پاکستان کرکٹ ٹیم کو جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ میں شکست(وجوہات)

Why Pakistan Lost Centurion Test

زیادہ تر ایک روزہ اورٹی20 کے کھلاڑی ٹیسٹ کیلئے منتخب کیئے گئے

Arif Jameel عارف‌جمیل ہفتہ 29 دسمبر 2018

Why Pakistan Lost Centurion Test
پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم سرفراز احمد کی کپتانی میں متحدہ امارات میں نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز میں2 ۔1سے شکست کھانے کے بعدایک دفعہ پھر سرفزاز کی کپتانی میں ہی آجکل 3ٹیسٹ میچوں کی سیزیز کھیلنے کیلئے جنوبی افریقہ کے دورے پر ہے اورسنچورین میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ سے بھی6وکٹوں سے شکست کھا لی ہے۔ باکسنگ ڈے ٹیسٹ: کرسمس سے اگلے دِن ٹرو کو بعض ممالک میں باکسنگ ڈے کہا جاتا ہے اور اس دِن شروع ہونے والے ٹیسٹ کو بھی باکسنگ ڈے ٹیسٹ کہا جاتا ہے لہذا پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان کرسمس سے اگلے دن 26ِدسمبر2018ءکو جب پہلا ٹیسٹ میچ شروع ہوا تو وہ باکسنگ ڈے تھا۔

اس ہی دن و تاریخ کو آ سٹریلیا میں بھی آسٹریلیا اور انڈیا کے درمیان ٹیسٹ میچ شروع ہوا اور اسکو بھی یہی نام دیا گیا۔

(جاری ہے)

پاکستان کی شکست کا مختصر تجزیہ: کرنے سے پہلے سنچورین ٹیسٹ کا خلاصہ کچھ اسطرح ہے: ٭ ٹاس پاکستان نے جیتا ٭ پہلے ہی دِن پاکستان کی آل ٹیم 181کے مجموعی اسکور پر آﺅٹ ہو گئی۔ ٭ پہلے ہی دن 127کے مجموعی اسکور پر جنوبی افریقہ کے 5بلے باز آﺅٹ ہو گئے۔

٭ اسطرح پہلے ہی دن کُل 15وکٹیں گر گئیں۔ ٭ دوسرے دن جنوبی افریقہ کی آل ٹیم 223کے مجموعی سکور پر آﺅٹ ہو گئی۔پہلی اننگز میں برتری حاصل کی 42رنز کی۔ ٭ دوسرے ہی دن ایک دفعہ پھر پاکستان کی آل ٹیم انجام کو پہنچ گئی 190کے مجموعی اسکور پر۔ ٭ اسطرح دوسرے دِن بھی ایک دفعہ پھر15وکٹیں پار ہو گئیں۔ ٭ تیسرے دن جنوبی افریقہ نے4وکٹوں کے نقصان پر جیتنے کیلئے149رنز کا ہدف حاصل کر لیااور پاکستا ن ٹیسٹ ہار گیا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم ابھی چند دِن پہلے ہی نیوزی لینڈ سے شکست کھانے کے بعد اس معاملے پر زیرعتاب تھی کہ کرکٹ کے تینوں فارمیٹ کا کپتان سرفراز احمد ٹیسٹ کی کپتانی کیلئے قابل ِقبول نہیں۔سابق کرکٹر ایشین بریڈ مین ظہیر عباس اس میں پیس پیش نظر آئے۔بعدازاں جنوبی افریقہ کیلئے ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی ایک دفعہ پھر سرفراز احمد کو ہی نصیب ہو گئی جس پر یہ امید نظر آئی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک مستقل کپتان کی شکل میں ایک نوجوان کرکٹر سرفراز احمد مل چکا ہے لہذا اس کو موقع ملنے سے ٹیم کی کاکردگی بہتر ہوگی۔

اب آتے ہیں نوجوان کپتان کیلئے جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ ٹیم کی سلیکشن ۔غور کیا جائے تو زیادہ تر ایک روزہ اورٹی20 کے کھلاڑی ٹیسٹ کیلئے منتخب کیئے گئے۔ ویسے تو اسکا نتیجہ پہلے ہی ٹیسٹ میں دیکھ لیا ہے۔لیکن پھر بھی ثابت کرنے کیلئے چند نقات اہم ہیں۔ پاکستا ن کرکٹ ٹیم آج تک جنوبی افریقہ میں کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی اور گزشتہ10سال سے کوئی ٹیسٹ میچ بھی وہاں نہیں جیتی۔

لہذا سنچورین کی گراﺅنڈ پر یہ موقع تھا۔لیکن پاکستان بلے بازوں کو سکون نہیں تھا۔ٹاس جیت کر بلے بازی میں ناکامی اسکی بڑی وجہ بنی۔کیونکہ وہاں چوتھی اننگز میں 200رنز کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔لیکن شاید یہ بات تمام کرکٹ کے شائقین کو معلوم تھی سوائے کھلاڑیوں کے۔جسکا عملی ثبوت بمعہ ٹیم کپتان بیٹنگ میں ناکامی کی صورت میں سامنے آیااور یہی ترتیب دوسری اننگز میں۔

حالانکہ پاکستانی باﺅلنگ اٹیک نے جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کو بھی ناکام کر دیا اور وہ بھی کوئی بڑا اسکور نہ کر سکے۔ دوسری اننگز میں صرف42رنز کی برتری اتار کر 200رنز سے کچھ زیادہ بھی کر لیتے تو یہ ٹیسٹ پاکستان آسانی سے جیت سکتا تھاکیونکہ چوتھی اننگز میں اگر 149رنز کا ہدف کرتے ہوئے بھی جنوبی افریقہ کہ 4کھلاڑی آﺅٹ ہو گئے تھے تو 200سے زائد کا ہدف انکے لیئے مشکلات پیدا کر سکتا تھا۔

لیکن فخر زماں، اظہر علی،اسد شفیق اور کپتان سرفراز احمد کی کارکردگی ٹیسٹ کھلاڑیوں والی نہ تھی۔ دوسرے بلے بازوں میں سے بھی اگر ایک پہلے اننگز میںناکام ہوا ہے تو دوسری اننگز میں بھی کوئی خاص کمال نہیں دکھا سکا۔ ان میں انعام الحق ، بابر اعظم اور شان مسعودشامل ہیں۔ فیلڈنگ میں کمزوری دوسری اننگز میں نظر آئی۔ پاکستان کی باﺅلنگ کی تعریف نہ کرنا پاکستانی باﺅلرز کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

اُنھوں نے بھی جنوبی افریقہ کے بڑے باﺅلروں کے مقابل گیندیں پھینکیں۔ محمد عامر، حسن علی اور شاہین آفریدی نے اپنا کام کر دکھایا۔ بس بلے باز ٹیسٹ میچ والا ٹمپرامنٹ نہ دکھا سکے اور دوسرے دن کھیل ختم ہونے پر یہ خبریں آئیں کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور چند کھلاڑیوں میں جھگڑا ہوا ہے۔ میچ میں شکست کے بعد کپتان سرفراز احمد نے ملبہ ٹیم کوچز پر ڈال دیا ہے۔

سب سے دلچسپ تجزیہ کاروں کے مطابق نئے لڑکے ۔ مداحوں کا سوال اورکتنے ؟ اصل میں تجزیہ کاروں کی تنقید اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو ریٹائر ہونے پر زور دینے سے موجودہ نئے لڑکے بھی اپنا ٹیلنٹ کھو رہے ہیں اور کچھ ٹیلنٹ رکھنے والے نئے کھلاڑی سیلیکٹرز کی نظروں سے کھو گئے ہیں۔جن میں سمیع اسلم ایک ٹیسٹ اوپنر ہے۔ساتھ میں انور علی، راحت علی،سہیل خان،جنید خان جیسے کھلاڑی کسی بنیاد پر ٹیم کا حصہ نہیں بن رہے۔

اس سے انکار نہیں کے ایک ٹیم میں کھلاڑی 11 ہوتے ہیں لیکن ان میں جلد از جلد تبدیلی ٹیم موریل کو بلند نہیں ہو نے دیتی۔نتیجہ نئے کھلاڑی ابھی جم ہی نہیں پاتے کہ اُن پر ایسی بے وقتی تنقید کی جاتی ہے کہ بس وہ ٹیم سے فارغ اور ٹیم میچ جیتنے سے فارغ۔ نئے کھلاڑیوں کو آزمائیں اور دیکھیں : ٹیسٹ میچ والا رویہ کس کا ہے؟ایک روزہ کون بہتر کھیل سکتا ہے ؟ اور ٹی20 کیلئے کونسا کھلاڑی مناسب ہے۔کپتان کا ابھی ذکر نہیں اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی قابلیت پر کوئی شک نہیں۔ آخر میں جنوبی افریقہ کے باﺅلراولیویئر کی تعریف ضروری ہے جنہوں نے پہلی اننگز میں پاکستان کے6 اور دوسری اننگز میں 5 کھلاڑی آﺅٹ کر کے میچ میں 11 وکٹیں حاصل کیں۔

مزید مضامین :