Badalte Zamane K Sath Badalta Fashion - Article No. 2131

Badalte Zamane K Sath Badalta Fashion

بدلتے زمانے کے ساتھ بدلتا فیشن - تحریر نمبر 2131

ہر عورت کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ اچھی نظر آئے ویسے تو مرد حضرات بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں مگر عورتیں ابھی بھی مردوں سے بازی لے گئی ہیں

منگل 30 جولائی 2019

قرة العین فاروق
ہر عورت کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ اچھی نظر آئے ویسے تو مرد حضرات بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں مگر عورتیں ابھی بھی مردوں سے بازی لے گئی ہیں بناؤ سنگھار کرنا اپنی اسکن کا خیال رکھنا،اچھے کپڑے پہننا کس عورت کو پسند نہیں ہوتا،قلوپطرہ سے لے کر آج کل کے دور کی عورتیں اپنابے حد خیال رکھتی ہیں ۔
زمانہ چاہے کوئی بھی ہونیا یا پرانا ہر زمانے کے ساتھ کپڑوں کے نئے اور جدید کٹس فیشن میں آتے رہتے ہیں کبھی گھیروالی شلواریں،چوڑی دار پاجامے،غرارہ ،شرارہ،اسکرٹس ،ساڑھیاں ،پٹیالہ شلوار،کم اور زیادہ گھیروالے ٹراؤزر،لمبی قمیض،زپ لگی قمیض،کھلی فراکس ،آگے کچھ پرنٹ تو پیچھے قمیض میں الگ کپڑا وغیرہ وغیرہ ،ہر کوئی زمانے کے حساب سے ویسے ہی کپڑے بنواتا ہے تاکہ وہ زمانے کے ساتھ چلتا ہوا لگے لوگ اسے اولڈفیشن کپڑے وغیرہ وغیرہ کے ناموں سے نہ بلائیں۔

(جاری ہے)


ایک زمانہ تھا کہ جب عورتیں اپنے کپڑوں پر طرح طرح کی کڑھائیاں کرواتیں پہلے بازاروں میں چکر لگا کر اچھا کپڑا ڈھونڈنا پھر زمانہ تھوڑا بدلا بازاروں سے عورتوں نے کڑھائی کئے ہوئے کپڑے خریدنے شروع کئے بس دکاندار سے پیسوں پر لمبی بحث ہوتی اور درزی کو کپڑے سلنے دے دیئے نہ الگ سے کپڑا خریدنے کا جھنجھٹ نہ کڑھائی کروانے والے کے پاس جا کر گھنٹوں کھڑے ہونے کا مسئلہ ،پھر چندبوتیک کھلنا شروع ہوئے آہستہ آہستہ عورتوں نے بوتیک جانا شروع کیا خاص طور پر وہ عورتیں جو الگ سے کپڑے پہننے کی شوقین ہوتیں اور اتنے پیسے والی بھی کہ دکاندار سے بحث کئے بغیر کپڑے خرید لیتیں کیونکہ بوتیک پر جو کپڑا جتنے کا ہے اتنے میں ہی ملتا اگر کبھی سال میں سیل لگتی بھی تو وہی چند خواتین سیل پر سے کپڑے خریدتی نظر آتیں نہ ان بوتیک پر زیادہ رش ہوتا نہ دھکم پیل ہوتی پھر آہستہ آہستہ کچھ لوگوں نے اپنے نام کی برانڈ متعارف کروائیں اور آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے بلکہ روز بروز نئے نئے برانڈ سامنے آرہے ہیں۔

اکثر لوگ اچھی سلائی اور کڑھائی کرنے والے پرانے درزیوں کو اپنے پاس کام کرنے کیلئے رکھ لیتے ہیں اور ان سے اپنی پسند کے مطابق کپڑے سلواتے ہیں۔ماہر کاری گروں کے بنائے ہوئے یہ کپڑے عموماً مہنگے ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں اور جب ان کپڑوں پر سیل لگتی ہے تو بڑے گھرانوں کی عورتوں کے ساتھ ساتھ عام گھروں کی عورتیں بھی ان دکانوں کارخ کرتی ہیں اپنی حسرت کہہ لیں یا کچھ اور یعنی ان کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی ان برانڈز کے کپڑے پہنیں وہ ان خواہشات کو سیل سے کپڑے خرید کرپورا کرتیں۔

سیل پر جاکے کپڑے خریدنے میں کوئی برائی نہیں مگر وہاں جاکے اس طرح کے کپڑوں کے اوپر ٹوٹ پڑنااور ایک دوسرے سے کپڑے چھینتے دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسے چیل اپنے شکار پر جھپٹ رہی ہو اور کہیں کہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے مفت میں کپڑے مل رہے ہوں اور جب آس پاس کھڑے لوگ اپنے اپنے موبائل فون سے یہ وڈیوز بنا کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں تو آنکھوں کو اس منظر کو دیکھ کر یقین نہیں آتا اور دیکھنے والے پریشان ہو جاتے ہیں کہ صرف سستے کپڑے کی خاطر یہ لوگ آپس میں اس طرح لڑرہے ہیں۔
پھر کچھ لوگوں نے آج کل ایک نیا بزنس شروع کیا ہے برانڈڈکپڑوں کی کاپی پرنٹ کا یعنی بڑے بڑے برانڈ کے کپڑوں کی کاپی آج کل دکانوں کے علاوہ گھروں میں رہنے والی عام گھریلو عورتیں بیچتی نظر آتی ہیں۔
پہلے دکانوں پر صرف دھاگے،اون بٹن،شیشے وغیرہ ملتے مگر اب کئی سالوں سے کام کئے ہوئے گلے،وہ بھی طرح طرح کی علاقائی کڑھائی والے کام کئے ہوئے یا مشینی کڑھائی کے مل جاتے پھر آہستہ آہستہ لیس نے اس کی جگہ لی،چکن کی کڑھائی والی لیس توتلے،مخملی کے اوپر کام کئے ہوئے لیسیں،شیشے کے اوپر کام ،اور بھی طرح طرح کی کڑھائیاں ایک لیس میں سما جاتیں اور عورتیں مناسب داموں میں یہ لیسیں لے لیتیں اور اپنے سادے سے سوٹ پرلگاتیں اور طرح طرح کے اسٹائل بناتیں ساتھ لوگوں سے داد بھی خوب وصول کرتیں مگر اب ان چھوٹی چھوٹی لیسوں کو بھی پر لگ گئے ہیں۔
اب یہ ہی لیسیں مہنگی بکنے لگی ہیں ۔پہلے دوتین لیسوں سے جو ڈیزائن بنائے جاتے اب ایک لیس سے ہی کام چلایا جاتا ہے ،ساتھ بٹن ملتے اب توبٹن کی بھی اتنی اقسام آگئیں ہیں کہ عورتیں پریشان ہو جاتی ہیں کہ کونسا بٹن خریدیں اور کونسا نہیں،ایک چھوٹے سے بٹن پر بھی اتنا کام ہوتا ہے کہ اگر عورتیں صرف چند بٹن ہی اسٹائل سے کپڑوں پر لگالیں ساتھ ٹسلز کو بھی شامل کردیں تو ایک اچھا خاصا سوٹ بن سکتا ہے۔
ٹراؤزر کے پائنچوں پر بھی بٹن لگائے جاتے ہیں جو کہ ٹراؤزر کو ایک اسٹائلش لک دیتے ہیں۔
لہراتے بل کھاتے رنگ برنگے دوپٹے ہمیشہ سے عورتوں کی شان رہے ہیں۔ان میں بھی وقت کے ساتھ جدت آتی رہی ہے کبھی یہ تین گزکے اوڑھے جاتے تھے تو کبھی بالکل چھوٹے اسٹول کی طرح،ایک دور تھا جب عورتیں گھروں میں ہی دوپٹے رنگا کر تیں کبھی ایک رنگ میں تو کبھی مختلف رنگوں میں ،کچھ عورتیں گھروں میں دھاگے باندھ کریا تو خودیہ دوپٹے رنگتیں یا مرد حضرات یہ دوپٹے ،دوپٹے رنگنے والوں کو جا کر دیتے ،ہرے،نیلے،پیلے،لال وغیرہ رنگوں میں یہ رنگتے اور جب یہ دھاگے کھولے جاتے تو یہ رنگ برنگے خوبصورت چنری کے دوپٹے عورتیں اپنے کپڑوں کے ساتھ میچ کرکے پہنتیں تو یہ چنری کے دوپٹے کپڑوں کو اور بھی حسین بنا دیتے۔

پھر آہستہ آہستہ بلاک پرنٹ کا فیشن آیا جو ابھی تک چل رہا ہے جب اس کا فیشن بہت زیادہ چلا تو جگہ جگہ لڑکیوں کے لئے کھلے سینٹرز میں یہ سکھانا شروع ہوا لڑکیاں بڑے شوق سے بلاک پرنٹنگ سیکھنے جاتیں اور ساتھ ساتھ سلک پینٹنگ ،اسکرین پرنٹنگ وغیرہ وغیرہ کی پینٹنگ ان سینٹرز سے سیکھ کر گھروں میں اپنے لئے کپڑے اور دوپٹے تیار کرتیں اور جب یہ اپنے ہاتھ سے تیار کئے ہوئے سوٹ پہنتیں تو اپنے اردگرد کے لوگوں سے خوب دادوصول کرتیں ۔
آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور لڑکیاں بڑے ذوق وشوق سے ان سینٹرز کا رخ کرتی ہیں۔
ان سینٹرز کے علاوہ اب تو بہت بڑے بڑے ٹیکسٹائل کا لج ویونیورسٹیز بھی کھل گئی ہیں ان ٹیکسٹائل کالجز میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکے بھی یہ کام سیکھ رہے ہیں۔ان کا لجز میں صرف پینٹنگ ہی نہیں سکھائی جاتی بلکہ ہر طرح کا آرٹ ورک سکھایا جاتا ہے۔آج کل اس فیلڈمیں لڑکوں اور لڑکیوں کا رجحان بڑھ گیا ہے اور یہی بچے ان کالجز ویونیورسٹیزسے سیکھ کر بڑے بڑے ڈیزائنربن رہے ہیں۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Badalte Zamane K Sath Badalta Fashion" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.