ورلڈکپ سر پہ آگیا، پاکستان کرکٹ مسائل ، سازشوں کے گرادب میں دھنس گئی

World Cup Sar Par Aa Giya

ورلڈکپ میں کپتانی کے خواب دیکھنا آفریدی کو مہنگا پڑ گیا، بورڈ نے مصباح الحق پر اعتماد کا اظہار کردیا ٹیم کے ساتھ موجود کوچز کی فوج بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکی، ورلڈکپ کی تیاریوں کا پول کھل گیا

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری منگل 3 فروری 2015

World Cup Sar Par Aa Giya
اعجازوسیم باکھری: پاکستان کرکٹ ایک بارپھر بدقسمتی کے آسیب کے سائے تلے آگئی ہے ، پہلے سری لنکا اور اب آسٹریلیا کیخلاف ناکامی کے بعد قومی ٹیم کی ناکامیاں جہاں کھل کر سامنے آئیں وہیں پاکستان کرکٹ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کرکٹ ورلڈکپ2015ء میں صرف چار ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے ، دنیا کی دوسری ٹیم میگاایونٹ کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور عالمی کپ میں حریف ٹیموں کو کیسے مات دینے ہے کہ حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں جبکہ پاکستان ٹیم میں ورلڈکپ کی حکمت عملی تو درکنار ایک میچ کے بعد اگلے میچ کی حکمت عملی بھی کہیں نظر نہیں آرہی۔

حکمت عملی کا فقدان تو ہے ہی ، بدنیتی اور بددیانتی کا عنصر بھی قومی ٹیم میں تقویت حاصل کررہا ہے جس کا خمیازہ آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز میں 3-0کی بدترین شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

(جاری ہے)

کرکٹ بورڈ کی جانب سے ہزار دعوؤں کے باوجود ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آنے کی بجائے ابتری آتی جارہی ہے۔ ٹیم میں سینئر کھلاڑی بھی موجود ہیں اور جونیئرز کو بھی مسلسل آزمایا جارہا ہے لیکن کوئی حربہ کام آرہا ہے اور نہ ہی قسمت ساتھ دے رہی ہے۔

چلیں مان لیتے ہیں ٹیم کی ناکامیوں میں قسمت کا کلیدی کردارہے، ہر ٹیم فتح کیلئے میدان میں اترتی ہے اور ایک حریف کو شکست برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن قومی ٹیم کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ کھلاڑیوں میں اعتماد کم رہا ہے ، یہ اعتماد میدان میں کھڑے ہوکر پرفارم کرتے ہوئے بھی نظر نہیں آتا اور نہ ہی آف دی فیلڈ کھلاڑیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد رہا ہے۔

ایک ماہ پہلے سری لنکا میں قومی ٹیم کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔سری لنکا سے واپسی پر کہا گیا ک غلطیوں سے سبق سیکھیں گے، خامیوں پر قابو پائیں گے، لیکن آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے اور واحد ٹی ٹونٹی میچ میں وہ پرانی غلطیاں دہرائیں گئیں اور کوئی بھی میچ خسارے کے حصار سے باہر نہیں کھیلا۔بھاری معاوضے وصول کرنے والے کوچزبھی ٹیم میں بہتری نہ لاسکے جبکہ انتی تعداد میں کوچز کی موجودگی ٹیم کیلئے نیک شگون بھی ثابت نہیں ہوئی، کھلاڑیوں نے جان مار کے حریف ٹیم کا مقابلہ کیا لیکن سینئرز میں سستی روی عروج پر دیکھی گئی۔

یہ پاکستان کرکٹ کا المیہ ہے کہ اصل تنازعات اور ایشوز کا حل کیے بغیر ٹیم کو کھلایا جاتا ہے جس کا نتیجہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔قومی ٹیم کی شکست میں کھلاڑیوں پر تنقید کی گئی حتیٰ کہ ٹیم مینجمنٹ سے بھی حساب کتاب لیا گیا ہے لیکن نجم سیٹھی سے کوئی سوال کرنے والا نہیں کہ جناب، آپ نے چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے سے قبل ہی کوچنگ سٹاف کی تقرریوں سمیت کئی اہم فیصلے کردیئے تھے،بعد ازاں خود کوسائیڈ لائن کرکے گورننگ باڈی کاممبر بھی بن گئے لیکن یہ کوچز کا اتنا سٹاف اور کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی کا حساب کون دے گا۔

گورننگ بورڈ میں سیٹ پکی کرکے بیٹھ گئے لیکن پاکستان کرکٹ کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اور جو تباہی کا بیج بویا گیا اس کا حساب بھی دینا چاہئے۔ بلاضرورت کوچز کا فوج بھرتی کرنے سے پاکستان کرکٹ کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا ، کم از کم اب نجم سیٹھی کو جواب دینا چاہئے ، اگر وہ جواب دینے سے قاصر ہیں تو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ناقص فیصلوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اعتراف کرنا اور غلطی تسلیم کرنا بڑے دل کے مالک افراد کی نشانی ہے جو شاید نجم سیھٹی کے پاس وہ نشانی نہ ہو ۔

نجم سیٹھی کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی تباہی کے دوسرے بڑے ذمہ دار معین خان ہیں جو کہ قومی ٹیم منیجر بھی ہیں اور سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین بھی۔ سری لنکا کیخلاف شکست کے بعد معین خان نے ہار تسلیم تو کی لیکن ہار کی ذمہ داری لینے سے معذرت کرلی اور آسٹریلیاسیریزکیلئے جوبھی دعوے اور وعدے کیے وہ بھی سب دھرے رہ گئے لیکن اس کے باوجود معین خان دونوں میں سے کوئی ایک عہدہ بھی چھوڑنے کیلئے راضی نہیں ہیں۔

اگر چیئرمین سلیکشن کمیٹی کا عہدہ چھوڑتے ہیں تو اپنی مرضی کے کھلاڑیوں کو ٹیم پر مسلط کرنے کا موقع ضائع ہوجائیگا اور اگر ٹیم منیجر کا عہدہ چھوڑتے ہیں تو غیرملکی دورے اور سیرتفریح سے محروم ہونا پڑیگا، اس لیے معین خان خود سے کوئی بھی عہدہ چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں کیونکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آخری موقع ہے اور اگر کنارہ کشی اختیار کرلی تو شاید ہی بورڈ میں واپسی ہو ، اس لیے قومی ٹیم کو چاہئے نقصان بھی پہنچتا رہے ان لوگوں کو صرف اپنی نوکریوں اور بھاری تنخواہوں سے غرض ہے۔

مصباح الحق کو داد دینا ہوگی کہ وہ ابتدائی دو ون ڈے میچز میں شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے تیسرے ون ڈے میچ سے خود باہر بیٹھے۔ کرکٹ کے میدان میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹیم کا کپتان ناقص کارکردگی کسی میچ سے ڈراپ ہوا ہو، مصباح الحق نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو تیسرے میچ سے الگ کیا اور کپتانی کی ذمہ داری جوشیلے شاہد آفریدی کو سونپی گئی لیکن اسے ملکی کرکٹ کی بدقسمتی کہیں یا شاہد آفریدی کی اپنی ناقص کارکردگی کہ وہ بطور کپتان پھرتیاں تو دکھاتے نظر آئے لیکن گراؤنڈ میں بیٹنگ کیلئے اُسی انداز میں آئے اور چلے گئے جیسے سڑک پر کرکٹ نوجوان ٹیپ بال کھیلتے ہیں۔

بڑے ارمانوں سے آفریدی کو ٹی ٹونٹی اور پھر آخری ون ڈے کی کپتانی دی گئی لیکن موصوف کھلاڑیوں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے، فیورٹ فارمیٹ میں بھی بیٹنگ لائن نے ورلڈکپ کی وہی کارکردگی دہرائی جس کے باعث محمد حفیظ کو قیادت چھوڑنا پڑی تھی،ایک موقع پر تو محسوس ہو رہا تھا کہ بیٹسمین پورے 20 اوورز بھی نہیں کھیل پائیں گے،انٹرنیشنل کیریئر کا پہلا میچ کھیلنے والے سعد نسیم کے 25اور فاضل 20رنز نکال دیئے جائیں تو سنچری مکمل نہ کرنے والی ٹیم ففٹی بھی نہ بنا پاتی،بولرز نے تھوڑی ہمت دکھائی بھی تو فیلڈنگ میں خامیوں نے کینگروز کا راستہ آسان کردیا اور قومی ٹیم واحد ٹی ٹونٹی میں بھی شرمسار ہوئی۔

ایک ون ڈے میچ میں کپتانی کرکے سرخرو میں برطرح ناکام رہنے والے شاہد آفریدی نے میچ کے بعد پریس کانفرنس میں غیرذمہ دارانہ گفتگو کرکے نیا تنازعہ کھڑا کردیا۔ شاہد آفریدی نے کہاکہ ورلڈکپ میں پی سی بی نے مجھے یا مصباح کو کپتان بنانا ہے تو ابھی سے فیصلے کرلے۔ شاہد آفریدی کی اس بات سے وہ کہاوت یاد آگئی ہے کہ انگارے لینے گئی اور چولہے کی مالک بن گئی۔

آفریدی یہ بھول گئے کہ انہیں صرف ایک میچ کیلئے کپتانی دی گئی اور ٹیم کی ریگولر کپتان بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے میچ سے دستبردار ہوا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آفریدی کپتانی کا خواب دیکھنا شروع کردے۔ شاہد آفریدی ورلڈکپ 2011ء میں قومی ٹیم کے کپتان تھے اور ان کی کپتانی ، بچگانہ فیصلے اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان سیمی فائنل میں شکست کھا گیا۔

شاہد آفریدی جتنا ٹیم میں سیاست اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس سے کہیں کم یہ اپنی کارکردگی پر دھیان دیں تو ان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اور ٹیم کی کارکردگی پر بھی اس کے مثبت اثر پڑیگا لیکن چونکہ ان کا مزاج ہی ایسا ہے جس میں صرف ”میں“ نظر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو میں پسند نہیں ہے اور اس کا آفریدی کئی بار عملی مظاہرہ بھی دیکھ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ انتشار پھیلانے سے باز نہیں آتے ۔

اس بارتو پی سی بی نے بھی چپ کا روز توڑتے ہوئے آفریدی کو خبردار کیا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی قیادت مصباح الحق ہی کرینگے۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے آفریدی کے بیانات کو غیرسنجیدہ قرار دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ ان کیخلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔ ایک طرف ٹیم کی ناقص کارکردگی اور دوسری جانب کپتانی کی الجھن نے پاکستان کی ورلڈکپ کیلئے تیاریوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

کمزور ورلڈ کپ پلان کو کینگروز نے بھی ٹھوکر مار کر تیاریوں کا پول کھول دیا ہے۔کوچز کی بھاری بھرکم فوج کی بھی کوئی افادیت نظر نہیں آئی،اور تو اور فیلڈنگ میں مسائل بھی ختم ہوتے نظر نہیں آرہے، معاملات اسی انداز میں چلتے رہے تو ورلڈ کپ میں ٹائٹل کا حصول تو بڑی دور کی بات ہے فیصلہ کن مراحل تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوگی۔ یت حاصل کررہا ہے جس کا خمیازہ آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز میں 3-0کی بدترین شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

کرکٹ بورڈ کی جانب سے ہزار دعوؤں کے باوجود ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آنے کی بجائے ابتری آتی جارہی ہے۔ ٹیم میں سینئر کھلاڑی بھی موجود ہیں اور جونیئرز کو بھی مسلسل آزمایا جارہا ہے لیکن کوئی حربہ کام آرہا ہے اور نہ ہی قسمت ساتھ دے رہی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں ٹیم کی ناکامیوں میں قسمت کا کلیدی کردارہے، ہر ٹیم فتح کیلئے میدان میں اترتی ہے اور ایک حریف کو شکست برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن قومی ٹیم کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ کھلاڑیوں میں اعتماد کم رہا ہے ، یہ اعتماد میدان میں کھڑے ہوکر پرفارم کرتے ہوئے بھی نظر نہیں آتا اور نہ ہی آف دی فیلڈ کھلاڑیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد رہا ہے۔

ایک ماہ پہلے سری لنکا میں قومی ٹیم کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔سری لنکا سے واپسی پر کہا گیا ک غلطیوں سے سبق سیکھیں گے، خامیوں پر قابو پائیں گے، لیکن آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے اور واحد ٹی ٹونٹی میچ میں وہ پرانی غلطیاں دہرائیں گئیں اور کوئی بھی میچ خسارے کے حصار سے باہر نہیں کھیلا۔بھاری معاوضے وصول کرنے والے کوچزبھی ٹیم میں بہتری نہ لاسکے جبکہ انتی تعداد میں کوچز کی موجودگی ٹیم کیلئے نیک شگون بھی ثابت نہیں ہوئی، کھلاڑیوں نے جان مار کے حریف ٹیم کا مقابلہ کیا لیکن سینئرز میں سستی روی عروج پر دیکھی گئی۔

یہ پاکستان کرکٹ کا المیہ ہے کہ اصل تنازعات اور ایشوز کا حل کیے بغیر ٹیم کو کھلایا جاتا ہے جس کا نتیجہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔قومی ٹیم کی شکست میں کھلاڑیوں پر تنقید کی گئی حتیٰ کہ ٹیم مینجمنٹ سے بھی حساب کتاب لیا گیا ہے لیکن نجم سیٹھی سے کوئی سوال کرنے والا نہیں کہ جناب، آپ نے چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے سے قبل ہی کوچنگ سٹاف کی تقرریوں سمیت کئی اہم فیصلے کردیئے تھے،بعد ازاں خود کوسائیڈ لائن کرکے گورننگ باڈی کاممبر بھی بن گئے لیکن یہ کوچز کا اتنا سٹاف اور کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی کا حساب کون دے گا۔

گورننگ بورڈ میں سیٹ پکی کرکے بیٹھ گئے لیکن پاکستان کرکٹ کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اور جو تباہی کا بیج بویا گیا اس کا حساب بھی دینا چاہئے۔ بلاضرورت کوچز کا فوج بھرتی کرنے سے پاکستان کرکٹ کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا ، کم از کم اب نجم سیٹھی کو جواب دینا چاہئے ، اگر وہ جواب دینے سے قاصر ہیں تو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ناقص فیصلوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اعتراف کرنا اور غلطی تسلیم کرنا بڑے دل کے مالک افراد کی نشانی ہے جو شاید نجم سیھٹی کے پاس وہ نشانی نہ ہو ۔

نجم سیٹھی کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی تباہی کے دوسرے بڑے ذمہ دار معین خان ہیں جو کہ قومی ٹیم منیجر بھی ہیں اور سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین بھی۔ سری لنکا کیخلاف شکست کے بعد معین خان نے ہار تسلیم تو کی لیکن ہار کی ذمہ داری لینے سے معذرت کرلی اور آسٹریلیاسیریزکیلئے جوبھی دعوے اور وعدے کیے وہ بھی سب دھرے رہ گئے لیکن اس کے باوجود معین خان دونوں میں سے کوئی ایک عہدہ بھی چھوڑنے کیلئے راضی نہیں ہیں۔

اگر چیئرمین سلیکشن کمیٹی کا عہدہ چھوڑتے ہیں تو اپنی مرضی کے کھلاڑیوں کو ٹیم پر مسلط کرنے کا موقع ضائع ہوجائیگا اور اگر ٹیم منیجر کا عہدہ چھوڑتے ہیں تو غیرملکی دورے اور سیرتفریح سے محروم ہونا پڑیگا، اس لیے معین خان خود سے کوئی بھی عہدہ چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں کیونکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آخری موقع ہے اور اگر کنارہ کشی اختیار کرلی تو شاید ہی بورڈ میں واپسی ہو ، اس لیے قومی ٹیم کو چاہئے نقصان بھی پہنچتا رہے ان لوگوں کو صرف اپنی نوکریوں اور بھاری تنخواہوں سے غرض ہے۔

مصباح الحق کو داد دینا ہوگی کہ وہ ابتدائی دو ون ڈے میچز میں شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے تیسرے ون ڈے میچ سے خود باہر بیٹھے۔ کرکٹ کے میدان میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹیم کا کپتان ناقص کارکردگی کسی میچ سے ڈراپ ہوا ہو، مصباح الحق نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو تیسرے میچ سے الگ کیا اور کپتانی کی ذمہ داری جوشیلے شاہد آفریدی کو سونپی گئی لیکن اسے ملکی کرکٹ کی بدقسمتی کہیں یا شاہد آفریدی کی اپنی ناقص کارکردگی کہ وہ بطور کپتان پھرتیاں تو دکھاتے نظر آئے لیکن گراؤنڈ میں بیٹنگ کیلئے اُسی انداز میں آئے اور چلے گئے جیسے سڑک پر کرکٹ نوجوان ٹیپ بال کھیلتے ہیں۔

بڑے ارمانوں سے آفریدی کو ٹی ٹونٹی اور پھر آخری ون ڈے کی کپتانی دی گئی لیکن موصوف کھلاڑیوں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے، فیورٹ فارمیٹ میں بھی بیٹنگ لائن نے ورلڈکپ کی وہی کارکردگی دہرائی جس کے باعث محمد حفیظ کو قیادت چھوڑنا پڑی تھی،ایک موقع پر تو محسوس ہو رہا تھا کہ بیٹسمین پورے 20 اوورز بھی نہیں کھیل پائیں گے،انٹرنیشنل کیریئر کا پہلا میچ کھیلنے والے سعد نسیم کے 25اور فاضل 20رنز نکال دیئے جائیں تو سنچری مکمل نہ کرنے والی ٹیم ففٹی بھی نہ بنا پاتی،بولرز نے تھوڑی ہمت دکھائی بھی تو فیلڈنگ میں خامیوں نے کینگروز کا راستہ آسان کردیا اور قومی ٹیم واحد ٹی ٹونٹی میں بھی شرمسار ہوئی۔

ایک ون ڈے میچ میں کپتانی کرکے سرخرو میں برطرح ناکام رہنے والے شاہد آفریدی نے میچ کے بعد پریس کانفرنس میں غیرذمہ دارانہ گفتگو کرکے نیا تنازعہ کھڑا کردیا۔ شاہد آفریدی نے کہاکہ ورلڈکپ میں پی سی بی نے مجھے یا مصباح کو کپتان بنانا ہے تو ابھی سے فیصلے کرلے۔ شاہد آفریدی کی اس بات سے وہ کہاوت یاد آگئی ہے کہ انگارے لینے گئی اور چولہے کی مالک بن گئی۔

آفریدی یہ بھول گئے کہ انہیں صرف ایک میچ کیلئے کپتانی دی گئی اور ٹیم کی ریگولر کپتان بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے میچ سے دستبردار ہوا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آفریدی کپتانی کا خواب دیکھنا شروع کردے۔ شاہد آفریدی ورلڈکپ 2011ء میں قومی ٹیم کے کپتان تھے اور ان کی کپتانی ، بچگانہ فیصلے اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان سیمی فائنل میں شکست کھا گیا۔

شاہد آفریدی جتنا ٹیم میں سیاست اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس سے کہیں کم یہ اپنی کارکردگی پر دھیان دیں تو ان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اور ٹیم کی کارکردگی پر بھی اس کے مثبت اثر پڑیگا لیکن چونکہ ان کا مزاج ہی ایسا ہے جس میں صرف ”میں“ نظر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو میں پسند نہیں ہے اور اس کا آفریدی کئی بار عملی مظاہرہ بھی دیکھ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ انتشار پھیلانے سے باز نہیں آتے ۔

اس بارتو پی سی بی نے بھی چپ کا روز توڑتے ہوئے آفریدی کو خبردار کیا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی قیادت مصباح الحق ہی کرینگے۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے آفریدی کے بیانات کو غیرسنجیدہ قرار دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ ان کیخلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔ ایک طرف ٹیم کی ناقص کارکردگی اور دوسری جانب کپتانی کی الجھن نے پاکستان کی ورلڈکپ کیلئے تیاریوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

کمزور ورلڈ کپ پلان کو کینگروز نے بھی ٹھوکر مار کر تیاریوں کا پول کھول دیا ہے۔کوچز کی بھاری بھرکم فوج کی بھی کوئی افادیت نظر نہیں آئی،اور تو اور فیلڈنگ میں مسائل بھی ختم ہوتے نظر نہیں آرہے، معاملات اسی انداز میں چلتے رہے تو ورلڈ کپ میں ٹائٹل کا حصول تو بڑی دور کی بات ہے فیصلہ کن مراحل تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوگی۔

مزید مضامین :