دنیا کے سب سے معتبر ایونٹ اولمپک گیمز کی تاریخ پر ایک نظر

Olympics Games Ki Tareekh Per Aik Nazar

پہلی بار1896ء میں اولمپکس مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، پاکستان 1948ء سے اولمپک گیمز میں شرکت کررہا ہے اولمپک گیمز میں حصہ لینا ہرکھلاڑی کی آرزو ہوتی ہے اور میڈل جیتنے والے تو جیسے زندگی کی معراج کو چھولیتے ہیں

جمعرات 26 جولائی 2012

Olympics Games Ki Tareekh Per Aik Nazar
اعجازوسیم باکھری: اولمپکس مقابلے کھیلوں کی تاریخ کا سب سے بڑا اور رنگارنگ میلہ ہے جس میں شامل ہونا ہی ایک کھلاڑی کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے۔ اولمپکس کھیلوں کا آغاز یونانی دیوتا ہرکولیس سے منسوب کیا جاتا ہے جس نے سب سے پہلے اپنے باپ زیوس کے اعزاز میں اولمپک سٹیڈیم اور اس سے ملحقہ عمارات کی تعمیرکروائی۔ ان کھیلوں کا آغاز 776قبل مسیح سے شروع ہوا اور ہرچار سال بعد ان کا انعقاد کیا جاتا رہا۔

ان مقابلوں کے فاتحین کو بہت زیادہ دولت اور عزت نوازا جاتاہے۔قارئین کی دلچسپی کیلئے اولمپکس گیمز کی تاریخ کا مختصر خلاصہ پیش خدمت ہے۔ 1896ء میں پہلی بار اولمپکس مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ۔یونان کے درالحکومت ایتھنز میں ہونے والے پہلے اولمپکس مقابلوں میں14ممالک کے241کھلاڑیوں نے نوکھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیا تھا ۔

(جاری ہے)

ایتھنز میں ہونے والے ان مقابلوں کو یونان میں بہت پذیرائی ملی اور یونانی اس ایونٹ کی مستقل میزبانی کرنا چاہتے تھے۔

مگر چارسال بعد ہونے والے دوسرے اولمپکس مقابلوں کے انعقاد کے لئے انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے پیرس کوچنا۔ 1900ء میں منعقد ہونے والی پیرس گیمز میں پہلی بار خواتین کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا۔ ان گیمز میں119ممالک کے1066کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔1904ء میں سینٹ لوئس، امریکہ میں ہونے والی اولمپک گیمز بھی ناکام ہی رہیں۔ بہت زیادہ فاصلے اور سفر کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے بیشتر یورپین ممالک کے کھلاڑی اس میں حصہ نہ لے پائے۔

انگلینڈ، فرانس اور سویڈن سے کوئی کھلاڑی شامل نہ ہوا۔ اگرچہ12ممالک نے ان کھیلوں میں حصہ لیا۔ کل681کھلاڑیوں میں سے صرف سوسے کچھ زائدغیر امریکی کھلاڑی تھے اور ان میں سے بھی بیشتر کا تعلق کینیڈا سے تھا۔ دواولمپکس مقابلوں کی ناکامی کے بعد1906ء میں ان کھیلوں کا انعقاد دوبارہ یونان میں کیا گیا۔ ان میں پہلی بار امریکی ٹیم سرکاری طور پر شامل ہوئی اور انہوں نے سرکاری وردی بھی زیب تن کی۔

حسب توقع یہ مقابلے انتہائی کامیاب رہے اور انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہردواولمپکس مقابلوں کے درمیان یہ مقابلے ایتھنز میں منعقد کئے جائیں گئے۔ مگر بدقسمتی سے1910ء میں یونان میں سیاسی حالات میں ابتری کی بناء یہ مقابلے منعقد نہ ہوسکے اور یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ بعد میں آئی او سی نے انہیں غیر سرکاری اولمپک گیمز قرار دیا اور انہیں ریکارڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔

1908ء میں اولمپک گیمز کو اٹلی کے شہر روم میں منعقد ہونا تھا مگر سیاسی حالات کی وجہ سے انہیں لندن منتقل کردیا گیا۔ یہ گیمز نسبتاً بہت منظم طریقے سے منعقدکی گئیں مگر سیاست اور قومیت پسندی کی وجہ سے یہ گیمز بھی متاثر ہوئیں۔ 22ملکوں کے2000کھلاڑیوں نے ان میں حصہ لیا۔ آئرش کھلاڑیوں نے ان گیمز کا بائیکاٹ کیا اور پہلی بار امریکیوں نے افتتاحی تقریب میں اپنا پرچم برطانوی بادشاہ کے سامنے سرنگوں کرنے سے انکار کردیا اور ایک ایسی روایت کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔

ان کھیلوں میں ڈائیونگ کو پہلی بار شامل کیا گیا اور میراتھن دوڑ کے لئے پہلی بار26میل اور365گز کا فاصلہ مقرر کیا گیا جو آج تک قائم ہے۔سٹاک ہوم، سویڈن میں1912ء کو منعقد کی جانے والے اولمپکس گیمز اپنی مثال آپ تھیں اور انہیں آج بھی بہترین گیمز میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ ان کھیلوں میں28ممالک کے2500کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ 1916ء میں اولمپک گیمز نے جرمن کے شہر برلن میں منعقد ہونا تھا لیکن پہلی عالمی جنگ کے چھڑنے کی وجہ سے ان کا انعقاد نہ ہوسکا۔

پہلی عالمی جنگ کے خاتمہ کے فوراً بعد1920میں اینٹورپ، بیلجیم میں ان کھیلوں کا انعقاد کیا گیا۔ عالمی جنگ کی وجہ سے ان کھیلوں کے لئے فنڈنگ بہت بڑا مسئلہ تھی اور جب کھلاڑی بیلجیم پہنچے تو تعمیراتی کام بھی مکمل نہ تھا۔ اگرچہ اصولی بنیادوں پر ہر ملک کے لئے اولمپک گیمز کے دروازے کھلے تھے۔ جرمنی، بلغاریہ، آسٹریا اور ہنگری کو ان مقابلوں میں حصہ لینے سے روکانہ گیا مگر انہیں شمولیت کی دعوت بھی نہ دی گئی۔

ان ممالک کو1924ء کے کھیلوں میں بھی شمولیت کی دعوت نہ دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ نئے نئے وجود میں آنے والے کمیونسٹ اتحاد پر مشتمل سویت یونین نے بھی ان کھیلوں میں شمولیت نہیں کی اور سوویت یونین1952ء تک اولمپکس مقابلوں سے دوررہا۔ 1924ء میں آئی او سی کے بانی اور صدر پیئر ڈی کوبرٹن کے ریٹائر ہونے کے موقع پر اس کے اعزاز میں ایک بار پھر اولمپک گیمز پیرس میں منعقد کی گئیں۔

ان مقابلوں میں44ممالک کے تین ہزار سے زائد کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ انہی کھیلوں کے موقع پر پہلی بار سرمائی کھیلوں کو اولمپکس کا حصہ بنایاگیا جن کا انعقاد جنوری اور فروری کے مہینے میں ہوا۔ان مقابلوں کے بعد ٹینس کو اولمپک کھیلوں کی فہرست سے نکال دیا گیا اور ٹینس کی واپسی1988ء میں دوبارہ ہوئی۔1928ء میں ہالینڈ کے شہرایمسٹرڈیم میں منعقد ہونے والے اولمپکس کھیلوں میں46 ممالک کے3000سے زائد کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔

ان کھیلوں کی خاص بات بہت زیادہ مخالفت کے باوجود خواتین کی کھیلوں میں ٹریک اینڈ فلیڈ اور جمناسکٹس کے مقابلوں کا اضافہ تھا۔1932ء میں ایک بار پھر اولمپک گیمز امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں منعقد کی گئیں۔ جن میں37ممالک کے تقریباً1300کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ گیمز کے شروع ہونے سے چھ مہینے پہلے تک یوں لگتا تھا کہ کوئی ملک بھی ان کھیلوں میں حصہ نہیں لے گا جس کی وجہ عالمیمالی بحران تھا۔

ان کھیلوں میں پہلی بار کھلاڑیوں کے لئے اْولمپکس ویلیج تیار کیا گیا۔1936ء میں جرمن کے شہر برلن میں ہونے والی اولمپک گیمز میں49ممالک کے تقریباً4000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ ان کھیلوں میں ایڈولف ہٹلر نے نازی پروپیگنڈا کی خوب ترویج کی۔ انہی کھیلوں میں ٹارچ ریلے کا انعقاد کیاگیا اور پہلی بار اولمپک گیمز کو ٹیلی ویڑن پر دکھایاگیا۔1940ء اور1944ء میں دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے اولمپک گیمز کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا۔

1948ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد لندن میں ان کھیلوں کو منعقد کیا گیا۔ ان کھیلوں میں59ممالک کے تقریباً 4000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ اگرچہ ان کھیلوں کا انعقاد مشکوک تھا اور ان کو منعقد کرنے کے فیصلے پر بہت تنقید کی گئی لیکن اس کے باوجود یہ انتہائی کامیاب رہیں۔ ہیلسنکی،فن لینڈ میں1952ء میں منعقداولمپک گیمز”سرد جنگ“ کا ایک عکس ثابت ہوئیں۔ سویت یونین نے اگرچہ1912ء کے بعد ان گیمز میں دوبارہ شمولیت اختیار کی لیکن انہوں نے دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ اولمپک ویلیج میں رہنے کی بجائے علیحد اولمپک ویلیج قائم کیا جس میں مشرقی یورپ کے ممالک بھی ٹھہرے۔

ان مقابلوں میں69ممالک کے پانچ ہزار کھلاڑیوں نے شرکت کی۔1956ء میں میلبورن، آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے اولمپکس اسرائیل کے مصر اور سوویت یونین کے ہنگری پرحملے کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے۔ مصر، عراق اور لبنان نے اسرائیل کی وجہ سے اور ہالینڈ، سپین اور سوئٹزر لینڈ نے سویت یونین کی وجہ سے ان کھیلوں کا بائیکاٹ کیا۔ ان کھیلوں میں57ممالک کے محض3500کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔

ان کھیلوں کی خاص بات افتتاحی تقریب کے انعقاد کی روایت کی شروعات تھی۔83ممالک کے تقریباً 5000کھلاڑیوں نے اٹلی کے شہر روم میں1960ء میں ہونے والی اولمپک گیمز میں شمولیت کی۔ اس موقع کو یادگار بنانے کیلئے اٹلی نے جدید اور قدیم کے امتزاج سے خوبصورت سٹیڈیمز تیار کئے۔ یہاں پہلی دفعہ اولمپکس کو مکمل طور پر ٹیلی ویڑن پر کوریج دی گئی۔1960ء کے روم اولمپکس میں پاکستا ن نے اپنے تمام چھ میچز جیت کرگولڈمیڈل حاصل کیا۔

پاکستان نے بھارت کو ایک صفر سے ہراکر نہ صرف اپنی شکست کا بدلہ لیا بلکہ پہلی بار اولمپکس گولڈمیڈل جیتنے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ 1964ء میں ٹوکیو، جاپان میں ہونے والی گیمز میں انڈونیشیا، شمالی کوریا اور جنوبی افریقہ کو حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ انڈونیشیا اور شمالی کوریا نے آئی اوسی کی جانب سے اپنے بے شمار کھلاڑی ڈس کوالیفائی کرنے کی وجہ سے مقابلوں سے دستبرداری اختیار کی۔

ان کھلاڑیوں کو 1963ء میں جکارتہ میں ہونے والی نیوایمرجنگ فورسز گیمز میں حصہ لینے کی بنیاد پر ڈس کوالیفائی کیا گیا تھا۔ جبکہ جنوبی افریقہ کونسل پرستی کی بنیاد پر حصہ لینے سے روکا گیا۔ ان کھیلوں میں 93ممالک کے 5000کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور ان کھیلوں کے نتائج مرتب کرنے کیلئے پہلی بار کمپوٹر کا استعمال کیا گیا۔1964ء کے ٹوکیواولمپکس میں پاکستا ن نے ہاکی کے فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن فیصلہ کن معرکے میں بھارت کے ہاتھوں کے شکست کھانا پڑی ،پاکستان نے ایونٹ میں 8میں سے سات میچز میں فتح حاصل کی۔

1968کی میکسیکو سٹی، میکسیکو میں ہونے والی گیمز، جن میں112ممالک کے5500کھلاڑیوں نے حصہ لیا، سیاست کی آلودگی سے بچ نہ سکیں اور پہلی بار کھلاڑیوں نے وکٹری سٹینڈ پر امریکہ میں کالوں کے خلاف ہونے والے نسلی تعصب کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہی گیمز میں ممنوعہ ادویات کے استعمال کا پتہ چلانے کے لئے کھلاڑیوں کے ٹیسٹ لینے کا آغاز ہوا۔ 1968ء کے میکسیکو اولمپکس میں پاکستان نے ہاکی مقابلوں میں عمدہ کھیل پیش کیا اورفا ئنل میں آسٹریلیا کو 2-1سے شکست دیکر گولڈمیڈل جیتا۔

پاکستان نے ایونٹ9 میچ کھیلے اور تمام میں فتح حاصل کی۔ مغربی جرمنی کے شہر میونح میں1972ء میں منعقد کئے جانے والے اولمپکس کھیلوں میں122ممالک کے7000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ ان گیمز میں11اسرائیلی کھلاڑیوں کو فلسطینی تحریک آزادی کے کارکنوں نے ہلاک کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود آئی او سی نے اولمپک گیمز جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ میونخ اولمپکس میں پاکستا ن نے ہاکی ایونٹ کے 9میچز میں سے چھ میں فتح حاصل کی۔

اس ایونٹ میں پاکستان کوفائنل میں مغربی جرمنی شکست دیکر گولڈمیڈل جیتا۔ 1976ء میں مونٹریال، کینیڈامیں ہونے والے اولمپکس گیمز بائیکاٹ اور ممنوعہ ادویات کے استعمال کے حوالے سے یاد کی جاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی رگبی ٹیم کا جنوبی افریقہ جا کر میچ کھیلنے پر احتجاجاً 26افریقی ممالک نے اولمپکس کھیلوں کا بائیکاٹ کیا۔ ان کھیلوں میں صرف88ممالک کے 6000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔

1980ء میں ہونے والی ماسکو اولمپک گیمز کا62 ممالک نے بائیکاٹ کیا کیونکہ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کررکھا تھا۔ تقریباً 5000کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں81ممالک کی نمائندگی کی۔جواباً1984ء میں لاس اینجلس، امریکا میں منعقد ہونے والی اولمپک گیمز کا روس، مشرقی جرمنی، کیوبا سمیت 14ممالک نے بائیکاٹ کیا۔ ان گیمز کی خاص بات یہ تھی کہ مختلف کمپنیوں نے ان اولمپکس کو سپانسر کیا تھا۔

جس سے مالی مسائل میں کمی آئی۔ ان کھیلوں میں140ممالک کے تقریباً 6000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ء لانس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نے ہاکی ایونٹ میں سات میں سے چار میچز میں کامیابی حاصل کی۔مایوس کن کارکردگی کے باوجود پاکستان نے فائنل تک رسائی حاصل کی اور جرمنی کو شکست دیکر ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔یہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے اولمپکس مقابلوں میں گولڈمیڈل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

1988ء میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں منعقدہ یہ کھیل انتہائی کامیاب رہے۔ شمالی کوریا نے شریک میزبان نہ بنائے جانے پر ان کھیلوں کا بائیکاٹ کیا۔ ان کھیلوں میں پہلی بار پیشہ وارنہ کھلاڑیوں کو شمولیت کی اجازت دی گئی۔ ان کھیلوں میں159ممالک کے8500کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ بارسلونا، سپین میں1992ء میں منعقد ہونے والی اولمپک گیمز گذشتہ تین دہائیوں میں پہلے اولمپکس گیمز تھے جن کا کسی ملک نے بائیکاٹ نہ کیا۔

جرمنی نے ایک اکٹھے ملک کے طور پر حصہ لیا ۔بیس بال کو اولمپکس میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔ ان کھیلوں میں1969ممالک کے9300 کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ بارسلونا اولمپکس مقابلوں میں پاکستان ہاکی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی ،ایونٹ میں قومی ٹیم نے سات میں سے چھ میچز میں فتح پائی۔1996میں اٹلانٹا، امریکہ میں ہونے والی اولمپکس پہلی گیمز تھیں جنہیں بغیر حکومتی تعاون کے منعقد کیا گیا۔

یوں اولمپکس میں کمرشلائزیشن کے دور کا آغاز ہوا۔197ممالک کے تقریباً10000کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ اٹلانٹا اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں پاکستان نے سات میں سے تین میچز میں کامیابی حاصل کی ۔2000ء سڈنی، آسٹریلیا میں ہونے والی گیمز بے مثال تھیں۔ ان میں199ممالک کے 10000سے زائدہ کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ افغانستان پر طالبان حکومت کے قیام کی وجہ سے پابندی تھی۔

سڈنی اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔قومی ٹیم کو سات میں سے پانچ میچز میں شکست کا سامنا کرناپڑا۔ 1896ء کے بعد2004ء میں پہلی بار نیشنل اولمپک کمیٹی کے زیر اہتمام اولمپک گیمزیونان کے شہر ایتھنز میں واپس پہنچیں۔ ان کھیلوں میں202ممالک کے10625کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ افغانستان کی اولمپکس میں واپسی ہوئی۔

ان گیمز میں28کھیلوں کے301مقابلوں کاانعقاد کیا گیا۔ ایتھنز اولمپکس میں پاکستانی ٹیم سات میں سے پانچ میچ جیتنے میں کامیاب رہی۔2008ء کی گیمز چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقد ہوئیں جس میں204ممالک کے 11028ایتھلیٹس نے حصہ لیا ۔پاکستان نے ہاکی مقابلوں میں آٹھویں پوزیشن حاصل کی جبکہ سوئمنگ اور ایتھلیکٹس میں پاکستان کو وائلڈ کارڈ انٹری ملی لیکن قومی کھلاڑی متاثر کن کارکردگی پیش نہ کرسکے۔

2012ء کے اولمپکس گیمز لندن میں منعقد ہورہے ہیں جس میں204ممالک کے 10ہزار 5سو اتھلیٹس شرکت کررہے ہیں۔ پاکستان کا 39رکنی دستہ لندن اولمپکس میں شرکت کررہا ہے ۔ ہاکی ٹیم کی قیادت سہیل عباس کو سونپی گئی ہے ۔ لندن اولمپکس میں پاکستان شوٹنگ، سوئمنگ اور اتھلیکٹس میں شرکت کررہا ہے ، ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں میں پاکستان کو وائلڈ کارڈ انٹری ملی ہے۔

مزید مضامین :