اگرڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو ا س کےلیے ایٹمی حملہ کرنا کتنا آسان ہوگا؟ انتہائی خوفناک جواب

Ameen Akbar امین اکبر منگل 8 نومبر 2016 23:30

اگرڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو ا س کےلیے ایٹمی حملہ کرنا کتنا آسان ہوگا؟ انتہائی خوفناک جواب

اگر کوئی ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ فالو کر رہا ہے تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ کتنی جلدی غصے میں آتا ہے۔جلدی غصے میں آنے والا اگر دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں میں سے ایک کا صدر ہو تو یہ بات ساری دنیا کے لوگوں کے لیے باعث تشویش ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بطور صدر ڈؤنلڈ ٹرمپ غصے میں ہو تو اس کے لیے ایٹمی حملہ کرنا کتنا آسان ہے؟ اگر امریکا کی طرف سے کوئی ایسا حملہ ہوتا ہے تو تباہی کے اثرات پوری دنیا میں ، گھر تک پیزا پہنچانے والے تیز ترین ڈیلیوری بوائے سے ، زیادہ تیزی سے پہنچیں گے۔

اگر جوابی حملہ ہو ا تو شاید کسی کو پیزا آرڈر کرنے کی توفیق بھی نہ ملے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایٹمی حملے کا حکم دیتا ہے تو کوئی نہیں ہے جو اس کے حکم کو منسوخ کرے۔ ملٹری بس ایٹمی حملے کے کوڈ چیک کرے گی اور ایٹمی میزائل فائر کر دے گی۔

(جاری ہے)


ہوسکتا ہے کہ کچھ ملٹری آفیسر ایٹمی میزائل فائر کرنے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیں مگر یہ بھی کوئی حل نہیں، ایسی صورت میں بھی حملہ نہیں ٹلے گا۔


سابق منٹ مین میزائل لانچ آفیسر اور پرنسٹن کے ریسرچ سکالر بروس جی بلیئر نے بلوم برگ کو بتایا کہ کمانڈر انچیف کے اختیارات واضح ہیں، انہیں ایٹمی ہتھیار کے استعمال پر مکمل اختیار ہے۔
بروس نے بتایا کہ ملٹری حملے سے پہلے واشنگٹن میں صدر کو ایک کانفرنس میں سول اور فوجی مشیروں سے مشاورت کرنا پڑتی ہے تاہم اگر صدر سفر میں ہوتو محفوظ مقام پر پہنچ کر جتنی دیر چاہے مشاورت کر سکتا ہے لیکن اگر دشمن نے میزائل فائر کر دیا ہو تو صدر کو صرف 30 سیکنڈ تک مشاورت کر کے جوابی حملے کا حکم دینا ہوتا ہے۔


ایٹمی حملہ کرنے کے لیے ٹرمپ کو ایک کارڈ کی ضرورت ہوگی۔ اس کارڈ کو بسکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کارڈ سےپتا چلتا ہے کہ کون کوڈ استعمال کر رہا ہے۔ جس کے بعد وہ ایک یا کئی ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ ٹرمپ نے بطور صدر حملے کا حکم دے دیا تو ایک مختصر کوڈ میزائل لانچ سائٹس پر بھیج دیا جائے گا، جہاں حکام میزائل لانچ کرنے سے پہلے اس کوڈ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی طرف سے پہلے سے فراہم کیے گئے سربمہر کوڈ سے تصدیق کریں گے۔

کوڈ ایک سا ہونے کی صورت میں میزائل فائر کر دیا جائے گا۔
بروس کا کہنا ہے کہ صدر کے حکم دینے اور بین البراعظمی میزائل کے فائر ہونے میں 5 منٹ سے بھی کم وقت لگے گا جبکہ آبدوزوں سے میزائل فائر ہونے میں 15 منٹ لگیں گے۔ ایک دفعہ میزائل فائر ہو جائیں تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں، یہ اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر ہی دم لیں گے۔
اگر ٹرمپ صدر بن گیا تو اس کے اختیار میں ہوگا کہ وہ ایک میزائل فائر کرے یا چاہے تو سارے میزائل فائر کر دے۔

ایٹمی حملوں کے ہدف امریکی فوج کے انتہائی خفیہ OPLAN دستاویز میں لکھے ہیں تاہم صدر چاہے تو ان میں رد وبدل بھی کر سکتا ہے۔
2008 میں اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے کہا تھا کہ صدر کے ایٹمی حملے کا اختیار ایسی دنیا کے لیے ضروری ہے جہاں ہم زندہ ہیں۔
اگر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کا جائزہ لیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ انہیں بچوں کے کھلونے سمجھتا ہے۔

ایک بار ڈونلڈ جے ٹرمپ نے یورپی اہداف پر ہائیڈروجن بم کے حملوں کا بھی اشارہ دیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ داعش کے خلاف بھی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا کہہ چکا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ صدر بننے کے بعد اسے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں جاننے میں چند گھنٹے لگیں گے، اسے پہلے ہی ان کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے۔

متعلقہ عنوان :

Browse Latest Weird News in Urdu