Facebook moves one and half billion users from Ireland to US

Facebook Moves One And Half Billion Users From Ireland To US

پرائیویسی کے یورپی قوانین سے بچنے کے لیے فیس بک 1.5 ارب صارفین کا ڈیٹا امریکا منتقل کررہا ہے

کیمبرج اینالیٹکا کے حادثے کے بعد بظاہر فیس بک کی طرف سے پرائیویسی کے حوالے سے کافی سختی نظر آ رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ فیس بک نے آئندہ بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے ابھی سے کوشش شروع کر دی ہے۔
25 مئی سے یورپ میں نئے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) قوانین نافذ ہو رہے ہیں۔نئے قوانین میں صارفین کی مرضی کے بغیر اُن کے ڈیٹا کے استعمال پر پابندی ہے۔

اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنی پر اس کی ساری دنیا میں کمائی گئی آمدن کا چار فیصد تک جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔یہ فیس بک کے لیے بھی کافی بڑی سزا ہو سکتی ہے۔ فیس بک نے اس حوالے سے مستقبل میں کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے ابھی سے کام شروع کر دیا ہے۔فیس بک کے بانی مارک زکر برگ ویسے تو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ساری دنیا کے صارفین کی پرائیویسی کے حوالے سے ایسے اقدامات کیے جائیں گے جو جی ڈی پی آر کی روح کے مطابق ہونگے لیکن اس کے ساتھ ہی کمپنی نے آئرلینڈ میں واقع اپنے آفس ، جہاں پر امریکا، کینیڈا اور یورپی یونین سے باہر کے صارفین کا ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے، سے تمام صارفین کا ڈیٹا کیلیفورنیا،امریکا منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

اس تبدیلی کے بعد صارفین پر آئرلینڈ کے قوانین کی بجائے امریکی قوانین کا اطلاق ہوگا۔
فیس بک نے قوانین کی وجہ سے صارفین کا ڈیٹا منتقل کرنے کی سختی سے تردید کی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہناہے کہ ڈیڑھ ارب صارفین کا ڈیٹا امریکا منتقل کرنا صرف کاپی پیسٹ نہیں۔ اس سے بہت سے صارفین کو پرائیویسی کے حقوق کم ہو جائیں گے۔ امریکا میں پرائیویسی کےحوالے سے قوانین اتنے سخت نہیں جتنے یورپی یونین میں ہیں۔

فیس بک نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسا قوانین سے بچنے کے لیے نہیں کیا جا رہا کیونکہ یورپی یونین میں پرائیویسی کے نوٹس کو مخصوص زبان میں ہونا چاہیے جبکہ امریکا میں ایسی پابندی نہیں۔تاہم ماہرین فیس بک کے دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔
لنکڈان بھی غیر یورپی صارفین کا ڈیٹا 8 مئی کو امریکا منتقل کر رہا ہے۔

تاریخ اشاعت: 2018-04-21

More Technology Articles