جس شخص کی آخری رسومات 7 ماہ پہلے ادا کر دی گئی تھیں وہ زندہ سلامت گھر واپس آگیا

Ameen Akbar امین اکبر بدھ 3 جنوری 2018 23:34

جس شخص کی آخری رسومات 7 ماہ پہلے ادا کر دی گئی تھیں وہ زندہ سلامت گھر واپس آگیا

ایک تھائی خاندان کو اس وقت اپنی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا جب ایک سات ماہ قبل جلایا گیا مردہ شخص ان کی آنکھوں کے سامنے چلتا ہوا گھر کے اندر ایسے داخل ہوگیا جیسےاسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا
تھائی لینڈ کے سی سا کیت صوبے سے تعلق رکھنے والا 44 سالہ شخص ساکورن ساچیوا  دو سال تک ملک کے مختلف حصوں میں کشتی پر  مچھلیاں پکڑنے کا کام کرنے کے بعد آخرکار اپنے گھر واپس آن پہنچا۔


اس تمام عرصے میں اس نے اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں کیا تھا ، اس لیے اسے کسی قسم کے پرجوش استقبال کی امید ہرگز نہ تھی مگر اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اسے ایک بھوت سمجھ کر سلوک کیا جائے گا۔
17 دسمبر کو جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس کے گھر والے اسے چھو کر یقین کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ آیا وہ حقیقت میں ہے یا نہیں۔

(جاری ہے)

اسے بعد میں ان سے پتہ چلا کہ وہ گزشتہ سات ماہ سے مرچکا تھا۔
مئی میں نانگ لیانگ ،جہاں وہ کام کیا کرتا  تھا، کی پولیس نے ساکورن کے خاندان سے رابطہ کیا اور اطلاع دی کہ وہ نظام ہضم خراب ہونے کے بعد وفات پاچکا ہے ۔
انہیں اس کی لاش کی شناخت کرکے اسے لے جانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ انہیں بنکاک کے علاقے فرانیکون تک سفر کرنا پڑا،جہاں انہیں اس کی موت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔

اس کے بعد وہ  اس کی لاش کو لے گئے۔
پھولا ہوا مردہ جسم شناخت کرنا مشکل تھا لیکن ساکورن کے 33 سالہ کزن نیکورنچائی پمکلین نے غور کیا کہ مردہ شخص کے دانت ساکورن کے دانتوں سے مختلف تھے کیونکہ اس کے سامنے کے دو دانت غائب تھے۔
اس نے ایک سرکاری اہلکار سے اس کا ذکر بھی کیا جو لاش کو لے جانے کے سلسلے میں ہدایات دینے میں مصروف تھا، اہلکار نے بس اتنا کہا کہ لاش اٹھاؤ اور جاؤ۔

انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ لاش کو سی سا کیت لے آئے جہاں انہوں نے مردہ کو جلانے سے قبل تین روز تک مختلف مذہبی رسومات ادا کرنی تھیں۔
اس تمام عرصے میں اصل ساکورن  نانگ لیانگ میں زندہ اور صحیح سلامت کام کرنے میں مصروف تھا جیسا کہ وہ پچھلے دو سالوں سے کرتا آ رہا تھا۔ چند ہفتے قبل اس نے نوکری چھوڑ کر گھر واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی واپسی اس کے گھر والوں کے لیے  صدمہ ثابت ہو گی۔


اپنی موت کا قصہ گھر والوں سے سننے کے بعد ساکورن  نے کہا کہ ایک موقع پر اس کے ساتھ کام کرنے والے میانمار کے ایک شخص نے  اس کا شناختی کارڈ چرا لیا تھا اور پھر وہ غائب ہو گیا۔ اگرچہ اس نے کارڈ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کے بعد نیا کارڈ حاصل کرلیا لیکن اس نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کوئی اس کا کارڈ استعمال کر رہا ہوگا۔
ساکورن کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ اس وقت بیورو آف رجسٹریشن ایڈمنسٹریشن سے اپنے زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کروانا ہے جو کہ سات ماہ قبل سرکاری طور پر اس کو مردہ قرار دے چکے تھے۔


اور پولیس کے لیے اب صرف ایک مسئلہ حل طلب ہے کہ وہ اس مردہ شخص کی شناخت پتہ لگائے جس کوساکورن سمجھ کر جلا دیا گیا تھا۔ انہیں امید ہے کہ وہ جلانے کے بعد ہڈیوں کی باقیات سے اس کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جنوری میں بھی ایک 82 سالہ انڈین خاتون ولاسا 40 سال بعد اپنے گھر لوٹ آئی جبکہ اس کے گھر والے اسے مردہ سمجھ چکے تھے۔

Browse Latest Weird News in Urdu