Lawn K Malbosaat - Article No. 2049

Lawn K Malbosaat

لان کے ملبوسات - تحریر نمبر 2049

ہر سُو پھیلی ان کی بہار

ہفتہ 27 اپریل 2019

رابعہ عظمت
لاہور ایک تاریخی اور قدیم شہر ہے برصغیر میں اسے اپنے قیام سے یہ ایک اہم حیثیت حاصل ہے اور اسے مغل بادشاہوں کے پسندیدہ مقامات میں شمار کیا جاتا ہے ۔دہلی کے حکمرانوں کو ہندوستان میں کہیں بھی سفر کرنا ہوتا تو دہلی سے قبل ان کا اس قدیم شہر میں پڑاؤ ضرور ہوا ہوتا تھا۔ظاہر ہے جب یہاں بادشاہی مسجد ،شاہی قلعہ سمیت دیگر تاریخی عمارتیں تعمیر ہوئیں تو اس کے ساتھ ساتھ نئی بستیاں،محلے بھی وجود میں آئے اور ان کے ساتھ بازار بھی قائم ہوئے۔

قبل ازیں پر انا لاہور صرف بارہ دروازوں تک محدود تھا۔ان دروازوں کے اندر ہی پورا شہر آباد تھا اس کے رنگ محل ،سوہا بازار ،شاہ عالمی مارکیٹ اور موتی مسجد سے منسلک بازار کا شمار شہر کے خریدوفروخت کے بڑے مراکز میں ہوتاہے۔

(جاری ہے)

ان میں سے رنگ محل بازار شہر کی خواتین کا پسندیدہ شاپنگ مقام سمجھا جاتا ہے ۔میری دادی ،نانی،والدہ،پھوپھیاں اور خالا ہیں یہیں سے شاپنگ کرتی تھیں ۔

بلکہ اس دور میں جب کسی گھر میں شادی طے ہوتی تھی اور مہندی سے لیکر بارات،ولیمے ،ملبوسات،زیورات اور برتن تک ،
اسی بازار اور اس سے منسلک دیگر مارکیٹوں سے خریدے جاتے تھے ۔
دلہن کے لیے کڑھائی ،ذری اور کامدار ملبوسات رنگ محل سے ہی خریدے جاتے تھے ۔نہ صرف لاہور ،گوجرانوالہ،مرید کے ،یہاں تک کہ کراچی سے خواتین بھی شادی بیاہ کی خریداری کے لئے خریدنے کے لیے انہی قدیم بازاروں کا رخ کرتی ہیں ۔
اگر چہ شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی بڑے بڑے شاپنگ مالز اور مارکیٹیں قائم ہیں۔لیکن آج بھی قدیم شہر کے تاریخی ویرانے بازاروں کا کوئی ثانی نہیں۔
لاہور تو ویسے بھی مارکیٹوں ،بازاروں کا گڑھ ہے جس میں رنگ محل ،اچھرہ ،لبرٹی، کرشن نگر،انارکلی اور مزنگ بازار شہرت اختیار کر چکے ہیں اور دن بدن خریداری کے لیے آنے والی خواتین کا رش بڑھتا جارہا ہے ۔
حالانکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ہماری خواتین کی شاپنگ کرنے کی استعداد گھٹا دی ہے لیکن ونڈہ شاپنگ کا بھی تو اپنا ہی مزہ ہے ۔ایک کلاتھ شاپ کے دکاندار نے بتایا کہ پٹرول کی قیمتوں کا اثر سب سے پہلے مارکیٹوں پر ہی پڑتا ہے اور زیادہ تر خواتین کی ڈیمانڈ یہی ہوتی ہے کہ کم قیمت میں بھی انہیں برانڈڈسوٹ مل جائے اور اگر ایک لان کے سوٹ کی قیمت دو ہزار ہے تو اس پر بھی بحث کرتی ہیں کہ کسی طرح اس کی قیمت کم ہو جائے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ روز بدلتے نت نئے فیشن کے رجحانات نے خواتین کے لیے شاپنگ کو ضرورت سے زیادہ مجبوری بنادیا ہے ۔ٹی وی پر مختلف برانڈز کے کپڑوں کے اشتہارات سے ہر طبقے کی عورت خواہ وہ امیر ہویا غریب متاثر نظر آتی ہے۔موبائلز ،یوٹیوب،سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی متوسط طبقے کی خواتین خواہ کم پڑھی لکھی کیوں نہ ہو ان میں موسم ،معیار اور انداز کے حوالے سے پہنا وے میں شعور آگیا ہے ۔

موسم گرما کی آمد آمد ہے اور مارکیٹوں میں متعدد برانڈز کے لان کے رنگ برنگے ،خوبصورت ،منفرد ملبوسات کی پر سو بہار دکھائی دیتی ہے ۔ایسے میں سمجھ نہیں آتی کہ کونسا سوٹ خریدا جائے اور کون سا پھر پر چھوڑ دیا جائے۔ایک خاتون جو بھاٹی گیٹ کی رہائشی ہیں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بازار میں خریداری کے لیے آئی ہوئی تھی ان کا کہنا ہے کہ آج کل سادہ لان کا تھری پیس پہننے کا رواج نہیں رہا۔
اب اگر کسی رشتہ دار کے گھر چلے جائیں تو رشتہ دار خاتون خانہ یہ دیکھتی ہیں کہ سوٹ کس برانڈ کا ہے ۔
مذکورہ خاتون کی بیٹی جو کالج میں زیر تعلیم ہے نے بتایا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے فیشن کا نیا اندازاپنا نے میں کافی سہولت ہو گئی ہے ۔اب اگر پڑوسی ملک میں کوئی میک اپ کی نئی پروڈکٹ متعارف ہوئی ہے تو راتوں رات ہماری مارکیٹوں میں پہنچ جاتی ہے ۔
دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ایک ملک میں بدلتی ہوئی معاشرت،سماجیات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔انٹرنیٹ ودیگر جدید ایجادات کی بدولت ترقی کے مدراج تو حاصل کر لیے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معیار زندگی میں ،رویوں میں مادیت پرستی زیادہ آگئی ہے ۔اور مادی ضرورتوں نے ہمیں گھیر لیا ہے ۔ملکی معیشت دگرگوں اور بحرانی کیفیت سے دو چار ہے لیکن اس روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی خواتین کو شاپنگ کرنے سے نہیں روک سکتی ۔
اگر ہم خریداری نہ کرے ،ونڈوشاپنگ تو کرہی سکتے ہیں اس میں کونسے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔
جیولری شاپ دکاندار کے مطابق نت نئے ڈیزائن کی مصنوعی جیولری کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ایک ہفتہ پرانی آئٹم پسند نہیں کی جاتی بلکہ کوئی خاتون جب دکان پر آتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سوال یہی ہوتا ہے کہ کوئی نئی چیز آئی ہے تو بتائیں کیا نئی بالیاں ،جھمکے آئے ہیں،بریسلٹ کا کوئی نیا ڈیزائن ہے۔
دوسری بات یہ کہ پھر ہر علاقے کی خواتین کے خریدنے کے اسٹائل میں بھی بہت فرق ہے ۔جیولری شاپ کے دکاندار نے بتایا کہ جب لبرٹی میں جیولری سٹال لگاتا تھا تو وہاں آنے والی عورتوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ قیمتوں پر بحث نہیں کرتی اور نہ ہی قیمت کم کرنے پر اصرار ہوتا ہے۔ان بازاروں میں آنے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے ۔ان کا مطالبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ 100روپے کی شے ہمیں کسی طرح 50روپے میں مل جائے۔

بازار میں خریداری کے لئے آئی ہوئی ایک اور خاتون جو منڈی بہاؤ الدین سے آئی ہوئی تھی اور اپنی بہن کے ساتھ شاپنگ کررہی تھیں انہوں نے بتایا کہ وہ مہنگے ملبوسات لینا زیادہ پسند کرتی ہیں کیونکہ یہ جلدی خراب نہیں ہوتے اور مہنگا برانڈ لباس پہنا ہوا اچھا لگتا ہے ۔میں تو اپنے بچے کیلئے بھی قیمتی ڈریس خریدتی ہوں۔جہاں دو ہزار میں تین ڈریسز ملتے ہوں میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں دو ہزار میں ایک عمدہ ڈریس اپنے بیٹے کے لئے خریدوں۔

آج کل ریڈی میڈشرٹس کا بہت ٹرینڈچل رہا ہے خاص طور پر نوجوان لڑکیاں ریڈی میڈشرٹ کے ساتھ ٹراؤزر خردینے کو ترجیح دیتی ہے کہ وہ خوبصورت دیدہ زیب کلر فل ہوتی ہیں اور ان کو پہن کر ایک ماڈرن لُک آجاتا ہے ۔ریڈی میڈشرٹس بازار میں ساڑھے تین سو سے لے کر دوہزار کی عام مل رہی ہے اور تقریباً دکاندار نے بیگز ،جیولری کے ساتھ ریڈی میڈشرٹس بھی رکھی ہوئی ہیں۔
ایک دکاندار نے بتایا کہ ریڈی میڈشرٹس کو کالج وسکول کی لڑکیاں خریدتی ہیں اور ان کی ڈیمانڈ یہی ہوتی ہے کہ نئے سے نیا کلر ہو ڈیزائن ہو اور اگر کسی لوکل برانڈ کی نقل ہوتو وہ ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں ۔
لان کے سوٹوں کا تو لگتا ہے کہ ہر بازار میں مقابلہ چل رہا ہے ۔سات سو سے لے کر پانچ ہزار تک لان کے تھری اور ٹوپیس عام دستیاب ہیں ۔متوسط طبقے کی خواتین تقریباً پندرہ سو سے لے کر ڈھائی ہزار تک سوٹ خرید رہی ہیں اور ایسے خواتین کی تعداد کم ہیں جو پانچ ہزار کا لان کا سوٹ خریدے زیادہ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انہیں پانچ ہزار میں گل احمد ،آئیڈیاز،سفینہ ،بریزے کے دو لان کے سوٹ مل جائیں چاہے وہ ان برانڈز کی نقل کیوں نہ ہو۔
ایک سروے کے مطابق متوسط طبقے کے بازاروں میں معروف برانڈکی کاپی کئے گئے لان کے ملبوسات دھڑادھڑ بک رہے ہیں اور مڈل اور لوئر کلاس کی خواتین بڑے ذوق وشوق سے انہیں اپنی وارڈ روب کا حصہ بنا رہی ہیں۔
بازار میں جب ہم نے دیکھا تو تقریباً ہر دکاندار نے ہمیں بڑے فخر سے بتایا کہ ہمارے پاس ہر برانڈ کے سوٹ کی کاپی موجود ہے اور آپ جب اسے پہنیں گی تو کوئی پہچان نہیں سکے گا بلکہ اوریجنل برانڈ کاہی معلوم ہو گا۔

لیڈیز بیگز ،شوز اور بچوں کے ملبوسات پر بھی عام دنوں میں اسی طرح رش رہتا ہے ۔موسم گرما کی خریداری عروج پر ہے چونکہ رمضان وعید بھی زیادہ دور نہیں اس لئے کئی خواتین عیدالفطر کی شاپنگ کرتے ہوئے دکھائی دیں ۔ایک خاتون جو مز نگ کی رہائشی ہے انہوں نے بتایا کہ گرمیوں کے آتے ہی عید بھی ساتھ آرہی ہے محدود بجٹ میں بچوں اور شوہر کیلئے عید کی خریداری بھی کررہے ہیں کوئی پتہ نہیں کہ آنے والے دنوں میں اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے اس لئے ہم نے سوچا کہ پہلے سے عید کی خریداری کرکے رکھ لیں۔

رمضان المبارک میں اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ آیا ہی چاہتا ہے ،عید کے اہم تہوار کے موقع پر خواتین،خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں مقابلہ برائے بہترین پہنا وا شروع ہو جاتا ہے لیکن لگتا ہے کمرتوڑ مہنگائی نے اس مقابلے کی بھی کمرتوڑ دی ہے ،اور خواتین اب نہ صرف اپنے گھروالوں کے لئے بلکہ اپنے لئے بھی عید کی خریداری پھونک پھونک کر کریں گی۔

بازار میں سیز نل سیل بھی ابھی تک چل رہی ہے اور اکثر دوکاندار گا ہکوں کو اپنی دو کان پر لگی سیزن سیل کی طرف متوجہ کرنے میں مصروف نظر آئے ہیں اور ان دکانوں پر خواتین کارش دکھائے دیا۔سیزن ختم ہو نے کو ہوتو دوکاندار ہر چیز پر یعنی کپڑے ،جرسی ،اور جوتوں پر سیل لگا دیتے ہیں اور خواتین بھی خوب شاپنگ کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ سیزن میں ہر چیز عام آدم کی پہنچ سے دور ہوتی ہے لیکن جیسے ہی سیز ختم ہونے کے قریب آتا ہے تو دو کاندار ہر چیز کی قیمت آدھی کر کے سیل لگا دیتے ہیں ۔
جس میں دوکاندار جاتے موسم کا بھی فائدہ اٹھالتے ہیں اور خواتین بھی اس سہولت کاجی بھر کے فائدہ آٹھاتی ہیں ۔اس موقع پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ بچوں کی بھی اگلے سال کی ایڈوانس خریداری کر لیتی ہیں ۔جبکہ ہمیں مارکیٹ میں ایسی خواتین ملیں جنہیں ایڈوانس خریداری پسند نہیں۔
مسز عرفان نے ہمیں بتایا کہ ان کے شوہر ایک سر کاری ملازم ہیں اور ہمیں محدود بجٹ میں ہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ سیل کی اشیاء نہیں خریدتی کہ اگلے سال تک تو ویسے ہی یہ آؤٹ آف فیشن ہو جاتی ہیں اور دوسرا ہم نئے موسم کے کپڑے خریدیں جن کی زیادہ ضرورت ہے یا پھر ہم سیل کی چیزوں کا ڈھیر لگالیں۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Lawn K Malbosaat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.