Taqabul E Adiyan Main Aurat Ka Muqaam - Article No. 2367

Taqabul E Adiyan Main Aurat Ka Muqaam

تقابل ادیان میں عورت کا مقام - تحریر نمبر 2367

عورت اس کائنات کا حسن ہے۔ قوانین اسلام نے عورتوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اس کا صحیح اندازہ ہمیں اس وقت ہوگا، جب ہم دیگر ادیان میں مقام عورت پر آگاہی حاصل کریں اور پھر اسلام نے انہیں جو حقوق دیے ہیں، سے تقابل کریں

Noor Hussain Afzal نور حسین افضل ہفتہ 13 جون 2020

عورت اس کائنات کا حسن ہے۔ قوانین اسلام نے عورتوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اس کا صحیح اندازہ ہمیں اس وقت ہوگا، جب ہم دیگر ادیان میں مقام عورت پر آگاہی حاصل کریں اور پھر اسلام نے انہیں جو حقوق دیے ہیں، سے تقابل کریں۔ پہلے ہلکی سی جھلک غیراسلامی نظام و قوانین کی، جو صنفِ نازک کے بارے میں دنیا بھر میں رائج ہیں۔
1) رومن لاء :
ہم یہاں سب سے پہلے رومن لاء کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
اس لاء میں کنبہ کے سربراہ کو کنبہ کے بقیہ افراد پر خواہ وہ بیوی ہو یا بہو، بیٹے بیٹی ہوں یا پوتے پوتی، خرید و فروخت کرنے، ہر طرح کی ایذائیں دینے حتیٰ کہ قتل کرنے کا اختیار تھا، نیز بیوی کو ترکہ سے محروم رکھنے کا بھی اسے حق حاصل تھا۔ لڑکیاں حق ملکیت نہیں رکھتی تھیں اور اپنے باپ کے ترکہ سے بھی محروم ہوتی تھی ۔

(جاری ہے)

دیکھیے (الترکة والمیراث فی الاسلام ص ۴۰ از ڈاکٹر محمد یوسف مصری المطبعة المعرفة)
2)یونانی قانون:
یونانی قانون میں عورت شادی سے قبل سرپرست کے اور شادی کے بعد شوہر کے پنجہ استبداد میں رہتی، وہ نہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتی تھی نہ جان میں۔

باپ اپنی بیٹی کو فروخت کرتا تھا، اور ہونے والا شوہر اسے خریدتا تھا۔ اس کے بعد اس کے شوہر کو پورا اختیار ہوتا تھا کہ اسے چاہے اپنی زوجیت میں رکھے یا کسی اور کو سونپ دے۔ (محمد حریة الزوجین، ص ۲۷ از ڈاکٹر عبدالرحمن صابونی)
3) مسیحی مذہب:
اس بارے میں غیر عیسائیوں نے نہیں، خود عیسائی میں جو تفصیلات بتائی ہیں، وہ عبرت کے لیے کافی ہیں۔
مثلا ایک عیسائی انگریز فلسفی ہربرٹ سپنسر کہتا ہے ”گیارہویں اور پندرہویں صدی (بعثت محمد کے کوئی آٹھ سو سال بعد تک) انگلستان میں عام طور پر بیویاں فروخت کی جاتی تھیں۔ عیسائی مذہبی عدالتوں نے ایک قانون کو رواج دیا جس میں شوہر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی، دوسرے شخص کو جتنی مدت کے لیے چاہے عاریة بھی دے سکتا ہے۔ (المرآة بین الفقہ و القانون ص ۲۱۱)
اور تو اور سولہویں صدی (۱۵۶۰ء) میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ایک ہزار سال بعد اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا تھا کہ عورت کو کسی بھی چیز پر ملکیت کا حق حاصل نہیں ہوگا اور ان سب سے زیادہ تعجب خیز انگلستان کی پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس میں عورت کے لیے انجیل پڑھنا حرام قرار دیا۔
(المرآة بین الفقہ و القانون ص ۲۱۱)
4) یہودی مذہب:
موجودہ یہودی مذہب (جو ظاہر ہے کہ محرف مشکل میں ہے) میں عورتیں ترکہ کا استحقاق قطعاً نہیں رکھتی تھیں، چاہے بیوی ہو، بیٹی ہو، ماں ہو یا بہن، البتہ بڑا لڑکا چھوٹے کے مقابلے میں دوہرا حصہ اپنے باپ کے ترکہ میں سے پاتا۔ (الترکة والمیراث ص ۱۴)
5) ہندو دھرم:
ہم سب سے پہلے (Encyclopedia of Religion and Etaies) کے حوالہ سے ہندو مت میں عورت کے حقوق وغیرہ کے بارے میں جو ملتا ہے، اس کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔
سمرتی (ہندو مذہب کی معتبر کتاب) میں آٹھ قسم کی شادیوں کو تسلیم کیا گیا ہے، ان میں ایک قسم کا نام ”اسورا“ ہے۔ یہ طریقہ جنگجو اور پچھلی ذات کے لوگوں میں رائج تھا، جس میں عورت کو خریدا جاتا تھا۔ اسی طرح ّ(نکاح کی) ایک قسم کا نام ”راکشش“ ہے، جس میں عورت پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا تھا۔ (انسائیکلو پیڈیا ج ۸، ص ۴۵۱۔۴۵۲)
ہندو مذہب میں شادی (دواہ) کے علاوہ بھی ایک اور عقد جائز تسلیم کیا گیا، جسے ”نیوگ“ کہتے ہیں۔
اس میں شادی شدہ عورت سے بھی دوسرا شخص کچھ مدت کے لیے نکاح کرسکتاہے اس طریقے سے پیدا ہونے والی اولاد اصلی شوہر کی ہی سمجھی جاتی ہے اور دوسرے قسم کا یہ نکاح (نیوگ) دس مردوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سوامی دیانند سرسوتی کی لیکچروں کا مجموعہ (”اپدیش منجری“ ص ۱۰۷، از سوامی دیانند سرسوتی، شائع کردہ سیکریٹری آریہ منڈل کیرانہ ضلع مظفر نگر)
6) اسلام نے خواتین کو کیا دیا؟
اب آپ دیکھیں کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے اور اس کے لیے کیسی کیسی شرعی قوانین میں رعایتیں دی گئی ہیں۔
عورت کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: عاشرو ھن بالمعروف ( عورتوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو) اور حدیث میں فرمایا استو صوابالنساء خیراً (عورتوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے میں میری صلاح مانو) بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ عورتوں سے اگر کوئی تکلیف بھی پہنچے تو یہ خیال کرکے کہ ان میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں، درگزر کر دو۔
ایک حدیث میں اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا و خیارکم خیارکم لنسائھم“ (ترمذی جلد: ۱ ص ۱۳۸)
”ایمان کامل اس شخص کا ہے جو خوش اخلاقی میں ممتاز ہو اور تم سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو ۔“
1)عورتوں کے اخراجات:
عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے، اس کے ساتھ عزت و احترام کا بلکہ دلجوئی کا معاملہ کرنے کا حکم اس کی صنفی نزاکت کے لحاظ اور رعایت کی بناء پر ہی ہے کیونکہ نازک چیز کی رعایت ہوتی ہے۔
ایک حدیث صحیح میں انہیں قواریر (آبگینہ) فرما کر ان کی نزاکت کا اعتراف کیا گیا ہے۔
اس بنیاد پر اسے کسب معاش کی مشقتوں سے بچایا گیا۔ اور اس کا نفقہ کسی نہ کسی مرد کے ذمہ کر دیا گیا۔ شادی سے قبل والد پر، والد نہ ہونے یا اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لائق نہ ہونے کی صورت میں حسب اصول وراثت دادا، چچا، بھائیوں وغیرہ پر، شادی کے بعد شوہر پر، شوہر سے علیحدگی کی شکل میں عدت کے درمیان کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ، شیرخوار بچہ کی موجودگی میں عدت کے بعد بھی جب تک بچہ ماں کا دودھ پیتا رہے، ان کے اخراجات شوہر کے ذمہ لازم ہیں۔

2)عورت کے اختیارات:
عورت بالغ ہونے کے بعد مرد ہی کی طرح اپنے جان و مال، نکاح، مالی لین دین وغیرہ کے بارے میں قانون شریعت کے لحاظ سے پوری طرح مختار ہوتی ہے۔ اپنے مال کی پوری طرح مالک ہوتی ہے۔ جس طرح مرد، کہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے خرچ کرے۔
3) عورت کا ترکہ میں شرعی استحقاق:
دنیا کی کسی بھی مذہب، ملک اور قوم نے عورت کو ترکہ کا مستحق قرار نہیں دیا، لیکن دین اسلام نے بالکل مرد ہی کی طرح عورت کو بھی ترکہ کا مستحق بنایا ہے اور اس بارے میں صنف، عمر اور نمبر کا فرق بھی نہیں کیا (مثلاً پہلی ہی اولاد کو ترکہ ملتا یا نرینہ کو ہی ملتا، بقیہ کو نہ ملتا) کیونکہ جب سب استحقاق میں اولاد میں برابر ہیں، تو اس کی بنیاد پر ملنے والے حق میں فرق کیوں ہو۔

4) اسلام کا نظام وراثت:
اس نظام کی رو سے عورتوں میں ماں، بیٹی، بیوی کسی حال میں ترقی سے محروم نہیں رہ سکتیں۔ ان کے علاوہ بہت سی صورتوں میں پوتی، دادی، نانی، بہن (ان کی تینوں قسمیں حقیقی، علاتی، اخیافی) بلکہ بعض صورتوں میں پھوپھی نواسی بھی ترکہ پانے کی مستحق ہوتی ہیں۔ (سراجی: میراث کی مشہور کتاب)
وہ خواتین خوش قسمت ہیں، جنہوں نے آنکھ مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی اور وہ خواتین زیادہ دادوتحسین کی مستحق ہیں، جو بعد میں حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ مذہب اسلام ہی وہ واحد دین ہے، جو عورتوں کا محافظ اور ان کے حقوق کا صحیح علمبردار بھی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Taqabul E Adiyan Main Aurat Ka Muqaam" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.