Hilmt Nahi Qabool - Article No. 1944

Hilmt Nahi Qabool

ہیلمٹ نہیں قبوُل - تحریر نمبر 1944

بچّے اور سامان کیسے سَنبھالیں ‘انڈین خواتین کی طرح پیچھے نہیں بیٹھ سکتیں

بدھ 19 دسمبر 2018

را حیلہ مغل
ہماری حکومت جہاں کئی دوسرے اقدامات کر رہی ہے وہیں موٹر سائیکل سواروں کے خوفناک اور جان لیوا حادثات پر قابو پانے کے غرض سے اہم اقدام اٹھاتے ہوئے موٹر سائیکل سوار حضرات کے ساتھ ایک بار پھر خواتین موٹر سائیکل سواروں کے لئے بھی ہیلمٹ پہننا لازم قرار دے دیا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ‘حکومت کی جانب سے مردوں کی جان کے بعد خواتین کی زندگیوں کی فکر بھی قابل ستائش ہے ۔

لیکن انسانی زندگی کی بقاو تحفظ کیلئے اس اقدام سے قبل زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔ موٹر سائیکل غریب اور نچلے متوسط طبقے کی قابل دسترس سواری ہے ۔تباہ حال اور شکستہ بسوں کی چھتوں اور پائیدانوں پر لٹک کر چنگ چی اور سوزو کی کے اذیت ناک سفر کی نسبت اس طبقے کو موٹر سائیکل کی سواری میں آسانی دکھائی دیتی ہے ۔

(جاری ہے)

اس کم خرچ سواری کو ایک شادی شدہ جوڑ اشادی کے اوّلین ایّام سے لیکر چوتھے پانچویں بچے کی پیدائش تک مستقل مزاجی سے استعمال کرتے ہیں ۔


موٹر سائیکل کے اس طویل سفر کے تحفظ کے لئے ہیلمٹ کی پابندی یقینا خوش آئند ہے ،مگر وہ خواتین ہی کیا جو کسی حال میں خوش ہو جائیں ۔نئے حل میں نئے مسائل ۔اب ذرا تصور کریں اس سفر کا ‘موٹر سائیکل کی انتہائی غیر آرام دہ نشست پر براجمان سارے رستے لٹکنے والے کپڑے ‘مثلاً دو پٹہ یا عبایا کا سنبھالنا ‘قدم قدم پر ہڈی پسلی ایک کردینے والے سڑکوں کے نشییب وفراز اس پر مستز ادلگا تار ہم سفر رہنے والے کچرے کے چھوٹے بڑے ڈھیر اور ان سے نکل کر سیدھا دماغ میں پیوست ہوجانے والی میزائل صفت بدبو۔

بھلابتائیں اتنے گھمبیر حالات میں خواتین سے سروں پر ہیلمٹ رکھنا برداشت ہو گا اور موٹر سائیکل کا یہ سفر اگر کسی تقریب کیلئے ہوا تو کیا خواتین اپنے حسین ہیراسٹائل اور خوبصورت میک اپ بلکہ گیٹ اپ کو ہیلمٹ پر قربان کر سکیں گی ۔لیکن اب کیا ہو سکتا ہے کیونکہ لاہور میں موٹر سائیکل پر بیٹھنے والے دونوں افراد کیلئے ہیلمٹ پہننے کی پابندی کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔

اسکے علاوہ یہ فیصلہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ موٹر سائیکل پر 2سے زائد افراد نہیں بیٹھ سکیں گے ۔لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ہیلمٹ لازمی قرار دینے کے بعد نمائندہ فیملی میگزین نے لاہور کی مختلف سڑکوں کا وزٹ کیا جو صورتحال سامنے آئی وہ کچھ یوں تھی ۔مال روڈ کے علاوہ دوسری سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے خواتین نے ہیلمٹ اتار کر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے زیادہ تر خواتین ہیلمٹ پہننے پر ناراض نظر آئیں ۔

حمیر ا عابد جو ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھی تھیں اُنھوں نے کہا کہ پہلے ہی ہمیں عبایا سنبھالنے کی فکر ہوتی ہے اگر بچہ گود میں ہوتو سفر اور بھی مشکل ہوجاتا ہے ایسے میں اگر سر پر ہیلمٹ پہن لیں تو ہم سانس کیسے لیں ۔میری تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ حکومت کیا کرنے آئی تھی اور کیا کر رہی ہے ؟
ایک موٹر سائیکل سوار محمد اکرم کے پیچھے بیٹھی ایک بوڑھی خاتون موٹر سائیکل سوار نے بڑی پریشانی سے ہیلمٹ پہن رکھا تھا ۔
وہ کہنے لگیں کہ ”مجھے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ ساری قانون سازی اس لیے کی جارہی ہے کہ حکمرانوں کے کسی عزیز نے ہیلمٹ بنانے والی فیکٹر ی لگارکھی ہے اور یہ اُسے پروموٹ کرنے کیلئے یہ ساری سختی کررہے ہیں ۔اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ میں اس پابندی سے بلکل بھی خوش نہیں ہوں مجھے پہلے ہی سانس کا مسئلہ ہے اب اس ہیلمٹ کیوجہ سے سانس لینے میں دشوار ہورہی ہے ۔

مس رابعہ جو کہ خود بائیک چلا رہی تھی اُنھوں نے کہا کہ فرنٹ سیٹر کیلئے تو ہیلمٹ ناگزیر ہے لیکن پیچھے بیٹھنے والے کیلئے مسئلے کا باعث ہے حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔خاص طور پر بچے والی خاتون ہیلمٹ سنبھالے یا بچہ سنبھالے ؟میری تو رائے ہے کہ حکومت کو چاہئیے ہیلمٹ پہنانے کی بجائے ایسی کاریں نکالی جائیں جو سستی ہوں بے شک اُس میں دو لوگوں کے بیٹھنے کی ہی گنجائش ہو ۔
اسطرح سفر محفوظ بھی ہوگا اور ہیلمٹ کا جھنجھٹ بھی نہیں ہو گا اور گود میں بچہ بھی محفوظ ہو گا ۔میرے نزدیک اعوام کو حادثات سے محفوظ رکھنے کا یہ بہترین حل ہے ۔
بہر حال اب حقیقت یہ ہے کہ موٹر سائیکل چلانی ہے یا پیچھے بیٹھنا ہے ہیلمٹ پہننا ضروری ہے کیونکہ مال روڈ پر ہیوی بائیک لیڈی وارڈنز بھی تعینات کردی گئی ہیں ۔انہوں نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ”موٹر سائیکل سوار فرنٹ اور سیکنڈ سیٹر کیلئے ہیلمٹ پہننا ضروری ہے ۔
موٹر سائیکل آرڈنینس 1965 ء کے تحت کوئی بھی فرد بغیر ہیلمٹ نہ موٹر سائیکل چلا سکتا ہے اور نہ ہی بغیر ہیلمٹ پیچھے بیٹھ سکتا ہے “۔
موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والی خواتین پر ہیلمٹ پہننے کو لازم قرار دےئے جانے پر نامور خواتین کی جانب سے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔
مسلم لیگ (ن)کی رہنما صباح صادق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کا اپنا ایک وقار اور تقدس ہوتا ہے ۔
مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ خواتین کو ہیلمٹ پہنانے کا مقصد خواتین کے تقدس کو پامال کرنا ہے ۔خواتین کی اصل شناخت عورت ہے ۔اس طرح مردوں والا حلیہ بنا کر مرد اور عورت میں پہچان ختم کردی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک لابی ہے جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ ”موجودہ حکومت کے پاس خواتین کی فلاح وبہود اور تحفظ کے لئے کوئی اور منصوبہ نہیں تھا جو یہ ہیلمٹ کا ڈرامہ رچا دیا گیا ہے ۔
انہوں نے کہا پورے لاہور میں خواتین کوٹرانسپورٹ کے جومسائل ہیں کیا ان پر کام نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا اصل مسئلہ ہی غریب عوام ہیں ۔جن کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے “۔
بنک میں کام کرنے والی منیزہ رحمن اور صوبیہ اکرم نے کہا کہ ہم ورکنگ وویمن کو ویسے ہی بے حد مسائل کا سامنا رہتا ہے اور اب رہی سہی کسراس ہیلمٹ نے پوری کردی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر گورنمنٹ کو خواتین کی حفاظت کی اتنی ہی فکر ہے تو ہمیں فری ہیلمٹ دئیے جائیں ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم بھی ہیلمٹ خریدیں اور اپنی Personalityبھی خراب کریں ۔
بیوٹیشن مسرت مصباح نے کہا کہ خواتین کی حفاظت کے پیش نظر یہ ایک احسن قدم ہے میں اسکی حوصلہ افزائی کرتی ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ خواتین کو فری ہیلمٹ تقسیم کئے جائیں ۔

ایک وکیل خاتون حمیرا مغل نے کہا کہ ہیلمٹ پہنانا ایک احسن قدم ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ لین کی پابندی کر وانا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر ہم حادثات پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں لین کی پابندی کروانی چاہیے اس طرح ہم اپنا مقصد حل کر سکتے ہیں خالی ہیلمٹ پہنا دینا ہی کافی نہیں ۔اسکے علاوہ پریشانی والی بات یہ بھی ہے کہ ہیلمٹ پہننے کو لازم قرار دینے کے بعد ہیلمٹ خرید نے والوں کی تعداد میں جو نہی اضافہ ہوا ہے ہیلمٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ گئی ہیں ۔

اب ان حالات میں خواتین کو ہیلمٹ کی افادیت سے مرعوب کرنا مشکل امر ہے ۔اسکے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ خواتین ہیلمٹ کو فیشن میں ان کروادیا جائے ۔جگہ جگہ دکانوں ‘بازاروں شاپنگ مالز میں ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ اگر ہیلمٹ پہنا نے ہیں تو انھیں فیشن میں ان کر دیا جائے ۔جب مارکیٹ میں ہیلمٹ سجے ہوں گے تو ممکن ہی نہیں کہ خواتین اس جانب متوجہ نہ ہوں ۔

البتہ یہ مسئلہ ہے کہ اس طرح مردوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔مردوں کی جیب پر ہیلمٹ کے خرچ کا نہ صرف اضافی بوجھ پڑے گا بلکہ فیشن کے چکر میں یہ بوجھ ماہانہ بجٹ کا مستقل حصہ بن جائے گا ۔کیونکہ کپڑوں کے حساب سے میچنگ کے ہیلمٹ کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔اسکے علاوہ خواتین تو ہیلمٹ سے محفوظ ہو جائیں گی لیکن انکی گود میں اور آگے پیچھے بیٹھی ننھی زندگیوں کیلئے کیا ہوگا ؟یہ ننھی سواریاں بنا ہیلمٹ کے کیا محفوظ رہیں گی ؟لہٰذا سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنایا جائے ۔
لین کی پابندی کروائی جائے ۔حکومت شہریوں کو ایسا یا سہولت نظام فراہم کرے کہ موٹر سائیکل پر سوار ہونے کی بجائے عوام ان ٹرانسپورٹ پر سوار ہونے کو ترجیح دیں۔ اگر ممکن ہوتو سستی کاریں متعارف کروائی جائیں ۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Hilmt Nahi Qabool" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.