Bachy K Isllahi Tariky - Article No. 1673
بچے کے اصلاحی طریقے - تحریر نمبر 1673
آج کل بچوں کی اصلاح کا جو طریق رائج ہے،وہ جسمانی سزا کا ہے،بچے کی کسی غلطی پر اسے سزا دی جاتی ہیں،تاکہ وہ آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کرے جسمانی سزا کی بنیاد اصل میں خوف کی نفسیات پر ہے
پیر 20 نومبر 2017
بچہ ماحول سرشت اور موروثی خصوصیات پرمنحصرایک معصوم سی ہستی ہیں جو درست تربیت پر قوم کی مصلح اور لیڈر بھی بن سکتی ہیں اور اس پر فقدان پر معاشرے کے لیے ایک خطرہ ایک مسئلہ بھی،گھروں میں اور سکول کے ماحول میں آج کل بچوں کی اصلاح کا جو طریق رائج ہے،وہ جسمانی سزا کا ہے،بچے کی کسی غلطی پر اسے سزا دی جاتی ہیں،تاکہ وہ آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کرے جسمانی سزا کی بنیاد اصل میں خوف کی نفسیات پر ہے یعنی یہ خیال کہ تکلیف کے ڈر سے بچہ غلط کام سے رک جائے گا لیکن یہ تصور آج کل کچھ درست ثابت نہیں ہورہا بلکہ دیکھا یہ گیاہے کہ جسمانی سے سزا سے بچہ کچھ اور بھی باغی اور سرکش ہوجاتے ہیں جسمانی سزا بچے کے لیے بدترین سزا ہے،ماں یا استاد بچے کو یہ سزا دے کر نہ صرف ان کے پھولوں سے نازک جسموں پر ایذا دیتے اور پامال کرتے ہیں بلکہ خود اپنی عاجزی اور مجبوری کا بھی کھلے بندوں اعلان کرتے ہیں کہ وہ بچے میں نیک و بد کی امتیازی حس پیدا کرنے میں ناکا م رہے ہیں ا وربچے کوگستاخی کی اِن آخری حدود تک لے آئے ہیں جہاں اس کے نرم و نازک محسوسات کرخت اور منجمد ہوچکے ہیں۔
(جاری ہے)
بچے کی جذباتی نشوونما: بچے سے متعلق والدین ،استاد اور معاشرے کی جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں ان میں شاید سب سے اہم بچے کی جذباتی نشوونما ہے آج کل معاشرے میں جو اضطراب و انتشار ہے وہ سب عدم طمانیت ک باعث ہے۔اور یہ عدم طمانیت فرد کے معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث پیدا ہوتا ہے بچہ قوم کی امانت ہیں اس کی صحیح تربیت کرکے ہم ایک قوم کی تربیت کرتے ہیں کیونکہ یہی بچہ کل بڑا ہوکر معاشرے اور پھر قوم کی تشکیل کریں گے۔
اردگرد کے لوگوں سے بچوں کے روابط: بچے کا جن ہستیوں سے قریبی تعلق ہوتا ہے ان میں ماں باپ،دادا دادی،اور بہن بھائی شامل ہیں،ہمارے یہاں کے بیشتر گھرانوں میں مشترک خاندان کا رواج ہے اور ایسے گھرانوں میں دادا دادی ایک مخصوص حیثیت رکھتے ہیں بچے کی مذہبی تعلیم کی طرف ابتدا ہی سے توجہ دی جانی چاہیے اور دادا دادی کا یہ مقدس اور خوش گوار فرض ہونا چاہیے کہ وہ بچے کو ابتدائی عمر ہی سے دین و مذہب کے بنیادی اصول سمجھائیں،دینی تعلیم سے بے بہرہ و نا آشنا بچے خود اپنی ذات سے بھی بیگانہ رہتے ہیں اور عمر بھر خود کو غیر محفوظ سا تصور کرتے ہیں مذہب ہمیں پناہ کا احساس دیتا ہے مرکزیت کا تصور دیتا ہے اس لیے وہ بچے جن کو ابتدا میں دین و مذہب کی تعلیم دی جاتی ہیں عام طور پر بڑے ٹھوس کردار کے مالک ثابت ہوتے ہیں۔ماں باپ دادا دادی اور گھر کے دیگر لوگوں کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ بچے کا ذہن جذباتی رسہ کشی کا شکار نہ ہو آپس میں اگر کبھی کوئی تلخی یا شکر رنجی ہوجائے تو باہمی تنازعات کا اثر بچوں پر نہ پڑنے دینا چاہیے بچوں میں احساس محرومی ہمیشہ پیار میں کمی کے باعث پیدا ہوتا ہے بچے کو بلا تخصیص ان تمام لوگوں کا پیار ملنا چاہیے جنہیں وہ چاہتا ہے یا جو اسے عزیز رکھتے ہیں تند بھاوج،ساس بہو اور دیورانی جٹھانی کے جھگڑوں کا بچوں تک نہیں پہنچنا چاہیے بزرگوں کا فرض ہے کہ گھر میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رکھیں آپس کے نفاق کا بہت ناخوش گوار اثر بچوں پر پڑتا ہے،بڑے بھائی بہنوں کو بھی بچے کے ساتھ نرم اور پیار کا رویہ رکھنا چاہیے اور کسی معاملے میں اس کی حق تلفی نہ کرنی چاہیے ،بڑے بھائی بہنوں کو بچے کے لیے ہر معاملے میں رواداری اور فراخ دلی رکھنی چاہیے۔
Browse More Myths About Parenthood - Bachon Ki Parwarish Aur Ghalat Nazriat
بچوں کا غصیلا رویہ اور بد مزاجی
Bachon Ka Ghuseela Rawaya Aur Bad Mizaji
بچے کی نشوونما میں کمی
Bache Ki Nashonuma Mein Kami
صحت مند عادات
Sehat Mand Aadaat
بچوں سے کسے پیار نہیں
Bachon Se Kise Pyar Nahi
بچوں کو موبائل سے بچائیں
Bachon Ko Mobile Se Bachayen
موسمِ سرما میں شیر خوار کا خیال رکھیں
Mausam E Sarma Mein Sher Khawar Ka Khayal Rakhain
اچھی تربیت کے لئے بچوں کا مزاج جانیے
Achi Tarbiyat Ke Liye Bachon Ka Mizaj Janiye
بچے اور غذائی حساسیت
Bache Aur Ghizai Hasasiyat
پُرسکون نیند بچوں کی نشوونما کے لئے ضروری ہے
Pursakoon Neend Bachon Ki Nashonuma Ke Liye Zaroori Hai
بچوں کو ذہین بنانے کے آسان مشورے
Bachon Ko Zaheen Banane Ke Aasan Mashwaray
بچوں میں بگاڑ کیوں
Bachon Mein Bigaar Kiyon
صحت مند مسکراتے بچے
Sehat Mand Muskurate Bachay