پاکستان کے قابل فخر اور نیک دل ماہی گیر ”کتوں کے جزیرے “ میں کھانا اور پانی پہنچاتے ہیں

Ameen Akbar امین اکبر منگل 26 جون 2018 23:52

پاکستان کے قابل فخر اور نیک دل ماہی گیر ”کتوں کے جزیرے “ میں کھانا اور پانی پہنچاتے  ہیں
بحیرہ عرب کے ایک جزیرے پر جیسے ہی ماہی گیروں کی لکڑی کی کشتی پہنچتی ہے تو درجن سے زائد نحیف کتے پانی کے چھینٹے اڑاتے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ماہی گیر کس مقصد کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔
جی ہاں،”کتوں کے جزیرے “کے  آوارہ کتوں کو علم ہے کہ ماہی گیر ان کے لیے خوراک اور پانی لاتے ہیں۔
ماہی گیروں کی اس کشتی میں  جیپ کا ایک پرانا انجن لگا ہوا ہے۔

جب کشتی کم گہرے  پانی میں  رکتی ہے تو دو ماہی گیر اس میں سے چھلانگ لگا کر نیچے اترتے ہیں۔ اور کشتی کو کوڑے کرکٹ والے ساحل کی طرف دھکیل کر اس  بنجر جزیرے پر لے آتے ہیں جہاں صرف کتوں کی آبادی موجود ہے،جو بھونک کر انہیں اپنے انداز سے خوش آمدید کہتے ہیں۔
مذکورہ جزیرہ ڈنگی یا بڈو کے نام سے مشہور ہے جو کتوں سے آباد شدہ درجنوں جزیروں میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)


حسابی اعداد و شمار سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کراچی میں آوارہ کتوں کی آبادی 35 ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔پاکستان کے گلی محلوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔ انسانی آبادی میں شاید ہی کوئی ان کی خوراک و پانی کی فراہمی کے لیے اتنا تردد کرتا ہو۔ زیادہ تر کتے خود ہی لوگوں کا بچا کھچا کھانا کوڑے سے ڈھونڈ کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔

مذکورہ جزیرے پر خوراک اور تازہ پانی کی کمی کی وجہ سے  ان کی زندگی کا انحصار کراچی کے ماہی گیروں کی  اس امداد پر  ہے جو وہ خوراک و پانی کی شکل میں دور سے آکر انہیں فراہم کرتے ہیں۔ ان کی خوراک کا حصول سمندر سے مچھلیاں نکال کر کیا جاتا ہے۔
30 سالہ ماہی گیر عبدالعزیز جو کہ جزیرے پر کتوں کے کھانے پینے کا سامان پہنچانے میں شریک ہیں، کا کہنا ہے کہ جب ہم ان کتوں کو خوراک کے انتظار میں ساحل کنارے کھڑے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی خاموش پکار ہم تک پہنچ جاتی ہے۔


اب تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ پہلی بار ان کتوں کو جزیرے پر کون لایا لیکن ماہی گیروں کا خیال ہے کہ انہیں ساحلی علاقوں کے دیہاتی مرنے سے محفوظ رکھنے کی خاطر یہاں چھوڑ گئے تھے۔ یہ ماہی گیر ان کے لیے سطح آب پہ تیرنے والی مردہ مچھلیاں یا چٹانوں کے پاس پڑے چھوٹے مردہ جانور خوراک کے طور پر لاتے ہیں۔ اگر ماہی گیر ان تک پانی پہنچانے میں تاخیر کا شکار ہو جائیں تو صاف پانی کا کوئی ذریعہ میسر نہ ہونے پر یہ کتے جزیرے کے ساحل پہ بنے چھوٹے موٹے گڑھوں میں موجود کھاراپانی پی  کر  اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں۔


ڈنگی  جزیرے  پر جب عبدالعزیز اور اس کا ساتھی محمد دادا ان بے کس کتوں کے لیے سامان خوردونوش لیے پہنچتے ہیں تو یہ کتے ان کے گرد جمع ہوکر اپنی دو پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اور دونوں پنجے اٹھا کر خوراک اور پانی لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
بڑے کتے چھوٹوں سے پہلے خوراک تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ماہی گیر رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے جانوروں کا حصہ بھی رکھتے ہیں۔
عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ”انسانیت کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہے “۔
پاکستان کے قابل فخر اور نیک دل ماہی گیر ”کتوں کے جزیرے “ میں کھانا ..

متعلقہ عنوان :

Browse Latest Weird News in Urdu