عمر گل...ایک سچا پاکستانی

Umar Gul Retires From All Forms Of Cricket

کرکٹ چھوڑتے وقت عمرگل کی آنکھوں میں آنسو تھے, یہ آنسو پاکستان کرکٹ کیلیے اس کی نیک نیتی اور جنون کی ترجمانی کرتے ہیں

حافظ امان اللہ منگل 20 اکتوبر 2020

Umar Gul Retires From All Forms Of Cricket
معاشرے میں منفی رحجانات اس قدر تیزی سے پرورش پارہے ہیں کہ اگر کہیں کچھ مثبت ہو بھی تو منظرعام پر نہیں آپاتا. کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کرکٹ کے مایہ ناز تیز گیندباز عمرگل کا بھی رہا. تیز گیند باز عموما مزاج کے گرم ہوا کرتے ہیں. لیکن عمر گل اس سے بالکل مختلف تھے. نرم مزاج, صلح جو, محنتی کھلاڑی اور ایک سچا محب وطن. ان تمام خوبیوں کے مالک عمر گل نے شاید کرکٹ ریکارڈز سے اتنی عزت نا کمائی ہو جتنی اپنی اعلی اقدار سے کمائی. بطور کھلاڑی یا ایک گیند باز کے دیکھیں تو بھی عمرگل کسی سے کم نا تھے.

بڑے بڑے بلےبازوں کے ٹخنوں پر گیند مارنا عمرگل کو بخوبی آتا تھا. برائن لارا اور مائیکل ہسی جیسے بلےباز بھی عمرگل کے یارکرز کے آگے بے بس نظر آتے تھے.

(جاری ہے)

2010 کے ٹی20 ورلڈکپ میں آخری اوور میں 18 رنز بناکر پاکستان کو ہرانے والے مائیکل ہسی جب عمرگل کے سامنے آئے تو ریت کی دیوار ثابت ہوئے. 2009 کے سری لنکن ٹیم پر حملے, آصف اور عامر کے سپاٹ فکسنگ میں پکڑے جانے اور پھر شعیب اختر جیسے سینئر بالر کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کرکٹ پر کافی سخت وقت آن پڑا تھا.

لیکن مصباح الحق کی کپتانی میں شاہد آفریدی, سعید اجمل, محمد حفیظ اور عمرگل نے پاکستان ٹیم کو انٹرنیشنل سطح پر اپنا مقام قائم رکھنے میں کافی مدد فراہم کی. دبئی کی مردہ پچز پر, مشکل حالات میں پاکستان کرکٹ کو رواں دواں رکھنا بلاشبہ بہت مشکل کام تھا. اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ گیندباز دستہ دنیا کا خطرناک ترین دستہ بن کر سامنے آیا.

جب پاکستانی بلےباز بمشکل 200 کا ہدف ہی دے پاتے لیکن آفریدی کی گوگلی , اجمل کا دوسرا , حفیظ کی آف اسپن اور عمرگل کے یارکرز پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کروالیا کرتے تھے. جب اور جہاں پاکستان کو ضرورت ہوتی عمرگل اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ کارکردگی دکھانے کیلیے تیار رہتے تھے. ڈیبیو ٹیسٹ میں انڈیا کے خلاف 5 وکٹیں ہوں یا نیوزی لینڈ کے خلاف ورلڈ ٹی20 , 2009 کے سیمی فائنل میں ٹی20 کرکٹ کی تاریخ کی پہلی 5 وکٹیں, عمرگل ہمیشہ اپنا 100 فیصد دیتے نظر آئے.

یہاں تک کہ اگر بلےبازی میں بھی ضرورت پڑی تب بھی عمرگل نے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر پاکستان کو کامیابی دلوائی. 2012 کے ورلڈٹی20 کا پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ میچ کون بھول سکتا ہے جب پاکستان کے 70 رنز پر 7 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے لیکن عمرگل نے اپنی شاندار بلےبازی سے میچ کا پانسہ پلٹ دیا. یہ تمام چیزیں عمرگل کی.صلاحیتوں, محنت اور ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہیں. عمرگل ایک ایسا کردار تھا جو کبھی شہرت یا میڈیا کی چکاچوند سے متاثر نا ہوا.

سوشل میڈیا کے ٹرینڈز بھی اسے اپنی طرف متوجہ نا کرسکے. وہ جیسے ایک ہی کام جانتا تھا , پاکستان کی خدمت اور بس.... گروپنگ والے نفسانفسی کے دور میں بھی عمرگل نے اپنے دامن کو پاک صاف رکھا. ریکارڈز, کارکردگی وغیرہ سے صرف اس عظیم کھلاڑی کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے لیکن اس کے مضبوط کردار اور اعلی ظرفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آیا, ایک لمبا عرصہ خاموشی سے کرکٹ کھیلی اور آج اسی خاموشی سے ریٹائر ہوگیا.

اس تمام عرصہ میں اس نے اتنی عزت کمائی کہ روایتی حریف انڈیا سے بھی لوگ اس کی اعلی ظرفی کے گن گاتے نظر آئے. کرکٹ چھوڑتے وقت عمرگل کی آنکھوں میں آنسو تھے, یہ آنسو پاکستان کرکٹ کیلیے اس کی نیک نیتی اور جنون کی ترجمانی کرتے ہیں. یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے تو کھلاڑی کو بھی ایک نا ایک دن ریٹائر ہونا پڑتا لیکن عمرگل کرکٹ مداحوں کی یادوں میں ہمیشہ موجود رہیں گے. ہم درخواست کرتے ہیں کہ پی سی بی اس ہیرے جیسے انسان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ حاصل کرے اور اسے نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت پر مامور کرے, تاکہ وہ کھلاڑی مستقبل میں اچھے کھلاڑی بننے کے ساتھ ساتھ اعلی اقدار کے مالک بن کر سامنے آئیں اور دنیا بھر میں پاکستان کانام روشن کریں.

مزید مضامین :