Jadeed Technology Say Apne Taleemi Idaron Ko Update Karna Ho Ga - Article No. 1985

Jadeed Technology Say Apne Taleemi Idaron Ko Update Karna Ho Ga

جدید ٹیکنالوجی سے اپنے تعلیمی اداروں کو اپ ڈیٹ کرنا ہو گا - تحریر نمبر 1985

جمعہ 15 فروری 2019

عنبرین فاطمہ
’’رخسانہ ڈیوڈ‘‘ پرنسپل کنئیر ڈ کالج لاہورہیں انہوں نے ابتدائی تعلیم جہلم سے حاصل کی میٹرک کے بعد ان کے والدین تو جہلم میں ہی رہے لیکن یہ کنئیرڈ کالج میں آگئیں اوریہاں سے انٹرمیڈیٹ کیا ۔آرٹ سے خصوصی لگائو رکھتی تھیں کنئیرڈ کالج میں آرٹ کے مضامین نہیں تھے یوں انہیں پنجاب یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑا ،وہاں سے بی ایف اے ،ایم ایف اے نمایاں پوزیشن میں کیا ۔

انہی کے ڈیپارٹمنٹ میں انہیں پڑھانے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے پڑھانا شروع کر دیا چار سال تک اس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتی رہیں ۔اس کے بعدوہ انٹیرئیر ڈیزائننگ کی،پندرہ بیس برس تک کنسلٹنسی کرتی رہیں ۔ اس دوران بھی یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ ٹیچر کلاسیں لیا کرتی تھیں ۔

(جاری ہے)

کنئیرڈ کالج نے جب آرٹ پڑھانا شروع کیا تو پرنسپل میرا فیلبوس کو کسی ایسی خاتون کی تلاش تھی جو آرٹ کے ڈیپارٹمنٹ کو ڈویلپ کرے یوںانہوں نے کنئیرڈ کالج جوائن کر لیا اٹھارہ برس سے اسی کالج سے وابستہ ہیں آج کل وہ اس کالج کی پرنسپل ہیں ہم نے گزشتہ دنوں ان سے نوائے وقت کے لئے انٹرویو کیا ۔

انٹرویو میں ہونے والی گفتگو کچھ یوں ہے ۔رخسانہ ڈیوڈ نے کہا کہ مجھے جب میرا فیلبوس نے آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ ڈویلپ کرنے کی پیشکش کی تو میں نے بخوشی قبول کر لی اورکالج میں آرٹ کے مضامین کے فروغ کے لئے خاصا کام کیا یہاں اب ہم بی ایف اے ،ٹیکسٹائل ،پی ڈی( بیچلر آف ڈیزائن) آفر کرتے ہیںدس سال تک کامیابی سے اس ڈیپارٹمنٹ کو چلایا ۔اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ آپ اس کالج کو ہیڈ کریں یوں گزشتہ آٹھ برسوں سے بطور پرنسپل کنئیرڈ کالج خدمات انجام دے رہی ہوں ۔
ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیکل کی تعلیم کے ساتھ ہر شعبے کی تعلیم کے اعتبار سے اہمیت بڑھتی گئی جب تعلیم کے کسی شعبے کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو اس سے متعلقہ مضامین پڑھانے کے تقاضے بھی مختلف ہوجاتے ہیں ،آگے بڑھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھتے رہیں طالب علموں کو باخبر رکھیں اور انفرمیشن دیتے رہیں کہ ہم کیرئیر میں آگے بڑھنے کے لئے کیا کیا نئی چیزیں کر سکتے ہیں ۔
اس کے علاوہ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ پڑھائی تو وہی ہے جو آپ کلاس میں بیٹھ کر کرتے ہیں لیکن ہر زمانے میں لائف سکلز کی ضرورت ہوتی ہے ،ہم جو بھی اس وقت پڑھ رہے ہیں فارمولا/ تھیوریزوہ15/20 سال کے بعد ختم ہو جائیں گی اوروہ تعلیم آئوٹ ڈیٹٹڈ ہو جائے گی لیکن سکلز کبھی آئوٹ ڈیٹ نہیں ہوتی ۔زندگی کس طرف جاتی ہے کسی کو نہیں پتہ لیکن جس انسان کے پاس لائف سکلز ہوں گی وہ کبھی مار نہیں کھائے گا ہمیں نہیں پتہ کہ دنیا اس وقت کہاں جا رہی ہے اور اگلے 20/25برسوں میں کہاں ہو گی لیکن سکلز طالب علموں کے لئے ہمیشہ کارگر ثابت ہوتی ہیں ۔
آج بہت ساری چیزیں سسٹمائز ہو گئی ہیں جیسے کہ کنئیرڈ ایک پرانا ادارہ ہے اس کا اپنا ایک طرز ہے کام کا۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اب ہمیں ایڈوانس چیزوں کی اشد ضرورت ہے ۔کنئیرڈ کالج میںبہت سارے نئے سسٹم ڈیولپ ہو گئے ہیں جو کہ ماضی میں اتنے نہیں تھے ۔ہماری فیکلٹی میں50 پی ایچ ڈی ہیں بہت سارے ٹیچرز پی ایچ ڈی کرنے جا رہے ہیں ۔ریگولر ٹیچرز کی تعداد دو سو ہے اور وزٹنگ 100کے قریب ہیں ،ایچ ای سی کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اگر آپ ایم فل پروگرامز چلا رہے ہیں تو پھر پی ایچ ڈی کی تعداد بھی بڑھائیں اس لئے ہم پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد بڑھا رہے ہیں ۔
ہمارے پاس اس وقت 26انڈر گریجوایٹ اور 15ایم فل پروگرام ہیں ۔ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار اتنا برا نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پرائمری نظام تعلیم میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے اس نظام تعلیم میں رٹہ بہت زیادہ لگوایا جاتا ہے جو کتاب میں لکھا ہو طالب علم اسی کو یاد کرنے اور لکھنے کے پابند ہوتے ہیں بس ایسا سمجھ لیں کہ بچو ںکو کتابیں رٹوائیں جاتی ہیں آپ دیکھیں کہ انٹرمیڈیٹ میں زیادہ نمبر حاصل کرنے والے بچوں سے اگر کوئی سوال کیا جائیگا تو وہ اس طرح سے سوچ کے جواب نہیں دے سکیں گے کیونکہ ان کے اندر خود سے سوچ کر جواب دینے کی صلاحیت کو ڈیولپ ہی نہیں کیا جاتا۔
جو چیزیں طالب علموں کو ابتدائی سٹیج پر سکھائی جانی چاہیں ان میں سے ایک چیز اعتماد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن کہیں نہ کہیں اس صلاحیت سے بچوں کو اس طرح سے آراستہ نہیںکیا جا تا ۔اگر کسی بچے نے وہ نہیں لکھا جو کتاب میںلکھا ہے تواس کو ڈانٹ پڑ جاتی ہے ،میرے حساب سے ہر بچہ مختلف ہے اس کی صلاحتیں مختلف ہیں ان کو ابھارنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
انہیں سوال پوچھنے کی آزادی دی جانی چاہیے انہیں سوال کرنے کی عادت ہو گی تو نئی سے نئی چیز کے بارے میں جستجو کرے گا اور سوچے گا۔ہم اپنے بچوں کو ایک ہی لائن میں ڈال دیتے ہیں 16 سال کی پڑھائی تک سوچنے کی صلاحیت نہیں دیتے اب پڑھائی کے اگلے 6سال وہ کیا دماغ سے سوچیں گے ۔اس لئے بہت ضروری ہے کہ بچے کی پڑھائی کے ابتدائی برسوں میںاس کو اچھی تعلیم دیں ۔
پھر ہمارا ابتدائی تعلیمی نظام اس قسم کا ہے کہ جب بچے ہائر ایجوکیشن میں آتے ہیں تو انہیں انگریزی بولنے اور خصوصی طور پر تھیسسز لکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں انگریزی زبان پر عبور نہیں ہوتا اسی لئے وہ اسائنمنٹس کرنے میں مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اب تمام یونیورسٹیوں میں تھیسسز انگریزی زبان میں لکھوایا جاتا ہے تو ایسے میں طالب علم شدید تنگی میں آجاتے ہیں ۔
اب ہم یہاں یہ پوائنٹ بھی اٹھا سکتے ہیں کیا انگریزی بولنے والے ہی لائق ہوتے ہیں نہیں ایسا بالکل نہیںہے بس یہ موجودہ دور کی ضرورت ہے ورنہ بہت سارے ایسے لوگ ہیںجن کو انگریزی زبان نہیں آتی لیکن انہوں نے اپنے اپنے شعبے میں دنیا بھر میںنام کمایا ۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم بچوں کو شروع سے ہی ایسی تعلیم دیں جس سے انگریزی زبان سیکھنا کوئی مسئلہ نہ رہے اور یہ کوئی بہت مشکل کام نہیںہے ہم نے خود ڈویژن بنائی ہوئی ہیں ،کلاس ڈویژن تو ہوتی ہے اس کے باوجود پڑھائی کے لحاظ سے بھی ڈویژن بنا لی ہیں امیر ہوں یا لوئر مڈل یا مڈل کلاس سب کے لئے ایک جیسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے اب جو ہمارے ہاں تعلیمی نظام ہے اس میں اردو میڈیم کے بچے خودکو انگریزی میڈیم کے بچوں سے کم سمجھتے ہیں اور یہ بات درست بھی ہے کہ اردو میڈیم کے بچے انگلش میڈیم کے بچوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے ،کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے ایک جیسے شہری ہوتے ہوئے آپس میں کنٹیکٹ نہیں کرپاتے ۔
اس میں قصور کس کا ہے اب اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قصور پالسیی میکرز کا ہے ۔ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہاکہ صوبوں میںہائر ایجوکیشن کمیشن بنائے جانا بہت ہی اچھا اقدام ہے اس سے بہت سارے معاملات میں بہتری آئی ہے ۔ہائر ایجوکیشن کے ادارے ریگولیٹ ہو گئے ہیں سسٹم آگئے ہیں ۔اس وقت دنیا تعلیم کے میدان میں بہت آگے جا چکی ہے لہذا ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے اپنے تعلیمی اداروں کو اپ ڈیٹ کرنا چاہیے ۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Jadeed Technology Say Apne Taleemi Idaron Ko Update Karna Ho Ga" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.