زمبابوے ٹیم کا دورہ پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں

Zimbabwe Team Ka Dora Pakistan

آج زمبابوے کی ٹیم پاکستان میں موجود ہے اور صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ زمبابوے کی ٹیم کو پاکستان کے لئے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور بلاشبہ یہ بارش کے پہلے قطرے ہی کی مانند ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں مزید ٹیموں کے آنے کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں

جمعہ 22 مئی 2015

Zimbabwe Team Ka Dora Pakistan

اسامہ طیب:
3 مارچ 2009ء پاکستان کی کرکٹ کا سیاہ دن جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ قذافی سٹیڈیم کے قریب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر 12مسلح افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں سری لنکا کے 6 کھلاڑی زخمی ہوئے جبکہ پاکستان پولیس کے 6 افراد اور 2 راہگیر شہید ہوگئے تھے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرائیور نے گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کو نبھایا اور بس کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ اس واقعے نے جہاں پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا وہیں پاکستان میں کرکٹ کی وجہ سے جنریٹ ہونے والے ریونیو کو بھی شدید متاثر کیا۔
ایسا ہر گز نہیں کہ گزشتہ 6 سال میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کوشش نہیں کی گئیں مگر ان کوششوں کے باوجود او رمتعدد بار بنگلہ دیش کی جانب سے حامی بھرنے کے باوجود بھی پاکستان کرکٹ بورڈ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال نہ کرسکا۔

(جاری ہے)


آج زمبابوے کی ٹیم پاکستان میں موجود ہے اور صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ زمبابوے کی ٹیم کو پاکستان کے لئے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور بلاشبہ یہ بارش کے پہلے قطرے ہی کی مانند ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں مزید ٹیمز کے آنے کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔
کرکٹ کا میچ ایک میلے کی طرح ہوتا ہے۔ لوگ میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خریداری کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کلچر تہذیب سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔زمبابوے ٹیم کے موجودہ دورے کے حوالے سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفامنس پر بات کی جاتی مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ ہمارے لئے سب سے اہم معاملہ سیکورٹی کا ہے۔ ہمیں بیرونی دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے کھلاڑیوں اور حتی کہ باشندوں کے لئے ایک محفوظ جگہ ہے۔ گو اسی سکیورٹی کے ایشو کو لے کر ہماری ایجنسیز بھی ریڈ الرٹ ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس موقع پر صرف ٹیم کو سکیورٹی دینا کافی ہوگا؟ اگر خدانخواستہ لاہور کے کسی بھی علاقے میں معمولی سا پٹاخہ بھی پھٹ گیا تو بھارتی اور انٹرنیشنل میڈیا اس واقع کو کیا رنگ دے گا۔ ابھی تک تو یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک انٹرنیشنل میڈیا ہآس کا زمبابوے ٹیم کی پاکستان میں موجودگی کے وقت میں سری لنکن ٹیم پر حملے کی ڈاکو مینٹری چلانے کا کیا مقاصد ہیں۔ بھارت جو تجارت کا معاملہ ہو یا پھر کرکٹ کا ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ را کی کارروئیاں اب سب کے سامنے ہیں وہ کیسے برداشت کر پائے گا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو۔ لہٰذا ہمیں زمبابوے کرکٹ ٹیم کے ساتھ ساتھ پورے شہر اور صوبے کے ساتھ ساتھ وفاقی دارلحکومت کی سکیورٹی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
یہ تو رہا سکیورٹی کا معاملہ بطور قوم اور میزبان کے بھی ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اسی ایونٹ کو کور کرنے کے لئے غیر ملکی میڈیا بھی موجود ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک منظم قوم ہیں خواہ معاملہ ٹکٹوں کے حصول کا ہو یا سٹیڈیم میں سیٹوں کے حصول کا۔ ہمیں صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ٹریفک کی صورتحال قابو نہ ہو رہی ہو تو بھی ہمیں تعاون کرنا ہے کیونکہ یہ ہی وہ وقت ہے جس میں ہم اپنے رویوں کی بدولت غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈہ کا جواب دے سکتے ہیں۔ ہمیں مہمانوں کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی اچھا سلوک رکھنا ہوگا۔ اس موقع پر ہمیں پاکستان کے حوالے سے مثبت انداز اپنانا ہوگا۔
ہمارے میڈیا کو بھی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر بتایا جا رہا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان میں اپنے ایمپائرز بھجنے سے انکار کردیا ہے۔ اور پاکستان کو کہا ہے کہ وہ اپنے لئے ایمپائرز کا انتظام خود کرے۔ یہ خبر بلکہ بریکنگ نیوز کے طور پر بتایا گیا اسی سے منفی تاثر ملتا ہے۔ کہ شاید آئی سی سی نے سکیورٹی ایشوز کی وجہ سے اپنے ایمپائرز بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔ حالانکہ اس خبر کو تفصیل میں بتانے کی ضرورت تھی جس کے مطابق آئی سی سی ہر آٹھ سال کا شیڈول مرتب کردیتا ہے۔ جسے فیوچر ٹور پلان کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں آنے والے آٹھ سال میں کتنے میچ کس کس ٹیم کے ساتھ کس کس ملک میں اور کون سے ایمپائرزکے ساتھ ہوں گے تفصیل موجود ہوتی ہے۔ اسی FTP کے مطابق پاکستان میں کوئی میچ شیڈول کا حصہ نہ تھا اور جب میچ ہی نہ ہو تو ظاہر ہے کہ ایمپائر بھی شیڈول کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اب جب زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان آمد پر آمادگی ظاہر کردی تو شیڈول کا حصہ نہ ہونے کے باوجود آئی سی سی نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اجازت دی اب اگر شیڈول کے مطابق ایمپائرز میسر نہیں ہیں تو اس بات کو منفی انداز میں ہر گز نہیں نشر کرنا چاہئے۔
دعاہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم بھی اپنی پرفامنس کی بنیاد پر اس تمام محنت کا حق ادا کرے جو پاکستان اور خاص کر پنجاب حکومت، پی سی بی اور سکیورٹی ادارے ملکر اس سیریز کو کامیاب بنانے کے لئے کر رہے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

مزید مضامین :