Sath Nahi De Sakte To Baatein Bhi Na Banaiye - Article No. 3364

Sath Nahi De Sakte To Baatein Bhi Na Banaiye

ساتھ نہیں دے سکتے تو باتیں بھی نہ بنائیے - تحریر نمبر 3364

ماں بننا اور اس کی ذمہ داریاں نبھانا یقینا کسی بھی چیلنج سے کم نہیں

منگل 25 فروری 2025

ڈاکٹر ثوبیہ خان
ماں بننا اور اس کی ذمہ داریاں نبھانا یقینا کسی بھی چیلنج سے کم نہیں، جب کہ نوکری کرنا ایک دوسرے قسم کا چیلنج اورمشکل کام ہے، لیکن ایک عورت جب یہ دونوں ذمہ داریاں ایک ساتھ اٹھا رہی ہو تو پھر اس کو کیا کہیں گے؟ بہ حیثیت ورکنگ وومن میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں اور اس کی تصدیق بھی کر سکتی ہوں کہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ بھی بہت زیادہ ہیں۔
ان میں بچوں کو ڈے کیئر میں چھوڑنے کے ”احساس جرم“ سے لے کر روز مرہ کے کاموں اور معمولاتِ زندگی میں توازن برقرار رکھنے کی جدوجہد کرنا، سماجی توقعات پر پورا اترنا اور پھر دقیانوسی رسم و رواج کے ساتھ ذہنی دباؤ اور جسمانی صحت پر اثرات تک بہت سے مسائل اور چیلنج شامل ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن بحیثیت ایک فرد، ایک خاندان اور معاشرہ کیا ہم چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ان خواتین کے ساتھ کوئی تعاون کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو یہ اعتماد دیتے ہیں کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد اپنی جاب کو جاری رکھتے ہوئے جیسے خاندان کی مالی معاونت کر رہی ہے ویسے ہی ان کے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں خاندان ان کی معاونت کرے گا؟
ہم بہ حیثیت فرد خاندان یا معاشرہ تو دور، عورت ہی عورت کو یہ تعاون فراہم کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

اگر کوئی خاتون کسی مجبوری کے تحت اپنے نومولود یا چھوٹے بچے کو اپنے ساتھ دفتر یا اپنے کام کی جگہ پر لے جائے، تو ان کے باس اور دیگر ہم پیشہ ساتھی باتیں بنانا یا مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ بھی عجیب امر ہے کہ اس میں سب سے پہلے مسائل ہی ہماری خواتین کولیگز کو ہوتے ہیں۔ورک پلیس پر ڈے کیئرز کا نہ ہونا اور پھر کسی مجبوری یا مشکل وقت میں یا بچوں سے جڑے معاملات پر باقی کولیگز، بالخصوص خواتین ساتھیوں کا سپورٹ نہ کرنا کسی المیے سے کم نہیں۔
ورک پلیس پر ہمارا بچے کو ساتھ لانا تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ہماری بحث ڈے کیئر سینٹرز کو بہتر بنانے اور کام کرنے والی خواتین کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے ہونی چاہیے۔
منفی باتیں اور پروپیگنڈا کر کے ”ورکنگ مومز“ کے لئے ان کی جابز اور پیشوں کو ان کے لئے احساسِ ندامت اور ذہنی کوفت بنانے کے بجائے ان کے لئے بہتر سوچنے، ان کے کردار کو سراہنے، اور ان کے کام کرنے کے لئے سازگار حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، مہنگائی کے اس دور میں جب کہ خواتین گھروں کو معاشی طور پر سپورٹ کر رہی ہیں، وہاں ان کو سپورٹ کرنے ان کی اخلاقی اور سماجی مدد کرنے کے بجائے ان کو کولیگز کی طرف سے جاب چھوڑنے اور گھر بیٹھ کر بچوں کی اچھی تربیت اور پرورش جیسے مشورے بھی دیئے جاتے ہیں۔
جابز اور کام کرنے والی خواتین کو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ملازمت کرتی ہو اور اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز چھوڑتی ہو، تم تو اچھی ماں نہیں ہو، ایسے میں خواتین کیسے زندگی میں کچھ مثبت اور اچھا کرنے کی ہمت کرتی ہیں۔
اس معاملے پر ہم صرف ورکنگ مومز کو ہی کیوں الزام دیتے ہیں۔بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا کردار ہوتا ہے۔میرے خیال میں اس معاملے کو مثبت نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ورکنگ مدرز کے کام کو منفی انداز میں دیکھا اور بتایا جائے۔اس بات سے کسی کو کوئی غرض یا مطلب نہیں کہ ورکنگ مومز اپنے خاندان کے لئے کتنا ذہنی، نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی دباؤ برداشت کر رہی ہے۔
ان سے صرف امیدیں لگا لی جاتی ہیں اور میرے خیال میں یہ امیدیں خود ورکنگ مومز اپنے آپ سے زیادہ لگا لیتی ہیں جس کا اختتام اس احساس جرم پر ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی درست سمت میں پرورش نہیں کر رہے یا ان کو مناسب وقت نہیں دے پا رہے۔
ورکنگ مومز کے ساتھ ان کے بچوں کو دیکھ کر ناک بھوں اور تیور چڑھانے سے بہتر ہو گا کہ ان سے دور رہیں۔اگر ان کی اخلاقی مدد نہیں کر سکتے، تو ان کو فضول قسم کے مشورے دینے سے گریز کریں۔
ایک ورکنگ مدر کتنی محنت سے اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے اس کا اندازہ لگانا معاشرے کے ان افراد کے لئے مشکل ہے جو انفرادی ذمہ داری بھی احسن طور پر پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں یا ان تجربات سے کبھی نہ گزرے ہوں۔اگر جابز کرنے والی خواتین کی ہمت اور حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو آپ کو ان کی حوصلہ شکنی کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔اگر آپ ان کے لئے آسانیاں پیدا نہیں کر سکتے تو باتیں بنا کر، دوسروں کو ورغلا کر ان کے مسائل میں اضافہ بھی نہ کریں۔

ورکنگ مومز کو بھی میرا یہ ہی مشورہ ہے کہ یہ نہ صرف خود پھر بھروسہ رکھیں، بلکہ حوصلہ شکنی کرنے والے محرکات سے دور رہیں۔یہ سب سے زیادہ فائدہ مند تجربات میں سے ایک ہے یہ چیلنجوں اور کامیابیوں سے بھرا ہوا سفر ہے، اور یہ ہر جگہ خواتین کی طاقت اور عزم کا ثبوت ہے۔اپنا سر ہمیشہ فخر سے بلند رکھیں اور گھر ہو یا ورک پلیس کبھی بھی کسی سے مدد مانگنے سے نہ گھبرائیں یہ آپ کا معاشرے پر حق ہے۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Sath Nahi De Sakte To Baatein Bhi Na Banaiye" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.