Chicken Kari - Aik Nawabi Art - Article No. 2757

Chicken Kari - Aik Nawabi Art

چکن کاری ․․․ ایک نوابی آرٹ - تحریر نمبر 2757

خواص سے عوام تک مقبول کڑھائی

جمعہ 10 دسمبر 2021

دنیا بھر میں 90 کی دہائی کا فیشن فروغ پا چکا ہے۔مغربی دنیا میں ڈیمز کا مٹیریل پسند کیا جاتا رہا ہے اس سال بھی کھلی اور تنگ جینز فیشن میں نظر آ رہی ہے۔پرنٹڈ اور چیک ڈیزائن والی Pants مقبول ہیں۔جوتوں میں Sneakers پسند کئے جا رہے ہیں ہماری خواتین میں سوتی ملے ریشم کے اسکارف اور حجاب پسند کئے جاتے ہیں۔اسی طرح سوتی لباس ہمارے موسمی،ثقافت اور سہولت کی غمازی کرتا ہے۔
گرم موسم میں چکن کے روایتی ملبوسات کا انتخاب کرنے والی خواتین بھی کچھ کم تعداد میں نہیں ہیں۔پاکستان اور پڑوسی ملک میں یہ مخصوص بنت کاری بہت پسند کی جاتی ہے۔
چکن کاری کا تاریخی حوالہ
دنیا ایک گلوبل ولیج ہے یہ بات آج کل بہت اعتماد سے کہی جاتی ہے اور اپنی بات کو ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور تعلقات کے سکڑنے سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کئی خطوں کی ثقافت دوسرے علاقوں میں منتقل ہو کر اپنا ایک منفرد رجحان تخلیق کر لیا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

چکن کاری ایران کے شہر شیراز سے بھارت میں آئی اور اہل ایران سفید یا دودھیا رنگوں کے کپڑوں پر اس ہم رنگ سے کڑھائی کیا کرتے تھے پھر مغل درباروں میں اسے شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے پسند کیا اور اپنی سرپرستی میں کئی کاریگروں کو یہ سکھایا۔
چکن کاری کو چکن کاری کہا بھی اسی لئے جاتا ہے کہ یہ شیڈو ورک کی تکنیک ہم رنگ دھاگوں اور ہم رنگ کپڑے پر آزمائی جاتی ہے۔
مشینوں کی صنعتوں کے فروغ کے بعد اب یہ نفیس کڑھائی قدرے زیادہ مہارت سے کی جاتی ہے۔یہ روایت اول ململ کے کپڑوں پر دکھائی دی اور آج کل کئی قسموں کے کپڑوں مثلاً ریشم،اون،شیفون،کریپ اور بنارسی ملبوسات پر بھی آزمائی جانے لگی ہے اور عوام اسے پسند کرنے لگی ہے۔
اتر پردیش کے شہر لکھنئو کے کاریگروں نے اس کڑھائی کو یہاں آباد مسلم کمیونٹی میں اسے زیادہ فروغ دیا۔
کہتے ہیں کہ یہ فن مغل فن تعمیرات سے بھی متاثر ہوا اور خواتین نے روایت کی ترقی و ترویج میں اپنا کردار نبھایا۔شروع شروع میں کرتوں کے بارڈر،آستینوں اور گلوں پر چکن کاری کی بیلیں متعارف کرائی گئیں۔آج کل بھی کڑھائی کی یہ شکل نظر آتی ہے۔رفتہ رفتہ دہلی اور ممبئی کے کاریگروں نے بھی اسے اپنایا اور اب جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اس کڑھائی سے بنے لباس پہنتے ہیں۔

چکن کاری کی کئی اقسام ہیں اور اس کے ٹانکوں میں جانچ کلی،ماکرہ،کوری،سازی،کارن،بلبل،کاپ کپی،مدرازی،چناپٹی،تاج محل،کیل کنگن اور سدھول معروف ہیں۔
آپ نے کاریگروں سے تچپی،بخیدا Semi Formal،ہول،ریخت،بنارسی،ختاؤ،پھندا،جالی،تریائی اور درز داری جیسے لفظ سنے ہوں گے یہ سب چکن کاری میں استعمال ہونے والے ٹانکوں کے نام ہیں۔اتنی زیادہ اقسام کی چکن کاری میں بہترین کونسی ہو سکتی ہے؟یہ سوال ضرور ذہن میں اُٹھتا ہے اور اہل فن نے آٹھ اقسام متعارف کرائی ہیں۔
ان میں نور کاری،انکاری،لام،نذرانہ چکن،شلپی گپتا،انجل باندھاری مشہور ہیں۔
چکن کاری اور شیڈو ورک میں بہت معمولی سا فرق پایا جاتا ہے۔چکن کاری کے موئفر میں پھولوں کی اشکال بنائی جاتی ہیں۔شہنشاہوں کے درباروں سے عام آدمی تک اس فن کے پھیلاؤ میں پاکستانی دستکاروں کا بھی بڑا حصہ ہے۔گوکہ اب ہاتھوں سے بنائی جانے والی چکن کاری نے مشینوں کی ثقافت اختیار کر لی ہے اور یہ ملبوسات قدرے مہنگے دستیاب ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی مقبولیت اور ورائٹی میں کمی نہیں آئی خاص کر تقریبات میں Formal اور Semi Formal کُرتے قمیضیں،ٹراؤزر اور دوپٹوں کے وسیع تر انتخاب کی سہولت میسر ہے۔
پاکستان میں’سایہ‘ال ذوہیب اور زینب چھوٹانی کے علاوہ’دھمک‘نے پیسٹل کلرز اور گہرے دونوں رنگوں میں اس نفیس کڑھائی سے بنے ملبوسات متعارف کرائے اور یوں کئی ہزار برس پرانا فن ایک بار پھر ذوق و شوق سے اختیار کیا جانے لگا۔
چکن کاری کی سفارت
پڑوسی ملک کے نامور ہدایت کار مظفر علی نے 1986ء میں ایک فلم ’انجمن‘ کے نام سے بنائی تھی جس کے مرکزی اداکاروں میں شبانہ اعظمی اور فاروق شیخ (مرحوم) شامل تھے۔
یہ فلم خالصتاً لکھنئو کے ان کاریگروں کے فن اور عروج و زوال سے متعلق مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ فاروق شیخ نے ایک ملاقات میں جب وہ کراچی آئے تھے تو خود کو لکھنوی چکن کاری کا سفیر کہہ کر اس فن کی سرپرستی کی تھی وہ جتنے روز یہاں مقیم رہے۔چکن کاری سے بنے کُرتے ہی پہنتے نظر آئے۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Chicken Kari - Aik Nawabi Art" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.