Thar Ki Khawateen Ke Pehnawe - Article No. 2718

Thar Ki Khawateen Ke Pehnawe

تھر کی خواتین کے پہناوے - تحریر نمبر 2718

دلکش رنگوں سے مزئین چُنری،گج اور گھاگھرے قوس و قزح سے مشابہہ نظر آتے ہیں

منگل 26 اکتوبر 2021

راحیلہ مغل
گلے میں کنٹلا،پورے بازوؤں اور پیروں میں مخصوص قسم کی سفید کڑیاں پہنے،گہرے رنگ کا گھاگھرا اور چولی زیب تن کیے ہوئے،اپنے بائیں پلو کو دانتوں میں دبائے ادھ کھلا چہرہ اور سر پر کئی مٹکے اُٹھائے صحرائے تھر کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں بس چلتی جا رہی ہے ۔چہرے پر مسرت،خوشحالی اور رونق کے آثار نہایت مدھم ہیں۔
شاید یہی بڑی وجہ تھی کہ یہاں کی خواتین کے پہناوے میں شوخ رنگ لباس شامل ہیں ۔تھر کی دیہی خواتین کے پہناوے تھر کی شہری علاقوں کی خواتین سے الگ اور منفرد ہیں۔خوبصورت روایتی لباس اور جیولری پسماندہ علاقے کی ان خواتین کی خاص پہچان ہے۔
عورت اور تھر کا پس منظر ہمیشہ سے داستانوں اور لوک گیتوں کا موضوع رہا ہے۔خوبصورت روایتی لباس اور جیولری پسماندہ علاقے کی ان خواتین کی خاص پہچان ہے۔

(جاری ہے)

تھر کے باسیوں کا لباس صحرا کے موسموں کے مطابق سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والا ہے۔پانی سے بھرے مٹکے سروں پر اُٹھائے تھری عورتوں کے دلکش رنگوں سے مزئین چُنری،گج اور گھاگھرے قوس و قزح سے مشابہہ نظر آتے ہیں۔گج اور گھاگھروں پر جھلملاتے ستارے،دوپٹے کی اوٹ سے چہرے چھپائے اور کلائیوں میں سفید چوڑیاں پہنی تھری عورتیں صحرائی بانکپن کی عکاس نظر آتی ہیں۔
یہ خواتین جہاں محنت کش ہونے میں اپنی مثال آپ ہیں ،وہیں سج دھج میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔
گھاگھرا چولی،ان کا روایتی لباس ہے تو بازوؤں تک سفید چوڑیاں بھی ان کی خاص پہچان ہیں،جنہیں مقامی زبان میں ”کڑیاں“ بھی کہا جاتا ہے۔تھر کی کچھ خواتین ناک میں بولی اور پیروں میں پازیب بھی پہنتی ہیں۔زیورات تھر کی خواتین کو جہیز میں ملتے ہیں اس لئے یہ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہیں۔
چوڑیاں پہننے کا طریقہ ان کے شادی شدہ ہونے کا پتا دیتی ہیں۔کہنیوں تک چوڑیاں غیر شادی شدہ جبکہ پورے بازوؤں میں شادی شدہ خواتین چوڑیاں پہنتی ہیں،بیوہ خاتون ہندو ہو یا مسلمان چوڑیاں نہیں پہنتی۔چوڑیاں عام طور پر پلاسٹک،عاج اور ناریل کے درخت سے بنائی جاتی ہیں۔پہلے زمانے میں ہاتھی کے دانت سے بنتی تھیں۔
بازوؤں میں سفید روایتی چوڑیاں پہنے شوخ رنگوں سے مزین لباس میں ملبوس تھرپارکر کی خواتین کی زندگی محنت،مشقت،صبر اور برداشت سے عبارت ہے۔
نیچی چھتوں اور تنگ دروازوں والے گھروں میں رہنے والی ان خواتین کی زندگی شہری خواتین سے یکسر مختلف ہے۔یہاں کی خواتین جس قدر شوخ رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں اُن کی زندگی اُسی قدر مشکلات سے بھرپور،بے رنگ اور بے کیف ہوتی ہے ۔یہاں ہندو اور مسلمان دونوں رہتے ہیں لیکن پورے ماحول میں ہندو،مسلم آبادی میں کوئی تفریق نہیں کر سکتے۔نہ خواتین کے لباسوں سے نہ گھروں سے۔
ہر چیز میں یکسانیت ہے۔
بیشتر عورتیں صبح سویرے اُٹھ کر مال مویشی سنبھالتیں،ان کا دودھ دھوتیں اور چارے وغیرہ کا انتظام کرتی ہیں۔اس کے بعد گھر والوں کے لئے ناشتہ بناتی ہیں۔مردوں کے کاموں پر جانے کے ساتھ ہی وہ بھی میلوں دور کنویں سے پانی لینے چلی جاتی ہیں،پھر دوپہر کا کھانا بناتی ہیں۔کھانے کے بعد سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں،کیونکہ جس خاتون یا لڑکی کو یہ کام نہیں آتا یا وہ نہیں کرتی اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

تھر کی عورت آج بھی مرد سے زیادہ محنت کرتی ہے۔خواتین کے ہاتھ کی بنی اشیاء لوگ اپنے دوست،احباب اور رشتے داروں کو تحفے تحائف میں دیتے ہیں۔خوبصورت تھری کشیدہ کاری،تھری کھتہ،پھڑہ،چنی،مشہور تھری رلی کا کام،تھری ہینڈی کرافٹ،تھری قالین،تھری ڈبل بیڈ اور سنگل بیڈ کی انتہائی خوبصورت ہاتھ کے کام کی چادریں پاکستان سمیت یورپ میں بھی بے حد مقبول ہیں۔
تھر کی کچھ خواتین ناک میں بولی اور پیروں میں پازیب بھی پہنتی ہیں۔تھر کے دیہی علاقے کی خواتین کے مطابق یہ زیور ہمارا خاندانی زیور ہوتا ہے اس زیور میں بولی چاندی کے کڑی اور گلے میں ہار جس کو کنٹلا کہا جاتا ہے پہنتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ”یہ زیور ہم کو ہمارے ماں باپ کے گھر سے ملتے ہیں اور یہ ہمارا سنگھار ہے جسے ہم بہت شوق سے پہنتی ہیں“۔
یہ زیورات تھر کی خواتین کو والدین کے گھر سے جہیز میں ملتے ہیں اس لئے یہ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔
تھرپارکر پاکستان کے صوبے سندھ کا علاقہ ہے جو تقریباً 20 ہزار اسکوئر کلو میٹرز پر محیط ہے۔تھر پاکستان کا وہ علاقہ ہے جس کی ثقافت پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد مقبول ہے خواتین اپنے حسن اور شخصیت میں نکھار کیلئے اس علاقے کے منفرد لباس اور روایتی زیورات کا استعمال کرتی ہیں۔
آج جب دنیا چاند اور مریخ پر پہنچ چکی ہے ایسے میں تھر کی ثقافت اپنی منفرد شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے۔عمر کوٹ میں تھری کشیدہ کاری اور تھر کی ہینڈی کرافٹ،تھری بھرت اور کشیدہ کاری کا کام انتہائی نفیس اور خوبصورت ہوتا ہے جس میں گج،خوبصورت رلی کا کام،گج کا کھرتہ،کام کے دوپٹے،پھڑہ،چُنی،اور چادروں پر ہاتھ کا انتہائی باریک اور رنگین کام کیا جاتا ہے۔
تھر کی رلی،گرم شالیں، چادریں،دوپٹے،قالین اور تھر کی ہینڈی کرافٹ کا کام پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد مقبول ہے۔تھر کی رلی کی قیمت پانچ ہزار سے دو لاکھ روپے تک ہوتی ہے جسے لوگ بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔اس کے علاوہ تھر میں مور کے پَروں کے انتہائی خوبصورت ہاتھ کے پنکھے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔کاٹن کپڑے کا لال اور بلیک کلر میں مختلف ڈیزائن کا تھری پیس سوٹ،پھڑہ،گھاگھرا،کرتہ پوشاک اور تھری گج،چُنی، مخملی گج پر ہاتھ کا کام،تھری کشیدہ کاری تھری دستکاری کے خواتین کے خوبصورت لباس،خواتین کے لئے چمڑے کے رنگین دھاگوں کے کام کی جوتیاں اور تھری کھسے پاکستان بھر میں مقبول ہیں۔
تھر میں تیار ہونے والی ہاتھ کے کام کی چادریں انتہائی دلکش اور خوبصورت رنگوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔
سندھ میں خواتین کے پہناوے چُنری کے بغیر مکمل نہیں سمجھے جاتے۔اگرچہ ملک میں چُنری سندھ کے چند ایک اضلاع میں تیار کی جاتی ہے مگر بدین کو چُنری کا مرکز مانا جاتا ہے۔جنو اسی طرح سندھ میں بھی چُنری کی تاریخ کا آغاز کچھ بجھ،کاٹھیاواڑ راجستھان اور سندھ کے موجودہ تھر کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہے۔
اور قیام پاکستان کے بعد سندھ کے تھر کے ان علاقوں سے کاریگروں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی چُنری کی تیاری کا کاروبار جاری رکھا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔بدین میں چُنری کی تیاری میں کاریگروں نے بدلتے وقت کے تمام تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چُنری کے ڈیزائنوں اور رنگوں میں انفرادیت نے اسے شہری و دیہی علاقوں کے جدید فیشن میں یکساں مقبول کیا ہے۔
بلکہ بدین کی چُنری دنیا بھر میں اس علاقے کی خصوصی پہچان بن گئی ہے۔چُنری دراصل خواتین کا لباس ہے سندھ میں اکثر خواتین اسے شلوار قمیض کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر قمیض کے ساتھ اسے گھاگھرے یا شرارے کے طور پر بھی عام استعمال کیا جاتا ہے یوں تو یہ لباس تمام قومیتوں کی خواتین میں مقبول ہے مگر اندرون سندھ اور بالخصوص تھرپارکر کی اقلیاتی خواتین چُنری سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتی ہیں اور اسے زیب تن کرتے دکھائی دیتی ہیں۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ چُنری دراصل سرائیکی خواتین کا پہناوا ہے۔سابقہ ریاست بہاولپور اپنے خوبصورت محلات کے علاوہ کئی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی مشہور ہے۔انہی میں سے ایک چُنری بھی ہے جو سرائیکی خواتین سے ہٹ کر اب پورے پاکستان اور بیرون ممالک بھی خواتین کی پسند بنتی جا رہی ہے۔بہاولپور کے نزدیک عباس نگر گاؤں چُنری گاؤں کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں کی بنی ہوئی رنگ برنگی چُنریاں نہ صرف بہاولپور بلکہ پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔
چولستان میں چُنری کا خاص مقام ہے اور شادی بیاہ میں جہیز اس کے بغیر نامکمل تصور کیا جاتا ہے۔یہاں بچپن سے ہی خوبصورت چُنریاں بناتی آئی ہیں جو اس کے علاقے کی خواتین خاص مواقعوں پر خریدتی اور اوڑھتی ہیں۔لڑکیاں چھوٹی عمر میں اپنی نانی اور والدہ سے اس فن کو سیکھتی اور پھر اپنی اولاد کو سکھاتی ہیں۔ پہلے صرف چولستان کی خواتین ہی اس کو پہنتی تھیں لیکن اب بہاولپور کی چُنریوں کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Thar Ki Khawateen Ke Pehnawe" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.