Pasand Ki Shadi Ka Haq Rakhti Hain - Article No. 1843

Pasand Ki Shadi Ka Haq Rakhti Hain

پسند کی شادی کا حق رکھتی ہیں - تحریر نمبر 1843

کیلاش کی خواتین کو اپنے ہم قبائل مردوں سے شادی کرنے اور پھر انہیں طلاق دینے کی جتنی آزادیاں حاصل ہیں،پاکستان کے دیگر علاقوں کی خواتین اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں

ہفتہ 4 اگست 2018

تنو یر قیصر شاہد
یوں تو وطنِ عزیز کا تقریباََ ہر علاقہ ہی مسائل کی آما جگاہ ہے لیکن پاکستان کے وہ دورا فتادہ علاقے جو شہری سہولتوں اور جدید تعلیم سے محروم ہیں ،ان کے مسائل اور مصائب کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارا قومی میڈیا ان علاقوں میں جانے اور ان کے مسائل کو قوم کے سامنے لانے کا تکلیف ہی گوارا نہیں کرتا ۔

پنجاب ،خیبر پختو نخوا ،بلوچستان اور سندھ کا کون سا ایسا خطہ ہے جسے ہم آئیڈیل کہہ سکتے ہیں ؟اور جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا میڈیا ان صوبوں کے دور دراز پڑنے والے علاقوں کے مسائل کو کور کرنے کی ضرورت بھی محسوس کر تا ہے ؟اس کا جواب تقریباََ نفی میں ہے ۔اب تو گلگت اور بلتستان کو بھی پاکستان میں شامل کیا جاچکا ہے کہ وہاں اب وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوتا ہے اور اسلام آباد گورنر بھی نا مزد کرکے وہاں بھیجا جا تا ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ،جب آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے ،گلگت بلتستان کو باقا عدہ شکل دی گئی ۔وادی کیلاش بھی پاکستان کا وہ دور دراز پڑنے والا اور محرومیوں کا شکار خطہ ہے جو ہمارے الیکٹر انک اور پرنٹ میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے ۔وہاں کیا سیاسی کھچڑی پک رہی ہے اور سماجی و مسلکی مسائل کتنے گمبیھر ہورہے ہیں ،ان کا ادراک واحساس کم کم کیا جا رہا ہے ؟ اور جب پانی سر سے گزر جاتاہے ،تب ہمارے حکمرانوں کو ہوش آتا ہے ۔
وادی کیلاش کی خواتین کن عذابوں سے گزر رہی ہیں ،ہماری این جی اوز بھی ان سے بے خبر ہیں اور عورتوں کی وہ تنظیمیں بھی جو اٹھتے بیٹھے خواتین کے حقوق کی باتیں کرتے ذرا تکان محسوس نہیں کرتیں ۔پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع تقر یباََ پانچ سو مربع کلو میٹر کو محیط یہ پرامن خطہ زمین ،وادی کیلاش ،خیبر پختو ن خوا کے ضلع چترال کے زیر نگیں ہے ۔
کوہ ِ ہند وکش کے پہاڑی سلسلوں میں گھر ایہ علاقہ صدیوں پرانی تہذیب وثقابت کا امین ہے ۔بلند پہاڑوں ،سر سبز وشاداب وادیوں ،گھنے جنگلات اور قدرتی آبشا روں و پہا ڑوں سے بہتے آبی چشموں کے ابدی گیت گاتے پانیوں میں گھر ایہ علاقہ لاکھوں کی آبادی کا مسکن نہیں ،وادی کیلاش کے لوگ محض ہزاروں کی تعداد میں بستے ہیں ۔اگر مختلف النوع مافیاز کی دست برد سے انہیں محفوظ نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ یہ کلچر بھی جلد معدوم ہوجائے گا اور کیلاش نسل بھی۔
کیلاش آبادی مسلسل کم ہورہی ہے ۔خصوصاََ کیلاش خواتین بڑے خطرات کی زد میں ہیں ۔جب کیلاش خواتین کی شادیاں قبیلے اور مذہب سے باہر ہو تی ہیں تو مبینہ طور پر ان کے مسائل اور مصائب میں سنگین اضافہ ہو جاتا ہے ۔کیلاش قبائل کو سب سے بڑا خطرہ ”کنو رشن “کا ہے ۔سر حد سے پار اور کیلاش علاقے سے متصل افغان صوبہ (نو ر ستان ) کی شدت پسند اور مسلح تنظیمیں جبر ،دباؤ اور دھمکیوں سے انہیں اپنے حلقہ اثر میں لینے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔
کیلاشیوں نے چونکہ کبھی کسی کے خلاف ہتھیا ر نہیں اٹھائے ہیں ،اس لئے ان کی مستندامن پسندی بھی ان کی ” دشمن “ بن گئی ہے ۔طالبان نے کئی غیر ملکی رضا کاروں کو اغوا بھی کیا اور مغو یان سے تاوان بھی وصول کیا ۔یو نان کے سیاحوں اور رضا کاروں کو اغوا ہونے کی وارداتوں کے بعد ،جو کیلاش میں مقا میوں کو سستے گھر تعمیر کرنے میں مدد فراہم کر رہے تھے ،سیاحوں میں خاصی کمی واقع ہوگئی ۔
اب مگر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی سخت کا رروائیوں او ر اقدامات کے بعد یہ وارداتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں ۔بارہ تیرہ سا ل قبل یونانی حکومت نے کیلاش میں ایک شاندار ”کیلاش کلچرل سنٹر “ بھی تعمیر کیا تھا ۔اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں ۔خواتین کو نجی زندگیوں میں جن مخصوص مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے ،ان کے حل کے لئے پورے کیلاش میں کوئی ایک بھی ڈھنگ کا ہسپتال ہے نہ کوئی ڈسپنسر ی ۔
پورا خطہ ہی بے یارومدد گاری کا ”شا ہکا“ہے ۔ایسے میں یہاں ٹورازم بڑھے تو کیونکر ؟کوئی ٹورسٹ صحت کے کے معاملے میں کسی مسئلے کاشکار ہوجائے تو دستگیری کے لئے کوئی ڈاکٹر یاطبیب میسر نہیں ہے ۔ان ہمت شکن مسائل کے باوصف کیلاش کا من،خوبصورت ماحول ،مقا می لوگوں کا سلوک اس قدد دلفریب اور دلر باہے کہ غیر ملکی سیاح ہر وقت اس پر فدا ہونے کو تیار رہتے ہیں ۔
سب سے بڑی مثال اس خاتون جاپانی سیاح کی دی جاتی ہے کہ جو یہاں آئیں تو سیر کے لئے تھیں لیکن کیلاش کے حسن وجمال نے اتنا متاثر کیاکہ پھر کبھی واپس نہ جاسکیں ۔ان کانام کو ری آنو ہے ۔وہ کئی برس قبل یہاں کیلاش میں سیر کی غرض سے آئیں ۔پھر یہاں کے ایک شریف آدمی سے شادی کی اور یہیں کی ہورہیں ۔کیلاش کلچر ،خطے اور لوگوں سے اُن کی بے مثال محبت کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔
چند جاپانی مردوں نے بھی یہاں شادیاں کی ہیں ۔پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی کئی لوگ کیلاش آئے ،یہاں شادیاں کیں اور کیلاش دلہنیں ساتھ لے گئے ۔یہ شادیاں مگر کامیاب نہ ہوسکیں جس کی وجہ سے کئی سماجی مسائل نے جنم لیا ۔کیلاش خواتین طلاق لے کر واپس اپنے گھروں کو آئیں تو ناراضی کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلاگیا ۔اب کسی بیرونی مرد کا کیلاش خواتین سے شادی کرنا اتنا آسان نہیں رہاہے ۔
خاصی سختیاں اور پابندیاں بروئے کار آچکی ہیں اور ان پابندیوں کو سراہاگیا ہے ۔چترال میں کئی ایسے رضا کار وجود میں آچکے ہیں جو ٹو لیوں کی شکل میں چترال اور آس پاس کے لاری اڈوں میں اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کوئی غیر چترالی کسی کیلاش خاتون کو اپنے ساتھ لے کر جاتو نہیں رہا؟کیلاش خواتین سے کسی باہر کے مرد کی شادی کوئی ممنوع امر تو نہیں ہے لیکن اب شادی کرنے کے لئے ”غیر وں “ کو تفیتش ، خاندانی ثبوت ،گواہ ،مستقل پتہ کے شواہد وغیرہ کڑے مراحل سے ضرور گزرنا پڑتا ہے ۔
چترال کے معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی اور جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ”کیلاشی اور چترالی خواتین سے باہرسے آنے والے مردوں کی شادیوں پر سخت اور قانونی پابندیاں تو نہیں ہیں لیکن سنگین مسائل اور شکایات کے پیش نظراب شرائط کاپورا کیاجانا ضروری بنادیاگیا ہے ۔ماضی قریب میں کیلاش خواتین سے باہر سے آنے والے مردوں نے شادیاں کرنا مذاق بنادیا تھا ۔
“کیلاش قبائل کے بزرگوں نے بھی ان نئی شرائط کوقبول بھی کر لیا ہے ،ان کی تحسین بھی کرتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کی متاہلا نہ زندگی کے لئے اسے نا گزیر بھی سمجھ رہے ہیں ۔رمبور ،بر مبرت ،بریڑ اور بالن گر وایسے کیلاشی وعلاقوں کا دورہ کرتے ہوئے آپ پر کھلتا ہے کہ کیلاش خواتین کو اپنے ہم قبائل مردوں سے شادی کرنے اور پھر انہیں طلاق دینے کی جتنی آزادیاں حاصل ہیں ،پاکستان کے دیگر علاقوں کی خواتین تو اس آزادی کاتصور بھی نہیں کر سکتیں ۔
کیلاش میں شادی بیاہ نہایت آسان ہے ۔کیلاش خواتین اپنی مرضی سے جس مرد سے چاہیں ،عزت اور احترام سے شادی کر سکتی ہیں۔والدین نہ تو ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ ہی اپنی بیٹیوں پر آمر بن کراپنی مرضی مسلط کرتے ہیں ۔کیلاش خواتین کو شادی کرنے کے معاملے میں جو بے پناہ آزادیاں حاصل ہیں ،باہر سے آنے والے مرد کئی برس تک اسی آزادی کا ناجائزہ فائدہ اُٹھاکر کیلاش خواتین کا استحصال کرتے رہے ہیں ۔
اب مگر یہ دروازہ تقریباََبند کر دیا گیا ہے ۔کیلاش خواتین میں سے کم ہیں جو اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہیں مگر ان میں بھی فنکار اور آر ٹسٹ ہیں ۔ان کے گیتوں کی باز گشت پاکستان بھر میں گونج رہی ہے اور ان کی منفرد تر ین کشیدہ کاری نے فن کے قدردانوں کے دلوں پر اپنا سکہ جما رکھا ہے ۔پاکستان کی کئی این جی اوز نے کیلاش خواتین کی کشیدہ کاری کے آرٹسٹک نمونوں کو پاکستان اور بیرون پاکستان متعارف کر وایا ہے اوراب یہ نمونے نہایت مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں ،اسلام آباد ان کا بنیادی مرکز ہے گلگت بلتستان کی طرح وادی کیلاش میں بھی محرومیوں اور زیادتیوں کی داستان لمبی ہے۔
اس کی ذمہ دارہماری ریاست بھی ہے اور پاکستان کی بعض مذہبی وسیاسی جماعتیں بھی ۔ان کے ازالے کی کوششیں مگر کم کم سامنے آرہی ہیں ۔ایسے میں پاکستان کی سلامتی کے دشمنوں کو بھی اپنا داؤلگانے اور پاکستان کے خلاف منفی پرو پیگنڈہ کرنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں ۔ہمارے ریاستی اداروں نے اگر ان کی طرف فوری اور سنجیدہ توجہ نہ دی تو خدشہ ہے کہ مقامی آبادی کی شکایتیں ملکی سرحدوں سے باہر چلی جائیں گی ۔
بگاڑ بڑھ جائے گا ۔پاکستان کے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر جلداز جلد حسین وادی کیلاش کی مانگ میں محرومیوں کی آگ بھرنے والوں کو بے نقاب کرکے محرومیوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو معاملات مزید بگڑ جائیں گے ۔وادی کیلاش کے نہایت پرامن اور شریف النفس باسیوں سے کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں جو تازہ ترین رپورٹ نیشنل کمیشن فارہیومن رائٹس پاکستان (این سی ایچ آر) سامنے لایا ہے ،اسے معمولی خیال نہیں کیا جانا چاہیے ۔
اس چشم کشار پورٹ کا مطالعہ کرنے والا ہر محب ِوطن پاکستانی کیلاش کے باسیوں کے بارے میں بجاطور پر تشویش میں مبتلا ہواہے ۔این سی ایچ آر کی طرف سے وادی کیلاش اور کیلاش آبادی کے بارے میں جاری کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ کو Protection Preservation and Promotion of Constitutional Rights of Indigenous Kalash Peopleکا عنوان دیاگیا ہے ۔یہ رپورٹ 28دسمبر 2017کو سامنے آئی ہے ۔نیشنل کمیشن فارہیومن رائٹس پاکستان کی بنیادیں پانچ سال پہلے،2012میں گئی تھیں ۔
کہا جاتا ہے کہ تب سے اب تک اپنی توعیت کی یہ منفرد ترین اور پہلی رپورٹ ہے ۔حکومت پاکستان اور اس کے متعلقہ اداروں کو فوری طور پراس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔این سی ایچ آر کادعویٰ ہے کہ اس کی ٹیم کے مختلف لوگوں نے کیلاش آبادی کے بزرگوں اور ذمہ دار ان سے براہ راست ملاقاتیں کرکے یہ رپورٹ مرتب کی ہے ؛چنانچہ ،رپورٹ کے مطابق ،یہ شکایات سامنے لائی گئی ہیں کہ کیلاش آبادی کومذہب تبدیل کرنے کی طرف مائل کیا جا رہاہے ۔
اس میں جبر کا عنصر بھی کار فرما ہے ۔یہ کوئی مستحسن فعل نہیں ہے ۔خصوصی طور پر نوٹ کیاگیا ہے کہ کیلاش خواتین کو شادیوں کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے :”کیلاشی لوگ بین السطور تسلیم کرتے ہیں کہ مقامی طور معاشی اور سیاسی حالات کچھ ایسی شکل میں ڈھال دئیے گئے ہیں کہ وہ اپنے مذہب اور کلچر کو خیر بادکہہ رہے ہیں ۔
“متذکرہ رپورٹ کے مطابق ،چترال میں مردوں کی شرح زندگی 73فیصد اور خواتین میں شرح خواندگی 44فیصد ہے ۔کیلاش بزرگوں کو تشویش کااظہار کرتے پایا گیا ہے کہ ان کی مقامی آبادیوں میں ایجوکیشن انفراسٹرکچر مطلوبہ ضرورتوں کو مطابق نہیں ہے ۔غربت اور عسرت اتنی زیادہ ہے کہ کیلاش بچے او بچیاں چترال شہر میں جاکر کالج کی تعلیم حاصل ہی نہیں کر سکتے ۔
کیلاشیوں کی اکثریت کا لج کے ہوسٹلوں کے اخراجات برداشت کرنے کی سرے سے سکت ہی نہیں رکھتی ۔اس پس منظر میں کیلاش لیڈ ر ز یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال کے کالجوں میں داخلے کے لئے کیلاش بچوں اور بچیوں کے لئے کوٹہ مخصوص کیاجائے اور یہ کہ چترال کالجوں کے ہوسٹلوں میں چند کمرے صرف کیلاش بچوں کے لئے مختص کئے جائیں تاکہ وہ اپنے نظریات اور کلچر کے مطابق رہ سکیں ۔
دیکھا جائے تو یہ مطالبات چنداں ضرررساں نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ایسے سخت ہیں کہ یہ پورے نہیں کئے جاسکتے ۔کیلاشیوں کی آبادی نہایت کم ہے ۔ان کے طالبعلم بھی کم تعداد میں ہیں ؛چنانچہ ان کا کوٹہ بھی زیادہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ہوسٹلوں میں ان کے لئے زیادہ تعداد میں کمرے مختص کرنا پڑیں گے ۔پاکستان کی بہتری اور کیلاش آبادی کو ملک سے ہم آہنگ بنانے کے لئے یہ مطالبات تسلیم کئے جاسکتے ہیں ۔
ضرورت بس جرات اور ہمت کی ہے ۔ساتھ ہی اس جذبے کی جو ملک کا مختلف حصوں میں بسنے والوں سے ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے ۔کیلاش کے لوگوں خصوصاََکیلاش کی خواتین میں احساسِ محرومی کے خاتمے کی فوری ضرورت ہے ۔تین ہزار سالہ قدیم تاریخ رکھنے والی کیلاش آبادی قدیم ہندوومذہب جیسے کسی مذہب کی پیر وکار ہے ،اپنے دیوتاؤں کی خوشبودی کی خاطر قر بانی دینا اُن کے ہاں مر کزی اہمیت رکھتا ہے ۔
وہ ایک مخصوص مگر شاندار کلچر بھی رکھتے ہیں اور منفرد زبان بھی بولتے ہیں ۔این سی ایچ آر کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق ،کیلاش بچوں کے حقوق کے لئے وضع کردہ اقوام متحدہ (یواین آرسی ) کے آرٹیکل 30کی خلاف ورزی ہے ۔اس آرٹیکل کے مطابق دنیا بھر کے بچوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ اُنہیں اُن کی مادری زبان ،کلچر اور مذہب کے مطابق تعلیم فراہم کی جائے ۔
کیلاش کمیونٹی کو اپنے ہاں زمینوں کے بارے میں فیصلے کرنے کے مسائل کا بھی سامنا ہے ۔اُنہیں یہ شکایت ہے کہ اُن کے تاریخی مقامات کی زمینوں کے بارے میں اگر کوئی فیصلہ درکار ہوتو اس کے لئے کوئی موٴ ثر ذریعہ دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی لینڈ ر یونیوڈیپار ٹمنٹ کے ذمہ داران اکثر وبیشتر متنا زع معاملات نمٹانے کے لئے کسی میٹنگ کا انعقاد کرتے نظر آتے ہیں ۔
کیلاش آبادی کا کہنا ہے کہ اُن کے آباؤ اجداد کی زمینوں کی جو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ،اُن کے حل کے لئے فوری طور پر قانون سازی کی جائے تا کہ تنازعات کا کامل خاتمہ کیا جاسکے ۔کیلاش قبائل کو جوشکایات ہیں ،اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُن کے صدیوں پرانے علاقوں کے نام زبردستی تبدیلی کئے جارہے ہیں ۔ان نئے نامو ں میں کیلاش کلچر اور مذہب کا نام ونشان مٹانے کی دانستہ کو ششیں بروئے کارہیں ۔
یہ شکایات بے جا بھی نہیں ہیں ۔بھارت موں متعصب ہندومقتدر جماعت ،بی جے پی ،سے ہم پاکستانی مسلمانوں کو شکایات ہیں کہ وہ ہندوستان میں اُن شہروں ،قبصات اور بازاروں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کر رہے ہیں جو مسلمانوں کے نام پر رکھے گئے ۔ایسی ہی کچھ شکایات کیلاش کے باسیوں کو مقتدر اور اکثریتی مسلمانوں سے ہیں ۔کیلاش چونکہ غیر مسلح اور ہمیشہ پُرامن رہے ہیں ،اس لئے وہ اپنے مذہبی ناموں کی جبراََاس تبدیلی پرصرف زبانی کلامی احتجاج ہی کر سکتے ہیں ۔
کیلاش کی وادیوں کے مشہور اورمنفرد جنگل بھی متنازع بنائے جارہے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے ایک مافیا نما گروہ کیلاش قبیلے کے افراد کو ان جنگلوں سے محروم کرنا چاہتا ہے ۔یہ جنگل ”سِلور اوک فاریسٹ“کہلاتے ہیں ۔ان میں صدیوں پرانی قیمتی لکڑی پائی جاتی ہے ۔یہ جنگل بھی وادی کیلاش کو باقی علاقوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی ان کا قدرتی کر دار اہم ترین ہے بگر کچھ لالچی قو تیں (ٹمبر مافیا)ان جنگلوں کے درپے ہیں ۔
تین صدیاں قبل اس علاقے کے حکمران (مہترِچترال) نے یہ جنگلوں کیلاش قبائل کے نام کردئیے تھے ۔اب ان جنگلات اور کیلاش قبائل کے خطر ے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔تشویش کی لہریں دوڑرہی ہیں ۔متذکرہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مقامی لینڈریونیو ذمہ داران نے کیلاش قبائل کو کہہ دیا ہے کہ یہ جنگلات تو ”شاملاٹ “ کا حصہ ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صدیوں سے وہ قبیلے جوان جنگلات پر حق ملکیت جتاتے چلے آرہے تھے ،اب یکا یک اس سے محروم ہونے والے ہیں ۔
او راگر وہ ان جنگلات سے مستفید ہونا چاہیں توکیلاش لو گوں کو اعلیٰ سطحی اجازت درکارہوگی ،اور بیورو کر یسی کا یہ چکر کیلاش قبیلے کے معصوم افراد کی سمجھ سے بالا ہے ۔رپورٹ میں تجویز کیاگیا ہے کہ مستقبل میں کسی بگاڑ سے بچنے کے لئے مناسب طریقہ یہ ہے کہ وادی کیلاش کے ان جنگلوں کے بارے میں کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے کیلاش قبائل کے حقوق متاثر نہ ہوں ۔
پاکستان پہلے ہی بہت سے علاقائی مسائل میں گھراہے ۔ان مسائل میں اضافہ کرنا عقلمندی نہیں ہوگی ۔پاکستان کے دشمن تو ویسے بھی پاکستان کے اندرونی مسائل میں اضافہ کرنے کی تاک میں ہیں ۔ایسے میں ایک نیا جھگڑا کھڑا کر دینا مناسب نہیں ہوگا ۔ویسے بھی پاکستانی آئین کاآرٹیکل 23ہر پاکستانی شہری کو اپنی ملکیتی زمیں رکھنے ،بیچنے اوراپنی جائیداد اپنی مرضی سے فروخت کرنے کا حق دیتا ہے ۔
یہ آئینی حق کیلاش قبائل کو بھی اپنی پوری روح کے مطابق ملنا چاہیے ۔وادی کیلاش کی سرزمین کو ”کافرستان “بھی کہاجاتا رہاہے ۔یہ ہمارے ملک کی منفر د ترین آبادی ہے ۔اس کا تحفظ عالمی ورثے کا حصہ بھی ہے اور ہماری بنیادی ذمہ داری بھی ۔ہمیں تو فخر کرنا چاہیے کہ پاکستان کے پاس ایک ایسا علاقہ او رایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی صدیوں پرانی ثقافت ،زبان ،ریت روایت ،انداز و اطوار اور مذہب کے اعتبار سے منفرد اورممتاز ترین حیثیت رکھتے ہیں ۔
یہ ہماری قومی ٹورزم کا ناگز یر حصہ بھی بن سکتے ہیں ۔وادی کیلاش کو اکثر یتی لوگوں کا مذہب اور زرتشت تو نہیں ہیں لیکن ماہرین ِمذہبیا ت کادعوی ٰ ہے کہ کیلاش لوگوں کے مذہب نے ہندوؤں اور زرتشتوں کے افکار او ر اندازِ عبادت پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔صدیاں گزرنے کے بعد آج ہندومذہب اور زرتشت جن شکلوں میں ہمارے سامنے ہیں ،ان کی بتداد راصل کیلاش قبائلی کے اسلوب عبادت سے منسلک ہے ۔
نیشنل کمیشن فارہیو من رائٹس پاکستان کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ہم نے ” یونیسکو“ سے درخواست کی ہے کہ کیلاش کلچر کے تحفظ کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں کہ یہ عالمی ورثے کے لئے ناگزیر ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خیبر پختون خواکی حکومت کے لئے بھی ضرور ی ہے کہ چونکہ کیلاش قبائل کے مسائل کا حل ان کی بنیادی وسر کاری ذمہ داریوں میں شامل ہے ،اس لئے آج وادی کیلاش جس طرح کے بحرانوں کا شکار ہے ،ا ن کا حل خیبر پختون خواحکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے ۔
اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ کیلاش آبادی کی زبان اور کلچر کو محفوظ رکھنے کے لئے کیلاش بچوں کو انہی کی زبان میں تعلیم فراہم کی جائے ؛چنانچہ کے پی کے حکومت کے محکمہ تعلیم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کیلاش بچوں کے لئے علیحدہ سے تعلیمی نصاب مرتب کرے ۔کیلاش آبادی اگر پاکستان کے قومی وجود کا حصہ ہے ،اور یقیناخوبصورت حصہ ہے،تو یہ اقدام کرتے ہوئے تا خیر نہیں کرنی چاہیے ۔کیلاش آبادی کی تمام شکایات کا ازالہ جلد از جلد ہونا چاہیے ۔تا خیر اور غفلت سے ہمیشہ اقوام اور ممالک کو ناقابلِ تلا فی نقصان پہنچا کرتا ہے ۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Pasand Ki Shadi Ka Haq Rakhti Hain" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.