شیشے سے بنی جیل میں 13 سال سے قید خاتون اپنے پیاروں کو چھونے سے قاصر ہے

Ameen Akbar امین اکبر منگل 24 اپریل 2018 03:19

شیشے سے بنی جیل میں  13 سال سے قید  خاتون اپنے پیاروں کو چھونے سے قاصر ہے
قادس ،اسپین سے تعلق رکھنے والی 53 سالہ جوانا مونوز پچھلے 13 سالوں سے شیشے سے بنے پنجرے میں بند اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ کہنے کو تو وہ اس میں قید ہیں لیکن  شیشے سے بنی یہ جیل ہی  انہیں مہلک چیزوں سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔
چار جان لیوا بیماریوں کی تشخیص ہونے پر جوانا مونوز کے پاس خود کو شیشے کے 25 میٹر پنجرے میں قید کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔

ان بیماریوں میں ملٹی پل کیمیکل سینسیٹیویٹی (MCS) ، fibromyalgia, chronic fatigue syndrome, اور electro sensitivity شامل ہیں۔ کوئی بھی شخص  اس وقت تک ان کے قریب نہیں آ سکتا جب تک کہ وہ کیمیکل سے صفائی کرنے والی  مصنوعات  سے نہانے کے بعد جراثیم سے پاک کاٹن کا لباس نہ پہن لے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کی فیملی کے افراد ان کو گلے لگانا تو دور کی بات چھو تک نہیں سکتے۔

(جاری ہے)

اگر وہ ایسا کریں گے تو جوانا مونوز کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جوانا کے 26 اور 29 سالہ دو بچوں کو سال میں صرف دو مرتبہ اُن سے  گلے ملنے کی اجازت ہے لیکن اس سے پہلے بچوں کو کئی دن تک تیاری کرنی پڑتی ہے۔
جوانا کا کہنا ہے کہ 29 سال قبل صحن میں لگے آلوؤں کو چھونے پر اس کے ہونٹ اور آنکھیں سوجنے لگیں۔جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو اس وقت تک اس کا پورا جسم پھول چکا تھا۔

  corticosteroids کی مدد سے اس کا علاج کرکے ڈسچارج کردیا گیا۔ لیکن اس کے بعد سے ہی جب بھی وہ کسی کیمیکل والی شے کو ہاتھ لگاتی اسے الٹیاں، تھکن، جلدی خارش،  سانس رکنے اور مختلف قسم کی الرجی کا سامنا کرنا پڑتا۔
اسے یاد ہے کہ ان آلوؤں پر کیمیائی اسپرے کیا گیا تھا۔ پہلی بار کیمیکل الرجی کے ری ایکشن کا سامنا کرنے کے  کچھ سالوں بعد اس سپرے بنانے والی کمپنی پر پابندی لگ گئی۔

وہ کسی قانونی جھنجھٹ میں نہ پڑنے کی خاطر  اس کمپنی کا نام نہیں لینا چاہتیں۔
بعد ازاں ان کی حالت زیادہ ابتر ہونے پر دیگر بیماریوں کی تشخیص ہوئی جس پر انہیں باغ میں شیشے کے 25 میٹر کے پنجرے میں حفاظتی اقدام کے طور پر بند کر دیا گیا۔ جوانا کا شوہر ایک نرس کے طور پر ان کی حفاظت پر مامور ہے اور ان کے لیے خود کیمیکلز سے پاک خوراک اپنے باغ میں اگاتا ہے۔

جوانا کو مہینے میں چار یا پانچ بار محفوظ ذرائع سے حاصل کردہ مچھلی کا گوشت بھی کھلایا جاتا ہے۔ جراثیم سے پاک کاٹن کا لباس پہننے کے ساتھ ساتھ جوانا کو جرمنی کا تیارکردہ ایک سرامک  ماسک بھی دیا گیا ہے تاکہ سانس لینے میں مشکل پیش آئے تو وہ اس کی مدد سے آکسیجن کشید کر سکیں۔
ہم میں سے زیادہ تر افراد کے لیے اپنوں سے گلے ملنا معمولی سی بات ہے لیکن جوانا جیسے لوگوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ صحت یاب ہوکر اپنے خاندان سے گلے مل سکیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کی موجودہ حالت برقرار رہی تو وہ اپنے پوتے کو کبھی اپنے بازوؤں میں نہ اٹھا سکیں گی اور صرف شیشے کے پار سے اسے دیکھنے پر مجبور ہوں گی۔

متعلقہ عنوان :

Browse Latest Weird News in Urdu