ٹویوٹا سےٹھکرائے ہنڈا کارپوریشن کے مالک سوییچیرو ہونڈا کے ناکامیوں سے کامیابیوں کے سفر کی داستان

Ameen Akbar امین اکبر اتوار 30 جولائی 2017 20:19

ٹویوٹا سےٹھکرائے ہنڈا کارپوریشن کے مالک سوییچیرو ہونڈا کے ناکامیوں سے کامیابیوں کے سفر کی داستان

آج کل آپ ہر جگہ ہی ہونڈا کی کاریں اور موٹر سائیکلیں دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہونڈا موٹرز کے مالک سوییچیرو ہونڈا  کو یہاں تک پہنچنے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسرے ممالک کی طرح 1930  کی دہائی میں جاپان بھی معاشی بحران کا شکا ر تھا۔ 1938 میں سوییچیرو ہونڈا ابھی سکول میں ہی تھے کہ انہوں نے ایک چھوٹی سی ورکشاپ چلانا شروع کر دی اور یہیں انہوں نے پسٹن رنگ  پر کام شروع کیا۔


ان کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنا ڈیزائن ٹویوٹا کو فروخت کریں گے۔ انہوں نے دن رات محنت کی حتی کہ بہت بار اپنی ورکشاب میں ہی سوئے۔ انہیں یقین تھا کہ  وہ بہت اعلیٰ مصنوعات ڈیزائن کر سکتے ہیں  ااور بنا سکتے ہیں۔اسی دوران اُن کی شادی ہو گئی تو انہوں نے بیوی کا زیور گروی رکھوا کر کاروبار کے لیے سرمایہ قرض لے لیا۔

(جاری ہے)


آخر کار انہوں نے اپنا پسٹن رنگ مکمل کر لیا اور اس قابل ہوگئے کہ اس کا نمونہ  لےجا کر ٹویوٹا کو دکھا سکیں گے۔

ٹویوٹا نے پسٹن رنگ کو دیکھ کر کہا کہ وہ اُن کے معیار کے مطابق نہیں۔ سوییچیرو ہونڈا واپس سکول چلے گئے  جہاں اُن کے ساتھی انجیئنر اُن کے ڈیزائن پر ہنستے تھے۔ان سب مشکلات کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی ۔ انہوں نے ناکامی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کام جاری رکھا اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ دو سال کی محنت اور دوبارہ ڈیزائنگ کے بعد آخر کار اُن کا ٹویوٹا کے ساتھ معاہدہ ہوگیا۔


اس وقت تک جاپانی حکومت بھی جنگ میں کود پڑی اور جنگ میں تیزی آتی گئی۔ ہاتھوں میں معاہدہ لیے سوییچیرو ہونڈا کو اب ضرورت تھی تو ایک فیکٹری کی۔ جنگ کے باعث فیکٹری میٹریل کافی نایاب اور مہنگا تھا۔انہوں نے اس پر بھی ہار نہیں مانی بلکہ انہوں نے کنکریٹ بنانے کا نیا پراسس ایجاد کر لیا اور یوں اپنے لیے فیکٹری بنانے کے قابل ہوئے۔فیکٹری تو تیار ہوگئی اور پروڈکشن کے لیے تیار بھی تھی لیکن اسی دوران فیکٹری پر دو بار بم گرے ۔

اس کے بعد سٹیل کا بھی بحران پیدا ہوگیا۔ آپ کا کیا خیال ہے ، کیا یہاں سوییچیرو ہونڈا کے سفر کا اختتام ہونا چاہیے تھا؟ ایسا بالکل نہیں ہوا۔
سوییچیرو ہونڈا نے امریکی جہازوں سے گرائے ہوئے گیسولین کے پھینکے ہوئے اضافی کین جمع کرنے شروع کر دئیے۔ سوییچیرو ہونڈا ان کینز کو امریکی صدر ٹرومین کا تحفہ کہتے تھے۔ان کینز نے اُن کے پیداواری عمل میں نئے خام مال کا کردار ادا کیا ۔

اس کے بعد ایک زلزلہ آیا اور اُن کی فیکٹری تباہ ہوگئی۔
جنگ کے بعد گیسولین کی قلت نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ پیدل یا سائیکلوں پر سفر کریں۔ سوییچیرو ہونڈا نے ایک چھوٹا سا انجن بنایا اور اسے اپنی  سائیکل کے ساتھ جوڑ دیا۔ سوییچیرو ہونڈا کی سائیکل دیکھ کر اُن کے ہمسایوں نے بھی ایسی ہی سائیکل کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے اس کا میٹریل ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے جس کے باعث  وہ یہ آرڈر پورا نہ کر سکے۔


آپ کے خیال میں کیا  انہیں یہاں ہار مان لینی چاہیے تھی؟ نہیں سوییچیرو ہونڈا تو کسی اور ہی مٹی کے بنے تھے۔ انہوں نے سائیکلوں کی 18  ہزار دوکانوں کے مالکان کو خطوط لکھ  کر اُن سے مدد مانگی۔ اُن میں سے 5 ہزار افراد  نے جواب میں اُن کی مدد  کے لیے ایڈوانس کے طور پر تھوڑی تھوڑی رقم بھیج دی۔اس رقم کی مدد سے وہ چھوٹا انجن بنا سکتے تھے۔ بدقسمتی سے انجن کا پہلا ماڈل بہت وزنی تھا  اور ٹھیک سے کام نہیں کرتاتھا۔

انہوں نے پھر ہمت نہیں ہاری اور انجن پر کام کرتے رہے۔ آخر کار وہ اپنی مرضی کا چھوٹا انجن بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
آخر کار ہونڈا سپر کب(Honda Super Cub) نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ جاپان میں کامیابی کے بعد ہونڈا نے  اپنی سائیکلیں (یعنی موٹر سائیکلیں )یورپ اور امریکا برآمد کرنا شروع کر دیں۔
کہانی کا اختتام یہیں نہیں ہوتا۔ 1970 کی دہائی میں ایک بار بھی گیس  کی قلت کا بحران پیدا ہوا، جس کے باعث  دنیا بھر میں کار کے شوقین افراد چھوٹی کاروں کو  ترجیح دینے لگے۔

ہونڈا نے اس  رحجان سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے ماہرین کا گاڑی کے لیے چھوٹا انجن ڈیزائن کرنے پر لگا دیا۔ آخر کار ہونڈا نے اتنی چھوٹی کاریں بنا لی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھیں۔
آج ہونڈا کارپوریشن میں امریکا اور جاپان میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ ہونڈا دنیا کی بڑی کارساز کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ہونڈا کی کامیابی صرف ایک شخص ، سوییچیرو ہونڈا ، کی مرہون منت ہے ،  جنہوں نے اپنی ناکامیوں  کو پس پشت ڈالتے ہوئے کامیابیوں کے لیے محنت جاری رکھی۔

Browse Latest Weird News in Urdu