Bachon Ka Khaufzadah Hona Inhen Nafsiati Mareez Bana Sakta Hai - Article No. 2027

Bachon Ka Khaufzadah Hona Inhen Nafsiati Mareez Bana Sakta Hai

بچوں کا خوفزدہ ہونا انہیں نفسیاتی مریض بنا سکتاہے؟ - تحریر نمبر 2027

بچپن کے دور میں بچے کے ذہن پر کسی بات کاخوف مسلط ہو جائے تو پھر عموماً اس کی ساری زندگی اس خوف میں ہی بسر ہوتی ہے

جمعہ 5 اپریل 2019

بچپن کے دور میں بچے کے ذہن پر کسی بات کاخوف مسلط ہو جائے تو پھر عموماً اس کی ساری زندگی اس خوف میں ہی بسر ہوتی ہے ۔خوف کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی کے ہر موڑ پر ذرا ذراسی بات پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
بچوں کی تربیت میں یہ نکتہ پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ خوف زدہ بچے بڑے ہو کر کئی قسم کے نفسیاتی مسائل اور خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔

بچوں کو مناسب آزادی اور اچھا ماحول فراہم کرنا والدین کا اولین فرض ہے ۔بچوں کو کچھ اختیارات بھی دیں تاکہ وہ انہیں استعمال کرکے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرسکیں ۔صحت مند تربیت سے بچوں میں ڈراؤ نے خواب دیکھنے کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے اور بچے بستر میں پیشاب بھی نہیں کرتے۔
بعض بچے بہت زیادہ حساس یا ڈر پوک ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ذراسی بات یا غلطی پر ان کے ذہن خوف سے بوجھل ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کے وہم اور خدشے ان کے دل میں پیدا ہونے لگتے ہیں ۔

بچوں سے اکثر اوقات پیسے کھو جاتے ہیں یا کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے تو ماں باپ بہت زیادہ مارپیٹ کرتے ہیں ۔یہ رویہ بچے کو کسی بھی وقت بہت زیادہ خوف زدہ کر سکتا ہے ۔والدین کا رویہ ہمدردانہ اور شفقت بھرا ہونا چاہیے لیکن بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ وہ خود سری میں مبتلا بھی ہو سکتا ہے۔
والدین اور بڑوں کا تھوڑا بہت خوف بچے کے دل میں ضروری ہے تاکہ وہ بے راہ روی اور غلط قسم کی حرکتوں کا مرتکب نہ ہو سکے۔
لیکن والدین کی تربیت کا انداز کچھ اس طرح کا ہو کہ بچہ خوش،بے باک اور الجھنوں سے پاک زندگی بسر کر سکے۔
بچہ اگر کسی خوف میں مبتلا ہو گیا ہوتو اس کا علاج کچھ مشکل نہیں ۔بچے کو کھیل کا سامان اور موزوں ساتھی تلاش کرنے میں مدد دیجیے اس کے جائز تقاضوں کا احترام کیجیے۔
آرام دو ماحول اور پر مسرت فضاء میں پلنے والے بچوں کو ڈراؤ نے خواب کم دکھائی دیتے ہیں ۔
وہ بات بات پر لوگوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے نہ ہی والدین کی مارپیٹ یا پابندیوں کے خوف سے گھروں سے بھاگتے ہیں ۔گھروں سے بھاگنے والے بچے اکثر خوف اور تشدد کے تحت ایسا کرتے ہیں یوں ذرا ساخوف ان کی ساری زندگی کو تباہ کردیتا ہے اور اسے معاشرے میں بھی عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
بسا اوقات بچے کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ گھر اور مدرسے کے ماحول میں بندھا ہواہے۔

جب یہ صورتحال پیدا ہو جائے تو محرومیت اور خوف کا احساس اس کے ذہن کو خوف میں مبتلا رکھتا ہے اور مایوسی بھراماحول اس کی شخصیت کی مناسب نشوونما کو بہت متاثر کرتا ہے۔بے جاپا بندیوں کے باعث انہیں یہ سہولیت میسر نہیں آتی کہ وہ آزادی سے کھیل سکیں ۔قدم قدم پر ان کو یہ دھڑ کالگارہتا ہے کہ اگر یہ کھیل کھیلا تو والد ین کی جھڑکیاں کھانی پڑیں گی ۔
کچھ بچے بزرگوں کے سخت رویے کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔مثلاً بعض بچوں کو نیند میں بڑ بڑانے کا مرض لاحق ہو جاتا ہے یا وہ ڈراؤ نے خواب دیکھنے لگتے ہیں ۔کچھ بچوں کا پیشاب بستر پر خطا ہو جاتا ہے ۔بچوں کو اس تشویشناک صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ محبت شفقت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور نہ ہی اس قسم کا رویہ اختیار کریں جس سے بچہ خوف زدہ رہے۔

والدین کے باہمی جھگڑے بھی بچوں میں خوف پیدا کرتے ہیں کیونکہ ہر وقت مارپیٹ چیخ وپکار ،بچے کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیتی ہے ۔ایسے بچے کی کئی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ پاتیں ۔گھر میں لڑائی جھگڑے کے ماحول میں پلنے والے بعض بچوں کے ذہن میں دوسروں پر عدم اعتماد ،نفرت یا بدلہ لینے کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ۔جب کبھی بھی اس کو موقع ملے گا وہ اپنی نفرت کا اظہار خواہ وہ باپ کے رویے سے ہو یاماں کے ،منفی طریقہ اختیار کرکے کرے گا۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے جھگڑے کا اظہار توڑ پھوڑ ،برتوں کا پھینکنا بچوں کے سامنے بالکل نہ کریں ۔اس طرح خوف بچے کے ذہن پر بری طرح مسلط ہو جاتاہے اور وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔
خوف زدہ بچہ ذہنی امراض میں مبتلا بھی ہو سکتا ہے ۔ناخواندگی کے باعث مائیں بچوں کو باپ کی سخت عادت یا جن بھوت کی باتیں کرکے خوف زدہ کرتی رہتی ہیں ۔ابتدائی پانچ سالوں میں بچے کو خوف وہراس کے ماحول سے دور رکھیں۔

چھوٹی عمر میں بچے عام طور پر خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ تین برس کی عمر تک بچے کی جذباتی زندگی کی بنیادیں تقریباً مکمل طور پر مضبوط ہو جاتی ہیں ۔اس عمر تک والدین جس انداز میں چاہیں بچے کو ڈھال لیں ۔یہ وہ عمر ہے کہ اگر والدین چاہیں تو بچے کو متوازن شخصیت والے نڈربالغ کی صورت پروان چڑھالیں ،یا ایک ایسا غصیلا وہمی اور بزدل نوجوان بنالیں جس کی تمام زندگی طرح طرح کے خوف اور ڈر سے بھری ہو۔

عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام بچوں کی نفسیات پر ایک تحقیق کی گئی۔اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ خیال انگیز زندگی میں کھلبلی مچانے والے واقعات بچوں کو بچپن میں بے پناہ نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی آئندہ زندگی میں بھی مسرت ،مطابقت ،توازن اور کامیابی کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں۔
بچوں کوبے جاخوف سے نجات دلانا ابتدائی تربیت کا اہم پہلو ہے۔

والدین کے غلط رویوں کے باعث کئی خوف بچے کے دل میں گھر کر لیتے ہیں ۔جیسا کہ عموماً گھروں میں والدین بچے کو منع کرنے کی غرض سے کہہ دیتے ہیں کہ خبر دار ایسا کیا تو جن پکڑ لے گا۔ایسے طریقوں سے بچے کے ذہن میں ڈر خوف بلا وجہ گھر کر جاتا ہے ۔بعض اوقات بچے کھیلتے کھیلتے کسی ایسی چیز کو پکڑ لیتے ہیں جس کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو کچھ گھروں میں ایک دم چیخ مار کر بچے کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور خوفناک چیخ کے باعث وہ چیز خود بخود گرکرٹوٹ جاتی ہے ۔
جس سے بچہ مزید خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ماں یہ کام پیار اور آہستہ لہجے میں بھی کر سکتی ہے،تاکہ بچہ ٹوٹنے والی چیز کو دوبارہ نہ چھوئے۔اکثر مائیں کسی عام سی بات پر ناراض ہو کر بچے کو بری طرح مارتی ہیں ۔اس طرح بچے کو جسمانی تکلیف ہوتی ہے اوربچے اس قسم کی تکلیفوں سے بہت گھبراتے ہیں ۔ماں کو یہ سوچ کر سکون تو آجاتا ہے کہ بچہ اس پٹائی سے خوف کھانے لگا ہے ،مگر اس کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس طرح بچے کی جذباتی زندگی بگڑ کر رہ جاتی ہے ۔
بچوں کے بیشتر خوف اسی طرح کی ننھی ننھی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔
گھر کے دیگر افراد اور نوکروں کو یہ ہدایت کرنا چاہیے کہ وہ بچے کو جن ،بھوت ،چڑیل وغیرہ سے نہ تو دھمکیاں دیں ،نہ ہی کچھ بتائیں ۔اس سے ان میں خوف کے علاوہ تو ہمانہ ذہنیت کی بنیاد پڑ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
خوف کے باعث اکثر کئی ذہنی بیماریوں بھی جنم لیتی ہیں ۔بچپن کے خوف بالغ زندگی میں دیوانگی کی
صورت میں بھی نمودار ہوتے ہیں ۔
بچوں کو کسی حد تک تنبیہہ ضرور ڈرائیے،کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ بعض ایسے خوف ہیں جن کا بچوں میں موجود ہونا لازمی ہے ۔مثلاً نقصان دینے والے مشاغل اور ضرور رساں اشیاء پربے سوچے سمجھے ہاتھ ڈال دینے کے خوف مفید ہوتے ہیں ۔بجلی کے تاروں ،ریڈیو ،ٹی وی کے سوئچ وغیرہ کو چھونا۔زہریلے جانور کی غلاظت سے دور رہنا ضروری ہے ۔ان تمام باتوں کو آسان فہم زبان میں بچوں کو سمجھایا جائے کہ ان کو چھونا نہیں چاہیے۔اس قسم کی تربیت سے بچوں میں صحیح حالت سمجھنے کی فراست پیدا ہو جاتی ہے اور وہ فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ کس خطرے سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

Browse More Child Care & Baby Care Articles

Special Child Care & Baby Care Articles article for women, read "Bachon Ka Khaufzadah Hona Inhen Nafsiati Mareez Bana Sakta Hai" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.