Aroosi Malbosat - Article No. 3020

Aroosi Malbosat

عروسی ملبوسات - تحریر نمبر 3020

تاروں کی اُترتی ہے ڈولی اور چاندنی دلہن ہوتی ہے

بدھ 30 نومبر 2022

راحیلہ مغل
دنیا بھر میں فیشن کلینڈر سال میں دو مختلف قسم لے کر آتا ہے۔ایک بہار و گرما کا موسم جو بہار سے شروع ہو کر گرمیوں تک چلتا ہے اور دوسرا خزاں اور سرما کا جس کا آغاز خزاں کے مہینے سے ہوتا ہوا سردیوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔پاکستان میں فیشن کے یہ دو موسم اس سال کے عروسی ملبوسات کا انداز متعین کرتے ہیں۔
یہاں آٹھ ماہ کی طویل گرمیوں میں زیادہ تر ملبوسات سوتی کپڑے سے تیار کیے جاتے ہیں جو جھلتی دھوپ اور حبس میں ہوا اور ٹھنڈک کا احساس دیتے ہیں۔جبکہ سال کے بقیہ چار مہینوں میں جو خزاں کے خنک موسم اور سردیوں پر مشتمل ہوتے ہیں،شاہانہ انداز کے بھرے ہوئے کامدار جوڑے اہمیت حاصل کر جاتے ہیں۔ان شاہانہ ملبوسات میں مختلف قسم کے ریشمی،بروکیڈ،جامہ وار،تانچوئی اور کمخواب کے قیمتی کام دار جوڑے شامل ہیں۔

(جاری ہے)


یہ جوڑے نہ صرف اس سرد موسم میں بیاہنے والی دلہنیں پہنتی ہیں بلکہ ان کا سارا خاندان اور قریبی لوگ بھی کسی سے کم نہیں لگنا چاہتے،اور یقینا اس موقع پر دولہے کسی سے پیچھے کیوں رہیں جو اکثر اپنی شادی والے دن کے لئے شیروانی ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔پاکستان میں عروسی ملبوسات کے بتدریج تبدیل ہوتے فیشن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کی شادیوں کی تقریبات کی ترتیب کو سمجھا جائے۔
ویسے تو ہمارے یہاں شادی کی تقریبات کی تعداد کی کوئی حد مقرر نہیں لیکن روایتی طور پر ایک شادی تین دن پر مشتمل ہوتی ہیں جن میں مایوں یا مہندی،بارات (جو سب سے اہم دن ہوتا ہے) اور ولیمہ جو کہ دولہا کے گھر والوں کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ہماری یہاں دلہنیں شروع سے ہی اپنے عروسی ملبوسات کے لئے میکسی،ساڑھی یا غرارے اور اس کی مختلف اشکال میں سے انتخاب کرتی رہی ہیں جن میں بارات والے دن کے لئے غرارہ اور لہنگا،ولیمے والے دن کے لئے ساڑھی پسند کی جاتی تھی یا ہے۔
دراصل ساڑھی 1971ء تک ہماری دلہنوں کا مقبول انتخاب تھا کیونکہ اس وقت تک ہمارے فیشن پر ہندوستان اور بنگال کا اثر نمایاں تھا۔
لیکن آج کا برائیڈل ویئر ماضی کے مقابلے میں خاصی جدت اختیار کر چکا ہے۔ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔آج جو فیشن ہے یقینا دس برس بعد اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر بیس سال کے بعد فیشن خود کو دہراتا ہے۔
جہاں تک ماضی کے عروسی ملبوسات تو ستر کی دہائی میں روایتی ملبوسات پہنے جاتے تھے اور ایک ہی رنگ یعنی سرخ ہوتا تھا اور اس پر نقشی گوٹے اور ستارے کا کام ہوتا تھا۔اسی کی دہائی میں ماڈرن ازم پاکستان میں متعارف ہونے لگا تھا تو اس وقت فیشن میں تھوڑی تبدیلی آئی اور عروسی جوڑے پر مختلف رنگوں کی پٹیاں سجائی جانے لگیں۔نقشہ،دبکہ،ریشم اور شیشے کا کام شروع ہوا جو بے حد مقبول ہوا۔
اگلی دہائی میں خواتین فیشن کے معاملے میں زیادہ باشعور ہو گئی تھیں۔اس وقت دبکہ،ستارہ،وسلی (باریک تار کا کام) کلر کنٹراس اور مختلف قسم کے زیورات کے موتیوں کی مدد سے جوڑے تیار کرنا شروع کیے گئے۔اسی زمانے میں نگینہ جسے اسٹون کہتے ہیں وہ بھی عروسی ملبوسات میں استعمال ہونے لگا۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے اب تک دلہن کے لباس میں بہت جدت آ گئی ہے۔
آج موتی،دھاگہ،دبکہ،کت دانہ،ستارا اور اسٹونز اور دیگر چیزوں کی مدد سے دلہن کا عروسی جوڑا تیار کیا جاتا ہے۔آج کل دو طرح کے عروسی ملبوسات بہت مقبول ہیں،ایک روایتی اور دوسرا گاونز اور میکسی وغیرہ۔روایتی عروسی لباس عموماً بارات والے دن جب کہ میکسی اور گاون ولیمے پہ زیب تن کیا جاتا ہے۔آج سے تین سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی،دبکہ اور بڑے موتیوں جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔
یہی کام آج کل پھر سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے تو پہلے وقتوں میں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیار ہوتا تھا،اب تو بارات کے دن سرخ،فیروزی،سبزی مائل،گلابی،نیلا اور دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں۔مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیضوں کا استعمال لہنگوں شراروں کے ساتھ بلاشبہ ایک نیا تجربہ ہے۔
لہنگے اور غراروں کے ساتھ لمبے گاون اور اس پر خوبصورت کام بھی خواتین میں بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔رنگ کوئی بھی ہو عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں لیکن لڑکیاں اس موقع پر سرخ رنگ کو آج بھی دیگر رنگوں پر ترجیح دیتی ہیں۔سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوبصورتی کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔لیکن لباس کی زمین لال رنگ ہی کی ہونی چاہیے کیونکہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے تو اسے ایسے ہی رنگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو خوشی کا احساس بخشتے ہوں۔
عروسی لباس دلہن کے لئے آنے والی زندگی کا رنگ لیے ہوتا ہے۔ہمارے خطے کی مخصوص ثقافت میں دلہن کے لئے سرخ لباس مستقبل کی خوشیوں کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔لیکن اب خواتین دیگر رنگوں کو بھی اپنا رہی ہیں۔خاص طور پر پیازی اور انابی رنگ۔کچھ خواتین ہلکے کام والے ملبوسات پر نگاہ ہی نہیں ڈالتیں۔
ایک دور تھا،جب شادی بیاہ کی تقریبات بہت دھوم دھڑکے سے نہیں،بے حد سادگی سے انجام پاتی تھیں،لیکن اب تو ان تقریبات پر باقاعدہ کسی فلم شوٹنگ کا گماں ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ میرج ہالز میں عموماً ایک ہفتہ قبل دولہا،دلہن اور چند قریبی رشتے داروں کو مدعو کرکے ریہرسل کروائی جاتی ہے،تاکہ عین شادی کے روز کوئی پریشانی نہ اُٹھانی پڑے۔پھر وقت کے ساتھ عروسی پہناوؤں کے روایتی انداز بھی کچھ یوں بدلے کہ اب تو دلہن کے لباس فاخرہ اور آرائش پر نظر ہی نہیں ٹکتی۔صرف آرائش و زیبائش ہی کا خرچ کئی لاکھ کا سودا ٹھہرتا ہے۔
بہرحال ان دنوں شادی بیاہ کا سیزن عروج پر ہے،تو ہم نے بھی آج کچھ حسین و دلکش اور جدت و ندرت سے بھرپور جھلملاتے عروسی ملبوسات کا انتخاب کیا ہے۔بھاری کام دار سُرخ شرارے اور کنٹراسٹ میں فون رنگ چولی کا انداز بہت شاہانہ لگتا ہے اس کے ساتھ کندن کے زیورات کا انتخاب ہو تو کیا بات ہے۔اسی طرح بلڈ ریڈ رنگ شرارے کے ساتھ فل ایمبرائڈرڈ قدرے لمبی قمیض کا جلوہ نظر خیرہ کرتا ہے،تو اسی مناسبت سے زیورات کا انتخاب کیا جائے تو کیا کہنے!!۔اسی طرح فون رنگ شرارے اور گھیردار فراک کی جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے،خاص طور پر لڑی ہار،ماتھا پٹی،بُندے اور پنجانگلہ لباس کی شان کچھ اور ہی بڑھا دیتا ہے،جب کہ سُرمئی رنگ کے کام دار پیراہن پر میچنگ جیولری کی تو جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Aroosi Malbosat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.