335 سالوں تک جاری رہنے والی دنیا کی سب سے طویل اور عجیب وغریب جنگ

Ameen Akbar امین اکبر جمعہ 13 اکتوبر 2017 23:35

335 سالوں تک جاری رہنے والی دنیا کی سب سے طویل اور عجیب وغریب جنگ

یورپی حکمرانوں اور سپین کے مسلمان بادشاہوں کے بیچ 711 سے 1492 تک یعنی 781 سالوں تک وقفے وقفے سے جنگیں ہوتی رہیں۔ 92 قبل مسیح سے 629 عیسوی تک  یعنی 721 سالوں تک ایرانی اور رومی بھی وقفے وقفے سے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہے۔ اس کے بعد   جو سب سے طویل ترین اور دلچسپ جنگ ہے وہ ڈچ-سیلی جنگ ہے۔ یہ جنگ 1651میں شروع ہوئی اور 335 سال بعد 1986 میں اس جنگ کا باقاعدہ طور پر خاتمہ ہوا۔

اس جنگ کو 335 سالہ جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ جنگ نیدرلینڈ اور جزائر سیلی کے مابین لڑی گئی۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ میں کسی فریق کا ایک سپاہی بھی نہیں مارا گیا اور کسی نے ایک گولی نہیں چلائی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فریق اپنی اس جاری جنگ کے بارے میں بھول چکے تھے۔معاہدہ امن کے نہ ہونے کے باعث یہ جنگ نظریاتی طور پر جاری رہی اور دنیا کی سب سے طویل ترین جنگوں میں سے ایک بن گئی 1651 میں شروع ہونے والی اس جنگ کا قانونی طور پر خاتمہ 1986 میں ہوا۔

(جاری ہے)


اس جنگ کی شروعات انگریزی خانہ جنگی کی وجہ سے ہوئی۔ یہ خانہ جنگی شاہ پرستوں اور ارکان پارلیمان کے بیچ 1642 سے 1651 تک جاری رہی۔اس جنگ میں شاہ پرستوں کو جزائر سیلی تک محدود کر دیا تھا۔  اس جنگ میں نیدرلینڈ کے متحدہ صوبوں کی بحریہ  ارکان پارلیمان کی اتحادی تھی۔  شروع میں نیدرلینڈ کی بحریہ کو جزائر سیلی میں شاہ پرستوں کی بحریہ کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

شاہ پرستوں کی بحریہ نے نیدر لینڈ کے کئی بحری جہازوں اور سامان پر قبضہ کر لیا۔ 30 مارچ1651 کو نیدرلینڈ کی بحریہ کے  ایڈمریل مارٹن  ہرپرٹسزون ٹرومپ جزائر سیلی پہنچے اور شاہ پرستوں سے بحری جہازوں اور سامان پر قبضہ کرنے کی وجہ سے نقصان کی تلافی کا مطالبہ کیا۔ جب شاہ پرستوں نے ایڈمرل ٹرومپ کو تسلی بخش جواب نہیں دیا تو انہوں نے اعلان جنگ کر دیا۔

سارا برطانیہ چونکہ ارکان پارلیمان کے ہاتھ میں تھا، اس لیے یہ اعلان جنگ خاص طور پر جزائر سیلی کےخلاف تھا۔
اس اعلان جنگ کے  فوراً بعد ہی ارکان پارلیمان کی فوج نے ایڈمرل روبرٹ بلیک کی کمان میں شاہ پرستوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ نیدر لینڈ کے بحری بیڑے کو اب کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے وہ ایک گولی داغے بغیر واپس چلے گئے۔ نیدر لینڈ کی یہ جنگ ایک  ملک کے چھوٹے سے حصے کے خلاف تھی، اس لیے نیدرلینڈ نے کبھی معاہدہ امن کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔


1985 میں جزائر سیلی کی کونسل کے چیئرمین اور تاریخ دان رائے ڈنکن نے برطانیہ میں نیدرلینڈ کے سفارت خانے کو خط لکھ کر اس جنگ کے بارے میں بتایا۔ نیدر لینڈ نے جب اس معاملے میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ واقعی وہ اب تک حالت جنگ میں ہیں۔ 17 اپریل 1986 کو دونوں فریقوں کے بیچ جنگ شروع ہونے کے 335 سال بعد معاہدہ امن ہوا اور یوں یہ دلچسپ جنگ اختتام کو پہنچی۔

Browse Latest Weird News in Urdu