Chunri Ke Pehnawe - Article No. 2971

Chunri Ke Pehnawe

چنری کے پہناوے - تحریر نمبر 2971

تھر اور سرائیکی خواتین کی اولین ترجیح

جمعرات 15 ستمبر 2022

غلام زہرا
لباس کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت کا عکاس ہوتا ہے۔جو کسی علاقے یا سماج کے رہن سہن اور وہاں کے معاشرتی ماحول کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ہر علاقے کے اپنے اپنے مخصوص ملبوسات ہیں جو کہ اس ملک یا علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنائے جاتے ہیں۔یہ مذہبی اور جغرافیائی ماحول کی ضرورت ہے۔
سماج کے ضوابط اور قانون کی بنیاد ہمیشہ اس جگہ کے لوگوں کے مذہب و اعتقاد پر استوار ہوتی ہے۔
جن ممالک میں سال کا بیشتر حصہ سردی پڑتی ہے۔وہاں کے لوگوں کی لباس کی ضرورت ان ملکوں کے باشندوں سے بالکل مختلف بلکہ برعکس ہوتی ہیں۔جہاں سال میں زیادہ موسم گرم اور خشک رہتا ہے۔مرطوب اور بارانی علاقے کے لوگوں کا لباس خشک علاقوں کے رہنے والوں سے نہایت مختلف ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

رنگین دیدہ زیب اور خوبصورت چیزیں کس شخص کو مرعوب نہیں ہوتیں۔ہر شخص کی نگاہ غیر دلکش اشیاء کو رد کرکے خوشنما اور دلکش چیزوں کی طرف راغب ہوتی ہے چیزوں کو اس طرح توجہ کا مرکز بنانے کا انحصار ان کے رنگوں ڈیزائن اور فنکاری کی نفاست پر مشتمل ہو۔


رنگوں ڈیزائن اور فنکاری کی ایک عمدہ مثال چنری ملبوسات بھی ہیں۔چنری ڈریس کو وطن عزیز پاکستان میں بہت پذیرائی ملتی ہے۔اور کیوں نہ ملے۔چنری ڈریس ہے ہی بہت دلکش۔
گلے میں کنٹلا،پورے بازوؤں اور پیروں میں مخصوص قسم کی سفید کڑیاں پہنے،گہرے رنگ کا گھاگھرا اور چولی زیب تن کیے ہوئے،اپنے بائیں پلو کو دانتوں میں دبائے ادھ کھلا چہرہ اور سر پر کئی مٹکے اُٹھائے صحرائے تھر کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلتی خواتین جن کے چہرے پر مسرت،خوشحالی اور رونق کے آثار نہایت مدھم ہوں۔
مگر یہاں کی خواتین کے پہناوے میں شوخ رنگ لباس شامل ہیں۔تھر کی دیہی خواتین کے پہناوے تھر کی شہری علاقوں کی خواتین سے الگ اور منفرد ہیں۔خوبصورت روایتی لباس اور جیولری پسماندہ علاقے کی ان خواتین کی خاص پہچان ہے۔تن پر گھاگھرا چولی،گلے میں سونے اور موتیوں بھرے ہار اور کلائیوں میں چاندی کی چوڑیاں۔یہ ہیں تھر کی خواتین کا بناؤ سنگھار۔

یہ خواتین جہاں محنت کش ہونے میں اپنی مثال آپ ہیں،وہیں سج دھج میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔گھاگھرا چولی،ان کا روایتی لباس ہے تو فل بازوؤں تک سفید چاندی کی چوڑیاں خواتین کی خاص پہچان ہیں،جنہیں مقامی زبان میں کڑیاں بھی کہا جاتا ہے۔تھر کے دیہی علاقے کی خواتین کے مطابق یہ زیور ہمارا خاندانی زیور ہوتا ہے۔
جو ہمیں ہمارے ماں باپ کے گھر سے ملتے ہیں اور یہ ہمارا سنگھار ہے جسے ہم بہت شوق سے پہنتی ہیں۔
یہ زیورات تھر کی خواتین کو والدین کے گھر سے جہیز میں ملتے ہیں اس لئے یہ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔
تھرپارکر پاکستان کے صوبے سندھ کا علاقہ ہے جو تقریباً 20 ہزار اسکوئر کلو میٹرز پر محیط ہے۔تھر پاکستان کا وہ علاقہ ہے جس کی ثقافت پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد مقبول ہے خواتین اپنے حسن اور شخصیت میں نکھار کیلئے اس علاقے کے منفرد لباس اور روایتی زیورات کا استعمال کرتی ہیں۔
یہاں کی ہاتھ کی بنی اشیاء لوگ اپنے دوست،احباب اور رشتے داروں کو تحفے تحائف کی صورت میں دیتے ہیں۔تھر پاکستان کی قدیم ترین تہذیب کا علاقہ ہے،تھر کی خواتین کے خوبصورت تھری کشیدہ کاری،ہاتھ کی کڑھائی،تھری کھتہ،پھڑہ،چنی،تھر کی مشہور تھری رلی کا کام،تھری ہینڈی کرافٹ،تھری قالین،تھری ڈبل بیڈ اور سنگل بیڈ کی انتہائی خوبصورت ہاتھ کے کام کی چادریں پاکستان سمیت امریکہ اور یورپ میں بے حد مقبول ہیں۔

آج جب دنیا چاند اور مریخ پر پہنچ چکی ہے ایسے میں تھر کی ثقافت اپنی منفرد شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے۔عمرکوٹ میں تھری کشیدہ کاری اور تھری ہینڈی کرافٹ،تھری بھرت اور کشیدہ کاری کا کام انتہائی نفیس اور خوبصورت ہوتا ہے جس میں گج،خوبصورت رلی کا کام،گج کا کھرتہ،کام کے دوپٹے،پھڑہ،چنی،اور چادروں پر ہاتھ کا انتہائی باریک اور رنگین کام کیا جاتا ہے۔
تھر کی رلی،گرم شالیں،چادریں،دوپٹے،قالین اور تھری ہینڈی کرافٹ کا کام پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد مقبول ہے۔تھر کی رلی کی قیمت پانچ ہزار سے دو لاکھ روپے تک ہوتی ہے جسے لوگ بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔اس کے علاوہ تھر میں مور کے پروں کے انتہائی خوبصورت ہاتھ کے پنکھے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔کاٹن کپڑے کا لال اور بلیک کلر میں مختلف ڈیزائن کا تھری پیس سوٹ،پھڑہ،گھاگھرا،کرتہ پوشاک اور تھری گج،چنی،مخملی گج پر ہاتھ کا کام،تھری کشیدہ کاری تھری دستکاری کے خواتین کے خوبصورت لباس،خواتین کے لئے چمڑے کے رنگین دھاگوں کے کام کی جوتیاں اور تھری کھسے پاکستان بھر میں مقبول ہیں۔
تھر میں تیار ہونے والی ہاتھ کے کام کی چادریں انتہائی دلکش اور خوبصورت رنگوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔
سندھ میں خواتین کے پہناوے چنری کے بغیر مکمل نہیں سمجھے جاتے۔اگرچہ ملک میں چنری سندھ کے چند ایک اضلاع میں تیار کی جاتی ہے مگر بدین کو چنری کا مرکز مانا جاتا ہے۔چنری کی تاریخ کا آغاز کاٹھیاواڑ راجستھان اور سندھ کے موجودہ تھر کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہے۔
اور قیام پاکستان کے بعد سندھ کے تھر کے ان علاقوں سے کاریگروں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی چنری کی تیاری کا کاروبار جاری رکھا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔بدین میں چنری کی تیاری میں کاریگروں نے بدلتے وقت کے تمام تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چنری کے ڈیزائنوں اور رنگوں میں انفرادیت نے اسے شہری و دیہی علاقوں کے جدید فیشن میں یکساں مقبول کیا ہے۔
بلکہ بدین کی چنری دنیا بھر میں اس علاقے کی خصوصی پہچان بن گئی ہے۔چنری دراصل خواتین کا لباس ہے سندھ میں اکثر خواتین اسے شلوار قمیض کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر قمیض کے ساتھ اسے گھاگھرے یا شرارے کے طور پر بھی عام استعمال کیا جاتا ہے یوں تو یہ لباس تمام قومیتوں کی خواتین میں مقبول ہے مگر اندرون سندھ اور بالخصوص تھرپارکر کی اقلیتی خواتین چنری سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتی ہیں اور اسے زیب تن کرتے دکھائی دیتی ہیں۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ چنری دراصل سرائیکی خواتین کا پہناوا ہے۔سابقہ ریاست بہاولپور اپنے خوبصورت محلات کے علاوہ کئی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی مشہور ہے۔انہی میں سے ایک چنری بھی ہے جو سرائیکی خواتین سے ہٹ کر اب پورے پاکستان اور بیرون ممالک بھی خواتین کی پسند بنتی جا رہی ہے۔بہاولپور کے نزدیک عباس نگر گاؤں چنری گاؤں کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں کی بنی ہوئی رنگ برنگی چنریاں نہ صرف بہاولپور بلکہ پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔
چولستان میں چنری کا خاص مقام ہے اور شادی بیاہ میں جہیز اس کے بغیر نامکمل تصور کیا جاتا ہے۔یہاں بچپن سے ہی خوبصورت چنریاں بناتی آئی ہیں جو اس کے علاقے کی خواتین خاص مواقعوں پر خریدتی اور اوڑھتی ہیں۔لڑکیاں چھوٹی عمر میں اپنی نانی اور والدہ سے اس فن کو سیکھتی اور پھر اپنی اولاد کو سکھاتی ہیں۔پہلے صرف چولستان کی خواتین ہی اس کو پہنتی تھیں لیکن اب بہاولپور کی چنریوں کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔

55 سالہ بختاور بی بی کے مطابق ان کا خاندان صدیوں سے اس فن سے منسلک ہے اور انہوں نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے عباس نگر کو یہ فن سیکھایا ہے اور اب تقریباً پورا گاؤں اس کام سے منسلک ہے۔بختاور مائی کا کہنا تھا:یہ کام مشکل اور محنت طلب ہے۔سب سے پہلے ہم کپڑا لیتے ہیں،اگر پورا سوٹ بنانا ہو تو چھ سے آٹھ میٹر تک کپڑا لگتا ہے۔اس پر سب سے پہلے ڈیزائن بنایا جاتا ہے اور یہ ہم اپنے ذہن سے بناتے ہے،ایک دوسرے سے مشورہ کرکے اس سوٹ یا چنری پر کون سا ڈیزائن یا رنگ اچھا لگے گا۔
ہمارے رنگ پائیدار ہوتے ہیں۔بہاولپوری چنری اپنے رنگوں ہی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔اتنی محنت کے باوجود اس کا معاوضہ اس طرح نہیں ملتا جتنا ہونا چاہیے۔ان کے مطابق ایک چنری بنانے میں ایک سے دو دن لگ جاتے ہیں اور اس پر خرچہ 1200 سو سے دو ہزار روپے تک آتا ہے۔لیکن ہمیں صرف اپنی محنت کی ہی بچت ہوتی ہے۔ہم سے زیادہ اس سے فائدہ کاروباری لوگ اُٹھاتے ہیں۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Chunri Ke Pehnawe" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.