Burger Family - Article No. 1950

Burger Family

برگر فیملیز - تحریر نمبر 1950

اس کی ذمّہ دار نوّے فیصد مائیں ہیں گھر کا کھانا نہ کھانے سے ہم اپنے خاندان کی صحت سے کھیل رہے ہیں

جمعرات 27 دسمبر 2018

انیلہ عادل
عجب زمانہ آگیا ہے کہ گھروں میں ناشتہ اور کھانا بنانے کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔آج کل عورتوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو کچن میں جانا پسند ہی نہیں کرتیں ۔ملازم پیشہ عورتوں کی بات کریں تو ناشتے کے وقت انہیں اپنے کام پر جانے کی جلدی ہوتی ہے اور ڈیوٹی سے واپسی پر تھکن کی وجہ سے وہ کھانا بنانے میں کوتا ہی کرتی ہیں کوشش یہی ہوتی ہے کہ بازار سے کچھ منگواکر پیٹ پوجا کر لی جائے چلوان کی تو مجبوری سمجھ میں آتی ہے اب جن عورتوں کو دوسرا کوئی کام نہیں وہ بھی ناشتہ بنانے سے کترانے لگی ہیں ۔


ان کا بھی رجحان فاسٹ فوڈز کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بازاری ناشتہ یا کھانا کھانے سے ناطرف نظام ہضم بُری طرح متاثرہوتا ہے بلکہ غیر میعاری اشیاء سے تیار کردہ ایسے بازاری کھانے اکثر فوڈ پوائزن کا باعث بنتے ہیں ۔

(جاری ہے)

جس کا نتیجہ ہمیں نت نئی بیماریوں کی شکل میں مل رہا ہے ۔گھر کا پکا ہوا کھانا نہ کھانے سے ہم اپنی اور اپنے بچوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں ۔

سب جانتے ہیں کہ گھروں میں بنے ہوئے صحت بخش اور خالص کھانے کا کوئی بھی نعمل بدل نہیں۔
کہاں گئے وہ زمانے جب سردیوں میں مائیں صبح سویرے بچوں کے اٹھنے سے پہلے آٹا گھوند کررکھ لیتیں اور جب سب اپنے وقت پر تیار ہو جاتے تو ان کے لئے بڑے پیار سے توے پر پراٹھے تیار کرتی جاتیں ۔چھوٹے بڑے سب اس کے پاس چولہے کے گرد بیٹھ جاتے اور مل جل کر ناشتہ کرتے ۔
ناشتہ بھی سادہ اور لذیر ہوتا تھا خالص دیسی گھی کے گرم گرم نمکین پراٹھے چائے کے ساتھ بڑے مزے دار لگتے تھے ۔جن کے ساتھ رات کا بچا ہوا سالن بھی کھالیا جاتا تھا اور سب ایک ہی ناشتے کا لطف اٹھاتے تھے کبھی کشمیری چائے میں (جسے سبز چائے بھی کہا جاتا ہے )باقرخانی ڈال کر نا شتہ کر لیا جاتا اور کسی اتوار کو بازار سے پوری حلوہ منگوالیا جاتا ۔

ناشتہ ہو یا کھانا یہ حقیقت ہے کہ اس طرح ایک ہی ایک جگہ بیٹھ کر کھانے سے آپس میں محبت بھی بڑھتی کھانے میں برکت کے ساتھ ساتھ رزق میں بھی اضافہ ہوتا ۔اسکول جانے والے بچوں کو سادہ پراٹھا یا اس کے اوپر چینی اور گھی ڈال کر اس کی چوری بنا کر دے دی جاتی ۔آج حال یہ ہے کہ اکثر مائیں اب ترددہی نہیں کرتیں ان کے ہاتھوں کے بنے ہوئے پراٹھوں کی جگہ ڈبل روٹی اور برگر نے لے لی ہے ۔

ہر کوئی اپنی مرضی کا ناشتہ کرتا ہے بچوں کے اسکول لے جانے کے لئے یہی لوازمات بچوں کے لنچ باکسوں میں ڈال دیتے ہیں یا ان کو پیسے تھما کہہ دیا جا تا ہے کہ کینٹین سے کچھ لے کر کھا لینا۔
اب بچے چاہے اسکول میں کیا الم غلم کھائیں اس سے ماں کو کوئی سروکار نہیں ۔ڈبل روٹی کی بات کی جائے ایک تو اسے کھا کر پیٹ نہیں بھرتا دوسرے یہ پیٹ میں گیس اور اپھاڑے کا باعث بنتی ہے اور اسے کھانے سے جسم میں توانائی نہیں آتی یہ تو بس نام کا ہی ناشتہ ہے ۔
ذہن مطمئن ہوجاتا ہے کہ ناشتہ کر لیا ۔کھانوں کی بات کریں تو گھروں کے پکے ہوئے کھانے کی بجائے اب بازاری کھانوں کو ترجیح دی جارہی ہے ۔سنا ہے کہ پرانے وقتوں میں بیویاں رات کے کھانے پہ شوہروں کا انتظار کیا کرتی تھیں کہ وہ آئیں گے تو کھائیں گے وہ اب بھی انتظار کرتی ہیں کہ وہ لائیں گے تو کھائیں گے یہ ساری فاسٹ فوڈ کی مہربانیاں ہیں ۔
لاہور شہر میں جب میکڈونلڈ والوں نے کاروبار شروع کیا تو شہریوں نے ان کی بڑی پذیرائی کی ان کے بعد کے ایف سی والے آگئے ادھر بھی لوگ جوق در جوق جانے لگے زندہ دلان لاہور تو کھانے پینے کے بڑے دلدادہ ہیں جہاں کہیں بھی کھانے پینے کی نئی وراٹی آتی ہے بھاگے چلے جاتے ہیں اس کے بعد فاسٹ فوڈ کی دو کانیں کھولنے کا رجحان بڑھتا چلا گیا ۔
دن بدن فاسٹ فوڈ کی دوکانوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔اب حال یہ ہے گلیوں محلوں میں چپے چپے پر یہ دکانیں نظر آتی ہیں ۔
مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے ہر دوکان دار اچھی خاصی دیہاڑی لگا کر گھر جاتا ہے ۔چٹ پٹ مصالحے دار برگر ۔پیزے اور شوار مے ہماری نئی نسل میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ فاسٹ فوڈز کی دو کانوں اور ہوٹلوں پر ہمیں ہروقت رش نظر آتا ہے جہاں پر بچے اور خواتین اپنی اپنی پسند کا فاسٹ فوڈ کھا رہے ہوتے ہیں ۔
کوئی برگر کھارہا ہے تو کوئی پیزا کھا کر دل بہلا رہا ہے کوئی شوارمہ سے لطف اندوز ہورہا ہے توکوئی پراٹھا رول نوش جاں کر رہا ہے ۔
اس بات کے پابندی نہیں یہ چیزیں بیٹھ کر کھائیں ۔کھڑے ہو کر یا چل پھر کر کھائیں یہ بھی فاسٹ فوڈ کھانے کا ایک انو کھا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔یار لوگوں نے ایک ہاتھ میں برگر پکڑ ا ہوا ہے تو دوسرے ہاتھ میں بوتل ہے ۔
چلتے چلتے برگر پر بھی منہ مارا جارہا ہے اور ایک گھونٹ بوتل کو بھی لے رہے ہیں ۔
باتیں بھی ہورہی ہیں کھانا بھی کھایا جارہا ہے اور سفر بھی طے ہورہا ہے یہ ہے ہمارا ماڈرن زمانہ
۔۔۔ ہمارے بزرگ تو کھڑے ہو کر کھانے والے کو بہت بُرا سمجھتے تھے بقول انکے انسان کا جانوروں کی طرح کھانا رزق کی تو ہین ہوتی ہے جور وزی سے برکت ختم کردیتا ہے اور جسم وجاں کو تقویت بھی نہیں بخشتا۔

بے شک گھرکی خالص غذا کھانے سے صحت بھی اچھی رہتی ہے گھر کے کھانوں میں الم غلم اور مضرِ صحت مصالحہ جات کی آمیزش نہیں ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کھانوں میں ماں کی محبت اور دعائیں شامل ہوتی ہیں ہم سمجھتے ہیں ۔کہ نسل نوجوفاسٹ فوڈز کی طرف چل نکلی ہے اس میں نوے فی صد ماؤں کا قصور ہے جو ناشتے اور کھانے بنانے کا تردد کرنے کی بجائے ناشتے میں اپنے بچوں کو بیکری کی بنی چیزیں کھلا کر سر خرو ہوجاتی ہیں ۔
اب ناشتہ ڈبل روٹی ۔انڈے ۔رس (پاپے)بن مکھن ۔مختلف فلیورز کے جام اور بسکٹس پر ساقط ہو کر رہ گیا ہے ۔بیکری کی بنی ہوئی اکثر چیزوں میں میدے اور انڈے استعمال کئے جاتے ہیں جن کے متعلق خریدار کو بالکل علم نہیں ہوتا کہ ان میں جو مٹیریل استعمال کیا گیا ہے وہ کھانے کے قابل بھی ہے کہ نہیں ۔
زیادہ دنوں کی بات نہیں کراچی میں فاسٹ فوڈ کی ایک مشہور دوکان سے لے کر فاسٹ فوڈ کھانے سے دو معصوم بچے موت کی بھینٹ چڑھ گے ۔
ان کے ماں باپ‘بہن بھائیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔میڈیا والوں نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا ۔قانون حرکت میں آیا پکڑ دھکڑ بھی ہوئی اور آہستہ آہستہ دوسرے معاملات کی طرح یہ بھی معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ۔وہ معصوم بچے تو چلے گئے جو اب والدین کو کبھی نہیں ملیں گے۔بازار کے غیر معیاری کھانوں کو ہم جتنی تیزی سے اپنا معمول بناتے جارہے اتنی ہی تیزی سے فاسٹ فوڈ کا شعبہ یا کار بارترقی کرتا جارہا ہے۔

گلیوں محلوں میں ہر دوسرے روز ایک نئی دوکان کھلتی جا رہی ہے ۔جن کی اطلاع بڑے تسلسل سے ہمیں اپنے گھروں کی دہلیزوں پر پڑے ہوئے خوب صورت ۔رنگین ہینڈ بلوں (پمفلٹ )کے ذریعے ملتی ہے جن میں برگرز ۔پیزا ۔پراٹھا رول ۔فنگر چپس ۔چکن پیس اور ونگز کی دل موہ لینے والی تصویروں کے ساتھ مختلف پیکج کی کچھ اس طرح تشریح کی جاتی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کرتا ہے کہ چلو ”ذرا ٹرائی کرکے دیکھتے ہیں “۔

ایسے دو کانداروں نے جو ہوم ڈیلوری کے پیکچ دے رکھے ہیں وہ اس کا روبار کے لئے بڑے کامیاب ثابت ہوئے ہیں ۔گھر میں ایسے اشتہارات آتے ہی بچے بضد ہوجاتے ہیں کہ نئی دوکان سے ہی کچھ منگوالیتے ہیں لہٰذا بذریعہ فون کوئی نہ کوئی پیکچ منگوا لیا جاتا ہے اور بیٹھے بیٹھائے پانچ ساتھ سوروپے پر چھڑی پھر جاتی ہے۔
دو کانوں پر جورش ہوتا ہے وہ اپنی جگہ۔
۔۔اب تو ہوم ڈیلوری کی بکنگ کروانے والوں سے بھی فرصت نہیں ملتی ۔فون پر فون آرہا ہوتا ہے دوکان کے کاؤٹر پر بیٹھا ہو شخص کو سر کجھانے کی مہلت نہیں وہ تیزی سے آرڈر لکھتا جاتا ہے اور گاہکوں کی فرمائش کے مطابق ان کے گھروں میں کھانے بجھوانے کا انتظام کرتا جاتا ہے ۔دیکھا جائے تو اس وقت فاسٹ فوڈ بیچنے والوں کی چاندی ہی چاندی ہے گھر میں کوئی مہمان آجائے تو خاتون خانہ کو بھی کوئی تردد نہیں کرپڑتا۔

چائے کا ٹائم ہو اتو بیکری سے کیک ۔بسکٹس ۔نمکو۔نگٹس ۔پیٹیز منگوا لئے۔کھانے کا ٹائم ہوتو مہمان کے کھانے کیے لئے فون کر کے فاسٹ فوڈ منگوا کر مہمان نوازی کر لی اور مہمانوں کے بہانے خواتین اپنے کھانے کا بندوبست بھی کرلیتی ہیں جس سے ان کو ایک وقت کی ہانڈی روٹی سے چھٹکا ر بھی مل جاتا ہے ۔خرچے کا کیا ہے یہ تو میاں صاحب خود ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔
آسانیاں تو بہت پیدا ہو گئی ہیں مگر ان آسانیوں کے ساتھ ساتھ بیماریاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔
جتنی آسانیاں اتنی ہی بیماریاں ۔یہ کوئی نہیں سوچتا کہ فاسٹ فوڈز کی شکل میں ہم جو چٹ پٹی اور مصالحہ دار خوراک کھاتے ہیں ان کے کھانے سے معدہ کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور اگر معدہ صحیح طرح کام نہ کرے تو بدن میں سو طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جن میں جگر کے امراض ۔
ہائی بلڈ پریشر ۔شوگر اور امراضِ قلب جیسی موذی امراض بھی شامل ہیں ۔کتنی عجیب بات ہے کہ یہ بیماریاں ہم ان دو کان داروں کو پیسے دے کر خرید تے ہیں ۔
ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ فاسٹ فوڈ میں غذائیت کا توازن بالکل نہیں رکھا جاتا صرف اس کو ذائقے دار اور کریسپی بنانے کے لئے چینی ۔نمک اور چکنائی کا بے ذریغ استعمال کیا جاتا ہے جس سے جسم کا قدرتی نظام بُری طرح متاثر ہوتا ہے ۔
فاسٹ فوڈ میں کیلوریز کی مقدار حد سے زیادہ ہوتی ہے جب جسم کو یکدم اتنی کیلوریز ملتی ہیں تو جسم پھولنے لگتا ہے موٹاپے کی اس بیماری سے جسم سست پڑ جاتا ہے اور ہماری روز مرہ کار کردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے ۔
ماہرین کے مطابق ہفتے میں چار یا اس سے زائد مرتبہ فاسٹ فوڈ استعمال کرنے والے افراد میں دل کی بیماری کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کیونکہ ان میں چکنائی کی زیادہ مقدار شامل ہوتی ہے اور زیادہ چکنائی کھانا ہر انسان کے لئے خطر ناک ہے ۔
دیکھا جائے تو یہ فاسٹ فوڈ عام طور پر مغرب میں زیادہ کھائے جاتے تھے جہاں ان لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ گھر میں کچھ بنا کر کھالیا جائے نہ ہی ان میں اکٹھے ایک جگہ بیٹھ کر کھانے کا رواج ہے ۔
اگر وہ ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو ان کو سب کچھ خالص ملتا ہے کیا مجال کی وہاں پر کوئی کھانے پینے کی چیزوں میں ملاؤٹ کر سکے ہر چیز حفظان صحت کے اصولوں کو مِد نظر رکھ کر تیار کی جاتی ہے اور ان کے برعکس یہاں پر یہ حال ہے کہ فاسٹ فوڈ کی دو کانوں کے اندر جا کر ذرا ان کے کچن دیکھیں ۔
پہلے تو وہ زنگ آلود اور گندے برتن نظر آتے ہیں جن میں کھانے کی چیزیں رکھی یا سٹور کی جاتی ہیں ۔
بعض دو کانوں میں تو پانی بھی گندہ استعمال ہوتا ہے ۔
اگر چہ پنجاب فوڈ اتھارٹی اس سلسلہ میں بڑا کام کررہی ہے ۔آئے روز منوں کی تعداد میں مرغیوں اور بکروں کا گوشت پکڑ کر تلف کرتی رہتی ہے ۔دوکانداروں کو جرمانے کرتی ہے اور اکثر دو کانیں بھی سیل ہوتی رہتی ہیں جن میں بڑے برے نام والی دو کانیں بھی شامل ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود ان
دو کانداروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی غیر قانونی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Burger Family" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.