Bachon Ki Tarbiyat - Article No. 3299

Bachon Ki Tarbiyat

بچوں کی تربیت - تحریر نمبر 3299

والدین کو چاہیے کہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، انھیں توجہ دیں، اپنی قربت اور دوستی کا احساس دلائیں، ان کے دوست بنیں، تاکہ بچے اپنی سرگرمیاں اور مصروفیات ماں یا باپ سے بیان کر سکیں

جمعرات 15 اگست 2024

اسد جمال زادہ
خالقِ کائنات کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے بچے نہ صرف ایک خوبصورت و حسین نعمت، اَن مول تحفہ اور اس کی امانت ہیں، جن کی پرورش، تعلیم و تربیت اور حفاظت کی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔بچے نرم و نازک کلیوں اور غنچوں کی مانند معصوم ہوتے ہیں۔ان کے ذہن کورے کاغذ کی طرح سادہ اور صاف ہوتے ہیں۔
یہ جو دیکھتے، سُنتے ہیں، وہی سیکھتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے ایک ٹیپ ریکارڈر میں جو بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے، سنا بھی وہی جاتا ہے۔ایسا نہیں ہوتا کہ ہم المیہ ساز ریکارڈ کر کے طربیہ سننے کی خواہش کریں۔اس لئے بچے کی جس انداز سے تربیت کریں گے، اُس کی شخصیت میں بھی وہی انداز نظر آئے گا۔
ایک بچے کے جنم لینے کے ساتھ ہی اُس کی تربیت کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے، لہٰذا اس سفر کی شروعات بہتر اور خوشگوار ماحول میں کریں۔

(جاری ہے)

یاد رکھیے، بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے، اس کے اثرات لازماً مرتب ہوتے ہیں۔اس ہی لئے والدین کے رویے، کردار اور اخلاق میں سچائی اور دیانت جیسے مثبت اوصاف ضروری ہیں۔اگر والدین بلند آواز میں بات کرتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، آپس میں یا کسی دوسرے پر لعن طعن کرتے ہیں یا نازیبا کلمات ادا کرتے ہیں، تو یہ سب بچے کے ذہن کے کورے کاغذ پر ثبت ہو رہا ہوتا ہے اور وہ مستقبل میں یہ سب دہرانے کے لئے خود کو تیار کر رہا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس اگر والدین شائستہ گفتگو کرتے ہیں، تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہیں، عدم برداشت کا شکار نہیں ہوتے، ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا، تو بچہ بھی یہی سب سیکھتا ہے۔والدین کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو عزت و احترام دینا بھی ضروری ہے۔اگر مشترکہ نظام میں رہتے ہیں، تو اپنے بڑوں، چھوٹوں سے آدابِ گفتگو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بات چیت کریں، تاکہ بچے بھی اس بات کا خیال رکھیں۔
اُٹھنے بیٹھنے کا قرینہ سکھائیں، انہیں صحت مند رہنے کے طور طریقے بتائیں۔پھر اپنے بچوں کو اچھی اور بُری چیزوں اور باتوں میں فرق سمجھائیں، بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا کریں۔قرآن و سنت کی تعلیم دینی امور کے ماہر اساتذہ سے دلوائیں۔
بچے جوں جوں شعور سنبھالتے ہیں، والدین کو چاہیے کہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، انھیں توجہ دیں، اپنی قربت اور دوستی کا احساس دلائیں، ان کے دوست بنیں، تاکہ بچے اپنی سرگرمیاں اور مصروفیات ماں یا باپ سے بیان کر سکیں۔
اکثر بچے کھیلتے ہوئے کھلونے یا گھر کی چیزیں بکھیرتے یا پھیلاتے ہیں، تو ان پر غصہ کرنے، چیخنے چلانے یا ڈانٹنے کے بجائے انہیں صبر و تحمل اور پیار سے سمیٹنا سکھائیں۔ بچوں کو ہمیشہ چیزیں مخصوص جگہ پر رکھنے کا عادی بنایا جائے، لیکن اس کے لئے پہلے والدین کو خود چیزوں کو ان کی مخصوص جگہ پر رکھنے کا عادی بننا ہو گا۔جیسے جیسے بچے شعور کے درجے طے کرتے جائیں، ان سے ہر وہ کام کروائیں، جو وہ کر سکتے ہیں۔
یاد رہے، اپنا کام خود کرنے سے بچوں کا اپنی ذات پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔کبھی بھی بچوں کو ڈرا کر یا خوف زدہ کر کے کوئی کام نہ کروایا جائے۔مثلاً جلدی سو جاؤ، ورنہ جن یا بھوت آ جائے گا، بلی یا کتا آ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ایسے جملے بچوں کو خوف کا شکار کر سکتے ہیں۔اسی طرح بچوں کو کسی چیز کا لالچ بھی نہیں دینا چاہیے، جیسے یہ کام کر لو، ہم آپ کو نیا کھلونا دیں گے یا گھومانے لے کر چلیں گے وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے مکالمات بچوں میں لالچ کا عنصر پیدا کرتے ہیں اور پھر لالچ کے نتیجے میں بچے ضد پکڑ لیتے ہیں، جب ان کی ضد پوری نہیں کی جاتی، تو وہ رو کر، چیخ چلا کر والدین کو بلیک میل کرتے ہیں۔اور اگر والدین ان کی ضد پوری کر دیتے ہیں، تو یہ چیز مستقبل میں کئی مشکلات کا باعث بنتی ہے۔نرمی، پیار اور محبت بچوں کا حق ہے، مگر بے جا لاڈ پیار انہیں بگاڑ کی طرف لے جاتا ہے۔
ٹیوشن سینٹر یا اسکول بھیج کر یہ سمجھ لینا کہ وہ ہی ان کی تعلیم و تربیت کے ذمے دار ہیں، تو ایسا سوچنا غلط ہے۔تربیت کے اصل ذمے دار والدین ہی ہیں۔اکثر والدین بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون پکڑا کر بے خبر ہو جاتے ہیں، جو درست نہیں۔والدین کو یہ علم ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ موبائل فون کیوں اور کس لئے استعمال کر رہا ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، کام کرنے کے دوران انھیں اپنے ساتھ مصروف رکھیں اور ان کے ساتھ کھیلیں بھی۔
اس طرح بچے موبائل فون کم سے کم استعمال کریں گے۔
بچے جوان بھی ہو جائیں، تو بھی والدین کی ذمے داری ختم نہیں ہوتی۔چاہے بیٹی ہو یا بیٹا دونوں ہی کو ایک نئے خاندان کی داغ بیل ڈالنی ہوتی ہے اور زندگی کے اس موڑ پر بھی انہیں والدین کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لئے دینِ اسلام نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی اور باپ کو جنت کا دروازہ کہا، لہٰذا رب کی طرف سے عطا کیے رتبوں کو خوش اسلوبی سے نبھانا فرضِ اولین ہے۔

Browse More Myths About Parenthood - Bachon Ki Parwarish Aur Ghalat Nazriat

Special Myths About Parenthood - Bachon Ki Parwarish Aur Ghalat Nazriat article for women, read "Bachon Ki Tarbiyat" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.