Balochi Malbosat - Article No. 2873

Balochi Malbosat

بلوچی ملبوسات - تحریر نمبر 2873

خوبصورت ثقافت کا بھرپور اظہار

منگل 10 مئی 2022

راحیلہ مغل
پوری دنیا کے فیشن میں وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں تبدیلی آ گئی ہے تاہم اس کے باوجود بلوچ خواتین میں ان کے روایتی ملبوسات آج بھی بہت مقبول ہیں بلوچی کپڑوں پہ کشیدہ کاری صدیوں سے چلی آ رہی ہے بلوچ خواتین آج بھی شیشے کی کڑھائی والے ملبوسات زیب تن کرتی ہیں۔بلوچستان کی اس بے مثال ثقافت نے دنیا کو خیرہ کرکے رکھ دیا ہے بلوچ قوم کی خواتین میں کئی دہائیوں سے اسی لباس کو زیب تن کرنے کی روایت برقرار ہے۔
ان ملبوسات میں تلہ،اون اور ریشم کے دھاگوں کی کڑھائی کی جاتی ہے،بلوچی ملبوسات کی تیاری میں موسم کے حساب سے کپڑے کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں لان،ریشم،سوتی،شیفون اور جارجٹ کے سادے اور پرنٹ والے کپڑے پر کڑھائی کی جاتی ہے بلوچستان کے روایتی ملبوسات سے بلوچ ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

حتی کہ کچھ کچھ مرد حضرات بھی اپنی قمیض پہ کڑھائی کرواتے ہیں کچھ مرد حضرات تو بنین کی بھی کڑھائی کرواتے ہیں جو دیکھنے میں قابل دید ہے۔

بلوچی کڑھائی کو عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔ایک برطانوی گلوکار اور لکھاری فلو موریسی کے ساتھ ساتھ کچھ بولی ووڈ اداکاراؤں کی بھی بلوچی لباس میں تصاویر موجود ہیں۔بلوچ خواتین فراک کی طرح کے جس روایتی لباس کو پہنتی ہیں اسے پشک کہا جاتا ہے۔پشک پر ہونے والی کڑھائی کمر سے دامن کے کنارے تک جانے والی جیبوں اور آستینوں پر کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ پشک کے ساتھ پہنی جانے والی شلوار کے پائنچوں پر بھی کڑھائی ہوتی ہے۔یہ کڑھائی عموماً پشک کے رنگ یا اس سے مختلف رنگ سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات رنگ برنگے دھاگوں کے ساتھ شیشے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔پشک عام طور سے ماؤں کے بعد بیٹیوں کو دی جاتی ہے کیونکہ اس پر ہونے والی ہاتھ کی پیچیدہ کڑھائی خراب نہیں ہوتی۔اگر پشک کا کپڑا خراب بھی ہو جائے تو اس کڑھائی کو کاٹ کر کسی اور کپڑے پر بھی سیا جا سکتا ہے۔
بلوچی کڑھائی مکمل طور پر ہاتھ سے کی جاتی ہے اور یہ بہت ہی باریک اور پیچیدہ ڈیزائن پر مشتمل ہوتی ہے۔اس کڑھائی میں بنائے جانے والے نقش و نگار مہر گڑھ کی تہذیب کے آثار سے ملنے والے ظروف تقریباً 11 ہزار سال پرانے تھے اور یہ بولان پاس کے قریب کچھی کے علاقے میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئے تھے۔
بلوچستان کی خواتین صدیوں سے پشک (کڑھائی شدہ بلوچی لباس) نامی ایک قمیض پہنتی آ رہی ہیں جس پر کشیدہ کاری جگہ جگہ پہ کی ہوئی ہوتی ہے۔
اور کسی کو نظر نہیں آتا کہ دراصل یہ جیب ہے۔یہ کڑھائی کا حصہ نظر آتی ہے اور اس کمال کو ہی بلوچی عورتوں کی ہنر مندی کی انفادیت کہا جاتا ہے۔یہ روایتی قمیض ہے جس کی جیب اتنی لمبی ہوتی ہے کہ دس کلو چینی،آٹا آرام سے اس میں ڈالا جا سکتا ہے۔یہ کشیدہ کاری دنیا میں سب سے مہنگی اور سب سے زیادہ وقت طلب ہے۔بلوچستان میں تو اس کی قیمت دس ہزار ہے لیکن دوسرے شہروں میں اس کی مالیت لاکھوں روپے ہوتی ہے۔

بلوچ خواتین ہاتھ کی کڑھائی کے ملبوسات گھر پر ہی تیار کرکے پہنتی ہیں مگر ہاتھ کی کڑھائی ایک بہت وقت طلب کام ہوتا ہے جس کی تیاری میں تین سے چار مہینے تک لگ جاتے ہیں اس لئے پورے ملک کے بڑے شہروں کی خواتین مشین کی کڑھائی کے ڈیزائن کے بلوچی کپڑوں کے سیمپل پسند کرکے آرڈر دیتی ہیں۔جو خاصی سستی بھی ہوتی ہے اور کم وقت میں تیار کی جاتی ہے جو چند ماہ میں اپنی اصل شکل اور ڈیزائن کھو دیتی ہے۔
حتی کہ پورے ملک میں بلوچی لباس بلوچ خواتین سے آرڈر پر تیار کروایا جاتا ہے جن پہ بلوچ خواتین اپنی محنت کی رقم دس سے بیس ہزار تک لیتی ہے جبکہ کچھ خواتین کڑھائی پر آنے والے ٹائم اور ڈیزائن دیکھ کر رقم لیتی ہے جبکہ سادہ سے سادہ کڑھائی بھی سات ہزار روپے سے کم نہیں ہوتی۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ بلوچی لباس میں فراک نما بند چاکوں والی قمیض پر شیشے کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے کو ترجیح دی ہے جب کہ شوقین خواتین نے بلوچ قمیض کے آگے دامن پر ایک بڑی سی جیب اور اس پر اسی طرح کی کڑھائی ہوتی ہے جو سوٹ کے دوپٹے کے پلوؤں اور شلوار کے پائنچے پر بھی یہی کڑھائی کی جاتی ہے۔
حال ہی میں بلوچی کپڑے دنیا میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں جو ہم سب کیلئے قابل فخر بات ہے بلوچستان سے بھی ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات پوری دنیا میں فروخت کے لئے بھیجے جاتے ہیں جو کہ خاصے مہنگے ہوتے ہیں،کیونکہ ہاتھ سے کی گئی کڑھائی میں محنت زیادہ ہوتی ہے اور اس کی تیاری میں کافی وقت درکار ہوتا ہے اگر آپ میں سے کسی کو بھی بلوچی کپڑے پہننے کا شوق ہے تو بلوچستان کے کسی بھی گاؤں کا رُخ کریں بلوچی کڑھائی شدہ کپڑے مل جائیں گے۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Balochi Malbosat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.