چینی بوڑھے نے اپنی تنہائی ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن۔۔۔۔

Ameen Akbar امین اکبر منگل 8 مئی 2018 23:44

چینی بوڑھے نے اپنی تنہائی ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن۔۔۔۔

مسٹر ہان زیچینگ نے جاپانی حملے، چینی عوامی جنگ، اور ثقافتی انقلاب کی یلغار کو برداشت کر لیا لیکن وہ تنہا زندگی گزارنے کا دکھ نہیں سہہ سکتے تھے۔ گزشتہ دسمبر میں 85 سالہ چینی بوڑھے شخص نے سفید کاغذ کی کچھ ردی جمع کی اور ان پر نیلی روشنائی سے لکھا "اس شخص کی تلاش جو مجھے اپنا سکے "۔
مزید لکھا تھا: "80 سالہ تنہا بوڑھا شخص، مضبوط جسامت کا حامل۔

خریداری ،کھانا پکانا اور خود کی دیکھ بھال کر سکتا ہوں۔ کوئی دائمی مرض لاحق نہیں ہے۔ میں تیانجن میں ایک سائنسی تحقیقی ادارے سے ریٹائر ہوا ہوں اور ماہانہ 6,000 یوان (1,258 ڈالر) پنشن ملتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ میں نرسنگ ہوم نہیں جانا چاہتا۔مجھے امید ہے کہ کوئی رحمدل شخص یا خاندان مجھے اپنا  لے گا، میرے بڑھاپے کا سہارا بنے گا اور جب میں مر جاؤں تو میرا جسم دفنا دے۔

(جاری ہے)

" ۔ انہوں نے ایک قریبی بس سٹاپ  پر بھی اس اشتہار کی ایک نقل چسپاں کر دی اور خود گھر پر انتظار کرنے لگے۔
مسٹر ہان انسانی صحبت کو ترسے ہوئے تھے۔اُن کی  بیوی مر چکی تھی۔ ان کے بیٹے ان  سے رابطے میں نہیں تھے۔ ان کے پڑوسی اپنے بچوں میں مگن تھے نیز ان کے اپنے بزرگ والدین موجود تھے۔
گرچہ مسٹر ہان اپنی بائیک پر  مارکیٹ جا کر خریداری کر سکتے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ کسی دن ان کی صحت جواب دے سکتی ہے۔

نیز انہیں یہ بھی علم تھا کہ وہ ان لاکھوں چینی معمر افراد میں شمار ہوتے ہیں جن کو مناسب سپورٹ میسر نہیں ۔
بہتر معیار زندگی اور ایک بچہ کی پالیسی نے چین میں آبادیاتی بحران پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہی چین میں 15 فیصد افراد 60 سال سے زائد عمر کے ہیں۔ 2040 تک یہاں ہر چار میں سے ایک شخص معمر ہوگا۔ یہ آبادیاتی بحران چین کے معاشی نظام اور خاندانی زندگی کے لیے ایک خطرے کی علامت ہے۔

کاروبار کا نظام چلانے کے لیے افراد کی قلت ہے اور ایک بچہ رکھنے والے افراد کو اپنے معمر والدین کا خیال خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔ لاکھوں بے گھر بوڑھے افراد کو تحفظ کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے ساتھ ان کے بیوی بچے موجود نہیں ہیں جو ان کا خیال رکھ سکیں۔
مسٹر ہان سالوں سے کوشش کر رہے تھے  کہ لوگ ان کی بات کو سنیں۔ انہیں تنہا مرنا پسند نہیں تھا۔


ایک خاتون نے کسی اسٹور کی کھڑکی پہ لگے مسٹر ہان کے اشتہار کی تصویر بنائی اور  تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔ انہوں نے لکھا کہ  "مجھے امید ہے کہ رحمدل لوگ مدد کر سکتے ہیں۔"
ایک ٹیلی ویژن کے عملے  اور   آنلائن ویب سائٹ  نے بھی اس بوڑھے کی کہانی شیئر کی۔ اس کے بعد مسٹر ہان کے فون  کی گھنٹی جو بجنا شروع ہوگئی۔
شروع میں مسٹر ہان اپنائے جانے کے حوالے سے پرامید تھے۔

ایک مقامی ریسٹورنٹ نے انہیں کھانا پیش کیا۔ہیبی   صوبے سے ایک صحافی نے ان سے ملنے کی ہامی بھری۔ جنوب سے ایک 20 سالہ قانون کی طالبعلم جیانگ جنگ نے ان سے دوستی قائم کرنے کے لیے ٹیلیفون کیا۔ جبکہ ایک نوجوان فوجی بھی ان سے مستقل رابطے میں رہا۔ لیکن گردونواح کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سب  ان سے فون پر تو رابطے میں رہے لیکن ان کے ساتھ ان کا خیال رکھنے کو کوئی موجود نہ تھا۔

مسٹر ہان دوبارہ تنہائی میں مرنے کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔ مسٹر ہان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان نسل اپنے بزرگ افراد کو تنہا چھوڑ کر چلی جاتی ہے لیکن حکومت نے اس سلسلے میں معمر افراد کی دیکھ بھال کا کوئی نظام متعارف نہیں کروایا۔
مسٹر ہان کا رابطہ خود کشی  کی روک تھام کرنے والے ادارے سے بھی ہوا۔ انہوں نے  کئی بار اس ادارے میں فون کیا اور اپنی تنہائی کے بارے میں بتایا۔

اس ادارے میں کام کرنے والی مس جیانگ نے آخری بار ان سے 13 اور 14 مارچ کو بات کی۔ اس کے بعد اپریل کے اوائل میں جب اس نے مسٹر ہان کو فون کیا تو ان کے بیٹے نے انہیں بتایا کہ اس کے والد 17 مارچ کو وفات پا چکے ہیں۔
مسٹر ہان کا بیٹا کینیڈا سے ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد کہتے رہے کہ اس کے دو نہیں تین بیٹے ہیں اور ان کا بہت اچھا خیال رکھتے ہیں۔


جب 17 مارچ کو مسٹر ہان بیمار ہوئے تو انہوں نے کسی نامعلوم نمبر پر فون کر کے بات کی، یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ  انہوں نے فون پر کس سے بات کی تھی، اس شخص نے مسٹر ہان کو ہسپتال بھجوا دیا۔مسٹر ہان کو تنہائی میں مرنے سے خوف آتا تھا لیکن جب ہسپتال میں ان کے دل نے کام کرنا چھوڑا تو اس وقت وہ تنہا نہیں تھے۔

Browse Latest Weird News in Urdu