Qudrat Ka Anmool Tohfa - Ankhain - Article No. 2273

Qudrat Ka Anmool Tohfa - Ankhain

قدرت کا انمول تحفہ”آنکھیں“ - تحریر نمبر 2273

آنکھیں ہمارے وجود اور ہماری شخصیت کا سب سے اہم اور حساس حصہ ہیں۔

جمعرات 30 جنوری 2020

آنکھیں ہمارے وجود اور ہماری شخصیت کا سب سے اہم اور حساس حصہ ہیں۔اسی لئے ہمیں آنکھوں کی طرف سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے اور ہر ممکن حد تک اس کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی عمر کے آخری حصے کی خوبصورتی اور اس دنیا کی دلکشی کا نظارہ کرسکیں۔
آنکھیں قدرت کا سب سے انمول تحفہ ہیں
ان آنکھوں کے بغیر دنیا کی ساری خوبصورتی بے رنگ اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس کے بغیر زندگی اندھے کنوئیں میں ایک گہرے سناٹے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اس کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی دیکھ بھال کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ہمارا خیال یہ ہوتاہے کہ اپنے حلقوں میں جمی ہوئی یہ آنکھیں پہلے ہی محفوظ ہیں اور ہمیں ان کی طرف دھیان دینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

یہ دن بھر معمول کے مطابق اپنا کام کرتی رہیں گی۔

چاہے ان کی طرف دھیان دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم میں موجود صحت مند آنکھ کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہے۔یہ خود ہی طویل عرصے تک کام کرتی رہیں گی۔مختصر یہ کہ ہمارا یہ خیال ہوتاہے کہ اگر فی الحال آنکھوں میں کوئی پر ابلم نہیں ہے تو پھر سب ٹھیک ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا لیکن ذرا یہ بھی تو دیکھیں کہ ہم آج کس ماحول اور کس انداز کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہم ہر قسم کے ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں۔ہم پر اپنی ذمہ داریوں کا اتنا وزن ہے کہ ہم ان کو پورا کرتے کرتے بے حال ہو جاتے ہیں۔ہمارے اعصاب شکستہ ہونے لگتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ تھکن ،اعصابی چڑچڑاپن اور ذہنی دباؤ ہماری آنکھوں کی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ان سب کا تعلق ہمارے ذہن اور دماغ سے ہے اور جب اس قسم کی صورت حال کا مسلسل سامنا ہوتو پھر آنکھوں کے لئے مستقل اور سنگین خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

آج کل مصنوعی روشنی میں ہمیں دن رات لکھنے اور پڑھنے کا کام کرنا پڑتاہے۔جن سے آنکھوں پر زور پڑتا رہتاہے۔آج کے بچوں کے سامنے کمپیوٹر کی دلچسپیاں ہوتی ہیں جن کی مہلک شعاعوں کے سامنے وہ کئی کئی گھنٹے آنکھیں پھاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ آنکھوں پر غیر ضروری دباؤ بڑھتا چلا جاتاہے۔
یہ اعصابی قوت برداشت ایک خاص حد میں ہوا کرتی ہے۔
لیکن ہم اپنی آنکھوں سے اس مقررہ حد سے زیادہ کام لیا کرتے ہیں،جس کا نتیجہ سوائے خرابی کے اور کچھ نہیں حاصل ہو سکتا۔یہ تفریق کل اور آج کل کی ہے۔ماڈرن معاشرے اور قدیم معاشرے کی ہے۔قدیم معاشرے میں انسان اپنی آنکھوں سے اتنا ہی کام لیا کرتا تھا جتنا اسے ضرورت ہوتی ۔شکار کو دیکھنے کا کام۔لیکن آج کا انسان دن رات اپنی آنکھوں کو بے دردی سے کام میں لاتا رہتاہے۔
بلکہ شہروں اور دیہاتوں میں بھی فرق ہے۔دیہاتوں کے لوگ اپنی آنکھوں سے اتنا کام نہیں لیتے جتنا شہروں کے لوگ لیا کرتے ہیں۔
آج کل دنیا بہت مختصر ہو گئی ہے۔ہر طرح کے ذرائع ابلاغ سامنے آئے ہیں۔آج کا انسان دنیا کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اپنی آنکھوں سے اسی سے نوے فیصد تک کام لیا کرتاہے جیسے اخبارات کا مطالعہ کرنا،باریک چھپائی کو پڑھنا،ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر خبریں دیکھنا وغیرہ۔
ہم اس روشنی میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں جو مصنوعی ہوا کرتی ہے۔یعنی بلب کی روشنی۔اور یہ کام بھی ہم ایک دو گھنٹوں کے لئے نہیں کرتے بلکہ ہمارے وقت کا زیادہ تر حصہ اسی میں صرف ہو جاتاہے۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Qudrat Ka Anmool Tohfa - Ankhain" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.