Anghra Kurta Lehenga Choli Aur Pashwas Aroosi Joron Mein Maqbool - Article No. 1929

Anghra Kurta Lehenga Choli Aur Pashwas Aroosi Joron Mein Maqbool

انگرکھا،کرُتا،لہنگا، چولی اور پشواس عروسی جوڑوں میں مقبول - تحریر نمبر 1929

پاکستان میں روٹین کے اور عروسی ملبوسات عموماً فیشن ٹرینڈز کا انداز متعین کرتے ہیں کسی بھی دہائی میں آپ دلہن کو دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ

ہفتہ 1 دسمبر 2018

عنبرین فاطمہ
پاکستان میں روٹین کے اور عروسی ملبوسات عموماً فیشن ٹرینڈز کا انداز متعین کرتے ہیں کسی بھی دہائی میں آپ دلہن کو دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُس برس کے فیشن ٹرینڈز کیا رہے ہوں گے ۔پاکستان میں موسم کے کروٹ لیتے ہی فیشن ٹرینڈز بھی کروٹ لیتے ہیں ادھرموسم سرما کا آغاز ہوتے ہی شادی بیاہ کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ایسے میں دلہنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اس دن کو یادگار بنانے کے لئے ایسا عروسی جوڑا بنائیں جو یادگاری کی حیثیت رکھتا ہو ۔

ساٹھ ستر اور اسی کی دہائی دیکھیں تو اس وقت زیادہ تر عروسی جوڑے گھر میں ہی تیار کئے جاتے تھے ان کو گوٹے اور ستارے موتیوں سے سجایا جاتا تھا ،مہینوں پہلے ہی گوٹا اور ستارے لگانے کا کام شروع کر دیا جاتاتھا جب عروسی جوڑا تیار ہوتا تو دیکھنے والی ہر آنکھ دھنگ رہ جاتی تھی ۔

(جاری ہے)

جوں جوں وقت نے کروٹ لی ویسے ویسے عروسی جوڑے کو لیکر خواتین کی ترجیحات میں بھی تبدیلی آتی گئی ۔

نوے کی دہائی میں پاکستان میں فیشن ڈیزائنرز کے کام پر اعتماد کیاجانے لگا لیکن بہت کم لوگ ان کے کام سے واقفیت رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ڈیزائنرز وئیر کیا ہوتا ہے اور عروسی جوڑا ان ڈیزائنر سے بنوانا کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔جوں جوں وقت آگے بڑھتا گیا خواتین نے عروسی جوڑے گھروں میں تیار کرنے کی بجائے ریڈی میڈ پر اکتفا کرنا شروع کر دیا آج ہر دوسری شادی میں دلہن ڈیزائنر کا تیار کردہ عروسی جوڑا زیب تن کئے ہوئے دکھائی دیتی ہے ۔
پاکستان میں عروسی ملبوسات تیار کرنے والی سب سے پہلی باقاعدہ ڈیزائنر صغرٰی کاظمی تھیں جنہیں پیار سے صغریٰ خالہ کہا جاتا ہے۔ صغریٰ خالہ نے 1960 کی دہائی میں اپنے خاندان والوں کے لیے عروسی اور شادی بیاہ کے ملبوسات تیار کرنے شروع کیے اور وقت کے ساتھ ان کی نفاست سے بھرپور پہلودار کام کی طلب بڑھتی گئی اور وہ کام جو گھر کے ایک چھوٹے سے برآمدے میں علاقائی ملبوسات پہنی ہاتھ سے رنگی گڑیوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا ایک بڑا کاروبار بن گیا جسے آج پاکستان میں عروسی ملبوسات کی سب سے بڑی دکان مانا جاتا ہے۔
پاکستان میں برائیڈل وئیر میں دیپک پروانی ،کامیار روکنی ،نکی اینڈ نینا ،شیزا احسن ،آصفہ اینڈ نبیل ، فراز منان، نومی انصاری، ایچ ایس وائی اور ماریہ بی و دیگر بہترین کام کر رہے ہیں ان کے تیار کردہ عروسی جوڑے نہایت ہی پسند کئے جاتے ہیں ۔آج کل عروسی جوڑوں میں گھاگھرے ،شارٹ اور لمبی چولی ،غرارہ ،انگرکھا ،پشواز ،فش لہنگا پسند کیا جا رہا ہے اس پر گوٹے، زردوزی، مکیش،تلے،کورے، ہینڈ ایمبرائیڈری ،نقشی ،دبکی ،ریشم ،پرلز اور سٹونزکام کام دیکھنے کو ملتا ہے ۔
لال ،گولڈ ،گرین نیز ہر قسم کا رنگ فیشن میں مقبول ہے (پاکستان میں ایک عرصہ تک دلہن کے جوڑے کے لئے لال اور سبز کے علاوہ آتشی گلابی رنگ کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے )اس کے علاوہ عروسی جوڑے جن کپڑوں میں بنائے جا رہے ہیںان میں جاما وار،شیفون‘آرگینزا‘ ٹشو،ویلوٹ اور سلک کو اہمیت مل رہی ہے ۔مکیش‘گوٹے،مرر اور تھریڈورک کورے اور دبکے کی روایتی ایمبیلشمنٹ کو بے حد پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔
موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی شاہانہ انداز کے بھرے ہوئے کامدار جوڑے اہمیت اختیار کر جاتے ہیں ،ان شاہانہ ملبوسات میں مختلف قسم کے ریشمی، بروکیڈ، جامہ وار، تانچوئی اور کمخواب کے قیمتی کام دار جوڑے شامل ہیں۔ یہ جوڑے نہ صرف اس سرد موسم میں بیاہنے والی دلہنیں پہنتی ہیں بلکہ ان کا سارا خاندان اور قریبی لوگ بھی کسی سے کم نہیں لگنا چاہتے، اور یقیناً اس موقع پر دولہے کسی سے پیچھے کیوں رہیں جو اکثر اپنی شادی والے دن کے لیے شیروانی ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔
جہاں لہنگے اور غرارے و دیگر ملبوسات زیب تن کئے جا رہے ہیں وہیں دلہنیں اکثر ساڑھی کا بھی انتخاب کرتی ہیں اگرہم ماضی میں جھانک کر 70کی دہائی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت دلہنوں کا اولین انتخاب ساڑھی ہوا کرتا تھا اس دور میں ہمارے فیشن پر ہندوستان اور بنگال کا اثر نمایاں تھا۔پھر ایک وقت آیا جب ساڑھی کا رواج دم توڑتا ہوا دکھائی دینے لگا اس کی جگہ کامدار غراروں نے لے لی۔
پچاس کی دہائی میں دلہنیں کرن یا سنہری اور نقرئی جھالر سے مزین اورگینزا (ایک باریک کپڑا) دوپٹے، سادی قمیضیں اور نازک کام والے غرارے پہنتی تھیں۔ہمارے ہاں برائیڈل پر کام کرنے والے تمام فیشن ڈیزائنرز کا اپنا ایک الگ انداز ہے جیسے دیپک پروانی ،کامیار روکنی ،آصفہ نبیل ،ایچ ایس وائے و دیگر یہ ایسے ڈیزائنرز ہیں جو خاصا ہیوی قسم کا برائیڈل جوڑا بناتے ہیں ان کے جوڑوں میںپاکستان کی روایات نظر آتی ہیں ،ویسے تو ہمارے تمام ڈیزائنرز کے کام کا انداز ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
جیسے نومی انصاری کلر سکیم کے ساتھ کھیلنے کے ماہر ہیں۔رضوان بیگ کے کلرز کلاسک ہوتے ہیں جبکہ ماہین خان کے برائیڈل ڈریسز دیکھیں تو ان میں زیادہ ہیوی کام نہیں ہوتا ہے وہ ہیوی کام کی بجائے کٹس پر زیادہ زور دیتی ہیں اور شفون و سلک کا استعمال بخوبی کرنا جانتی ہیں۔اسی طرح ماریہ بی اور فراز منان ،نکی اینڈ نینا بھی عروسی جوڑوں میں اپنی پہچان رکھتی ہیں ۔
فیشن ڈیزائنر دیپک پروانی کا کہنا ہے کہ میں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ عروسی جوڑوں میں تجربات نہیں کئے جا سکتے میں اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ مینز وئیر ہو یا دلہن کا جوڑا ہر چیز میں تجربات سے کام لیا جا سکتا ہے ہمارے ہاں اب عام عوام بھی فیشن کے معاملے میں خاصی سمجھدار ہو چکی ہے لڑکیاں جب برائیڈیل جوڑا آڈر کرنے آتی ہیں تو باقاعدہ طور پر اپنی اِن پُٹ دے رہی ہوتی ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی مثبت چیز ہے ۔اس برس ہمارے جتنے بھی برائیڈل ویکس ہوئے ہیں ان میں مختلف ڈیزائنرز کی جانب سے عروسی کلیکشنز متعارف کروائی گئیں جو کہ بہت ہی اچھی تھیں امید ہے کہ اگلے برس بھی ہمیں برائیڈل میں تجربات دیکھنے کو ملیں گے ۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Anghra Kurta Lehenga Choli Aur Pashwas Aroosi Joron Mein Maqbool" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.