابی ہوگئی جس سے امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی لیکن ممبئی حملوں نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا ۔ممبئی حملوں کا براہ راست نقصان پاکستان کرکٹ کو سہنا پڑا جس میں بھارتی ٹیم نے دورہ پاکستان ملتوی کرکے پاکستان کو کرکٹ کے نقشے سے دور کرنے کی ایک مضبو ط اور جامع حکمت عملی ترتیب دی جس پر آئی سی سی نے بھی مکمل ذمہ داری سے عمل کرتے ہوئے پاکستان کو تنہا کرنے کیلئے بھارتی بورڈ کا مکمل ساتھ دیا لیکن اس موقع پر سری لنکن کرکٹ بورڈ کو داد دینا ہوگی کہ انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں پاکستان آکر کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان کے دشمنوں نے سری لنکن ٹیم پر لبرٹی چوک میں حملہ کرکے نہ صرف پاکستان کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان میں بین الاقومی کرکٹ کے دروازے بھی بند کردئیے ۔

تین مارچ کے سانحے کے بعدآئی سی سی نے دوسال بعد ہونیوالے ورلڈکپ 2011ء کی میزبانی بغیر سوچھے سمجھے اور پی سی بی کا موقف سنے بغیرپاکستان سے چھین لی جوکہ ایک غلط فیصلہ ہے ،آئی سی سی نے یہ فیصلہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے ایما پر کیا کیونکہ آئی سی سی کو ملنے والے فنڈز کا 70فی صد حصہ بھارت کی طرف سے جاتا ہے اور آئی سی سی کے تین بڑے سپانسرکا تعلق بھی بھارت سے ہے یہی وجہ ہے پاکستان سے چھینے گئے میچز کی میزبانی بھی بھارت کو سونپی گئی ۔

پاکستان کے خلاف اس یکطرفہ فیصلے کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کرکٹ کے میدان میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے محروم چلا آرہا تھا اور ٹیم کی کارکردگی بھی زیادہ اچھی نہیں تھی جس کے باعث آئی سی سی نے جلدبازی سے کام لیامگر اب پاکستان عالمی چیمپئن بن گیا ہے اور پاکستانی ٹیم کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ایسے میں آئی سی سی سمیت دیگر تمام عوامل کیلئے پاکستان کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔

عالمی چیمپئن کا تاج پہننے کے بعد دنیا کی تمام ٹیمیں پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی متمنی ہیں اور پاکستانی کھلاڑیوں کی مانگ میں بھی ایک دم سے اضافہ ہوگیا جس کا واضع ثبوت آئی پی ایل نے اپنے تیسرے ایڈیشن کیلئے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ معاہدے بحال کرنے کیلئے رابطے شروع کردئیے ہیں جبکہ دوسری جانب انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ڈومیسٹک ٹیموں کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں کو بھاری آفرز آرہی ہیں جس کے پیش نظر آئی سی سی پر کافی حد تک دباؤ بڑھ گیا ہے اور امید ہے کہ پاکستان کی ورلڈکپ میں کامیابی کے بعد آئی سی سی اپنے قبل ازو قت کیے جانیوالے فیصلوں پر نظرثانی کریگی ۔

ٹونٹی20ورلڈکپ میں کارکردگی کے حوالے سے اگر پاکستانی ٹیم کا جائزہ لیا جائے تو وارم اپ میچز میں جنوبی افریقہ اور بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد پہلے راؤنڈ کے افتتاحی میچ میں انگلینڈ کے خلاف ناکامی کے بعد کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان آگے چل کر فاتح عالم کہلوائے گا ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو قومی ٹیم کی کامیابی کی بڑی وجہ عبدالرزاق کی ٹیم میں واپسی اور عبدالقادر کی کپتان یونس خان سمیت ٹیم کے سنیئر کھلاڑیوں کے خلاف پریس کانفرنس تھی جس میں انہوں نے ٹیم کی ابتدائی شکستوں کو مدنظر رکھ کر کہاکہ اگر میرے بس میں ہوتا تو یونس خان اور شعیب ملک کو ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کیلئے سلیکٹ نہ کرتا ،اس پریس کانفرنس کے بعد یونس خان کے چہرے پر ایک دم سے سنجیدگی آگئی اور یونس نے ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کو ڈبلیو ڈبلیو ای کی طرح”فن گیم “اور ”انٹرٹینمنٹ “کہنے پر اپنے بیانات سے بھی انحراف کرلیا اور وہ گراؤنڈ میں ایک فائٹر کپتان کے روپ میں نظر آئے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یونس ایک جنگجو کپتان ہے اور جب شعیب ملک کی جگہ یونس کو کپتان مقرر کیا گیا تو ہم نے یونس کے انتخاب کو درست قرار دیا لیکن آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں یونس نے انتہائی سست روی کا مظاہرہ کیا اور بلاوجہ آسٹریلوی ٹیم کو سرپر سوار کرلیا اور ایک تاریخی سیریز جیتنے کا موقع گنوایا دیا جس پر یونس شدید تنقیدکی زد آگئے اور پھر ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے ابتدائی میچز میں اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جس کا خود انہوں نے اعتراف کیا لیکن میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کی وجہ سے یونس نے سنجیدگی اختیار کی اور ٹیم کو چیمپئن بنوادیا۔

دوسری جانب عبدالرزاق کی واپسی کے بعد یوں محسوس ہوا کہ جیسے ٹیم میں جان آگئی ہو ،زراق نے ورلڈکپ میں چار میچز میں نمائندگی کی اور پاکستان نے چاروں میں کامیابی حاصل کی۔زراق کی واپسی سے نہ صرف پاکستان کا بولنگ اٹیک مضبوط ہوا بلکہ ایک اضافی بیٹسمین کے آنے سے ٹیم کی بیٹنگ قوت میں بھی اضافہ ہوا جبکہ سب سے اہم پہلو یہ رہا کہ عبدالرزاق کے متبادل کے طور پر گزشتہ دوسال سے ٹیم میں کھیلنے سے شعیب ملک نے ذمہ داری سے کھیل پیش کیا اور شاہد آفریدی نے بھی تیسرے آل راؤنڈ ر کی ٹیم میں واپسی کے بعد میچ وننگ کارکردگی پیش کی ،تین آل راؤنڈرز کے درمیان مقابلے کی فضا نے پاکستان کو باآسانی عالمی چیمپئن بنوا دیا حالانکہ گزشتہ ورلڈکپ کے مقابلے میں اس بار پاکستانی ٹیم میں محمد آصف اور ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کے سپیشلسٹ اوپنر بیٹسمین عمران نذیر ٹیم کا حصہ نہیں تھے جبکہ ٹیم کو فاسٹ باؤلر شعیب اختر اوررانا نوید کی بھی خدمات میسر نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود قومی ٹیم نے شاندار پرفارمنس دی اور قوم کو طویل عرصے بعد ورلڈکپ کا تحفہ دیا ۔

محدود اوورز کے اس میگا ایونٹ میں جہاں ٹیم کے سینئر رکن شاہد آفریدی نے فائنل اورسیمی فائنل میں عمدہ کارکردگی پیش کرکے اپنی ٹیم کو کامیابی دلائی اور عمرگل سمیت کپتان یونس خان نے بھی نمایاں کھیل پیش کیا وہیں نوجوان کھلاڑیوں سعید اجمل ، شازیب حسن ،احمد شہزاد اور محمد عامر نے بھی اپنی ٹیم کامیابی میں اہم کردار نبھایا ،محمد عامر کو ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی اگر بہتر ین دریافت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔

بائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے 17سالہ فاسٹ باؤلر نے لارڈز اور اوول کے تاریخی میدانو ں میں فاتحانہ کھیل پیش کرکے اپنے تابناک مستقبل کی نشاندہی کردی جس کی پہلی سیڑھی کے طو رپر انہیں دورہ سری لنکا کے لیے قومی سکوا ڈ میں جگہ ملی ہے۔ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں وکٹ کیپر کامران اکمل نے بھی عمدہ کھیل پیش کیا اور وہ بطور اوپنر میگا ایونٹ کے کامیاب ترین بیٹسمین بن کرسامنے آئے جبکہ فاسٹ باؤلر عمدہ عمرگل نے چھ رنز کے پانچ وکٹیں حاصل کرکے ریکارڈ ساز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔

پاکستانی ٹیم ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جب ان پر شدید تنقید کی جائے اور انہیں ان کی کمزوریاں بتائی جائیں تو یہ عمدہ پرفارمنس دیتے ہیں ویسے بھی کھلاڑیوں پر ہمیشہ اُس وقت تنقید ہوتی ہے جب وہ برا کھیل پیش کرتے ہیں ،اگر کھلاڑی برا کھیل پیش نہ کریں اور کپتان دلیری سے ٹیم کو گراؤنڈ میں لڑائے تو ہم کیونکہ تنقیدکرینگے ؟تنقیدہمیشہ تب ہوتی ہے جب کوئی اپنی ذمہ داری سے انحراف کرتا ہے ،شائقین تب اپنی ٹیم سے ناراض ہوتے ہیں جب ٹیم اُن کے جذبا ت کی قدر کیے بغیر ہار جاتی ہے ورنہ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ اُدھر لندن میں ٹیم کا ورلڈکپ جیتنا تھا تو ادھر لاہور ،کراچی ،ملتان اور پشاور میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اپنی ٹیم کی کامیابی پر جشن منایا ۔

کرکٹ کے کھیل میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کپتان کا اہم کردار ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہی ٹیمیں کامیاب ہوتی ہیں جن کے کپتان دلیر مثبت سوچ اور مضبو ط اعصاب کے مالک ہوں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ورلڈکپ میں کامیابی یونس خان کے مضبوط اعصاب ، دلیری اورمثبت سوچ کی وجہ سے ملی ہے۔یونس خان نے ورلڈکپ میں عمدہ قیادت کرکے ثابت کردیا کہ وہ آج سے دو سال پہلے انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی شعیب ملک کی جگہ کپتانی کا حقدار تھالیکن اُس وقت کابورڈ یونس خان کی قائدانہ صلاحیت کا اندازہ لگانے میں ناکا م رہا ۔

یونس خان نے جہاں ٹیم کو چیمپئن بنوانے میں اہم کردارادا کیا وہیں انہوں نے ٹونٹی ٹونٹی فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ لیکر جلدبازی کی جس سے ایک بار پھر ٹیم میں نئے کپتان کی بحث شروع ہوگئی ہے جوکہ ٹیم کیلئے نقصان دہ چیز ہے ۔یونس خان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ عالمی چپمئین بننے کے بعد سب سے مشکل ترین کا م اپنی عالمی چیمپئن کی حیثیت ،پوزیشن اور بھرم کو برقرار رکھنا ہوتا جوکہ اس وقت ٹیم میں وہ خود واحد شخص ہیں جویہ کرسکتے ہیں لہذاانہیں پاکستان کی عالمی چپمپئن کی حیثیت اور بھر م برقرار رکھنے کیلئے اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

مزید مضامین :