Parveen Shakir - Article No. 1240

پروین شاکر - تحریر نمبر 1240
اردو شاعری میں مرد کو محبوب بنانے والی پہلی خاتون شاعرہ جس نے ادب برائے ادب کے تحت فطری جذبات کی عکاسی کی
پیر 6 جولائی 2015
اردو شاعری میں مرد کو محبوب بنانے والی پہلی خاتون شاعرہ جس نے ادب برائے ادب کے تحت فطری جذبات کی عکاسی کی ۔وہ شاعرہٴ حسن تھی۔ نہ صرف خود بہت خوبصورت تھی بلکہ اس کی شاعری بھی نہایت حسین تھی۔ اپن نوجوانی میں اس نے شہرت حاصل کی اور شہرت کے عروج پر انتقال کر کے ادبی دنیا میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گی۔
پروین شاکر 1953 میں کراچی میں پیدا ہوئی اور کراچی میں ہی ابتدائی وثانوی تعلیم حاصل کی۔ کالج میں اس کی ملاقات ادبی لوگوں سے رہی اور پھر وہ مشہور شاعر صہبا اختر سے رہنمائی لینے لگی۔اس کے بعد احمد ندیم قاسمی بھی اس کے ادبی سر پرستوں میں رہے۔
1976 میں اس کا پہلا مجموعہ کلام”خوشبو“ مارکیٹ میں آیا تو اس نے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی۔
پروین شاکر کی شاعری کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے کلام پر کسی بھی شاعر یا شاعری کی چھاپ نہیں تھی۔
اس نے اپنے جذبات کو لفظوں کاپیرا ہن دیا اور لوگوں نے اس جامہ زیبی کی خوب تحسین کی۔ 1977 میں وہ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہوکر کسٹم افسر بن گئی۔پروین شاکر نے کئی شادیاں کیں لیکن سب ناکام رہیں۔ اس کے شائقین کو اس کے محبوب کی تلاش رہی کہ آخر وہ کون ہے؟ اس سلسلے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن وہ نام ہنوز اندھیرے میں ہے۔اس کی غزل:
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
مہدی حسن نے گائی تو برصغیر میں بے اندازہ سنی گئی۔اس کی شہرت خوشبو کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس کو ہاورڈ یونیورسٹی نے اردو پڑھانے کیلئے دو سال کے کانٹریکٹ پہ سائن کیا اور دو سال تک اس نے امریکہ میں اردو پڑھائی۔
خوشبو کے بعد اس کی کئی کتابیں مارکیٹ میں آئی لیکن کوئی بھی کتاب خوشبو کے جیسی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے دیگر مجموعوں میں صدبرگ اور خود کلامی اہم ہیں۔ان کتابوں میں اس کی شاعری میں وہی الہڑپن تھا جو کہ اس نے خوشبو میں ظاہر کیا۔ خوشبو میں اس کی شاعری ایک نوخیز دوشیزہ کی شاعری ہے جس میں کچے رنگوں سے بنی ایک لڑکی اپنے محبوب کو پکارتی سراپا سپردگی کا سوال بنی دکھائی دیتی ہے۔
طوفاں ہے تو کیاغم، آواز تو دیجئے!
کیا بھول گئے میرے کچے گھرے وہ !
اس کے علاوہ اس کی دیگر غزلوں نے ملک بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ وہ مشاعروں کی جان تھی۔ اپنی وفات تک اس نے بے شمار مشاعروں میں شرکت کی۔
29 دسمبر1994ء کی اسلام آباد میں وہ اپنی کار میں گھر سے دفتر کی جانب جا رہی تھی کہ کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ شدید زخموں کی تاب نہ لا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اس کی وفات سے پہلے اس کی شاعری کی کلیات”ماہِ تمام“ کے نام سے مارکیٹ میں آئیں اور جس طرح چاند اپنے عروج پر پہنچ کر مدہم ہو جاتا ہے۔جس طرح پھول مختصر مدت میں اپنی خوشبو پھیلا کر مرجھا جاتا ہے اسی طرح پروین شاکر بھی مختصر مدت میں اپنی شاعری کی کوشبو چہار سو پھیلا کر رخصت ہو گئی۔
پروین شاکر 1953 میں کراچی میں پیدا ہوئی اور کراچی میں ہی ابتدائی وثانوی تعلیم حاصل کی۔ کالج میں اس کی ملاقات ادبی لوگوں سے رہی اور پھر وہ مشہور شاعر صہبا اختر سے رہنمائی لینے لگی۔اس کے بعد احمد ندیم قاسمی بھی اس کے ادبی سر پرستوں میں رہے۔
1976 میں اس کا پہلا مجموعہ کلام”خوشبو“ مارکیٹ میں آیا تو اس نے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی۔
پروین شاکر کی شاعری کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے کلام پر کسی بھی شاعر یا شاعری کی چھاپ نہیں تھی۔
(جاری ہے)
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
مہدی حسن نے گائی تو برصغیر میں بے اندازہ سنی گئی۔اس کی شہرت خوشبو کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس کو ہاورڈ یونیورسٹی نے اردو پڑھانے کیلئے دو سال کے کانٹریکٹ پہ سائن کیا اور دو سال تک اس نے امریکہ میں اردو پڑھائی۔
خوشبو کے بعد اس کی کئی کتابیں مارکیٹ میں آئی لیکن کوئی بھی کتاب خوشبو کے جیسی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے دیگر مجموعوں میں صدبرگ اور خود کلامی اہم ہیں۔ان کتابوں میں اس کی شاعری میں وہی الہڑپن تھا جو کہ اس نے خوشبو میں ظاہر کیا۔ خوشبو میں اس کی شاعری ایک نوخیز دوشیزہ کی شاعری ہے جس میں کچے رنگوں سے بنی ایک لڑکی اپنے محبوب کو پکارتی سراپا سپردگی کا سوال بنی دکھائی دیتی ہے۔
طوفاں ہے تو کیاغم، آواز تو دیجئے!
کیا بھول گئے میرے کچے گھرے وہ !
اس کے علاوہ اس کی دیگر غزلوں نے ملک بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ وہ مشاعروں کی جان تھی۔ اپنی وفات تک اس نے بے شمار مشاعروں میں شرکت کی۔
29 دسمبر1994ء کی اسلام آباد میں وہ اپنی کار میں گھر سے دفتر کی جانب جا رہی تھی کہ کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ شدید زخموں کی تاب نہ لا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اس کی وفات سے پہلے اس کی شاعری کی کلیات”ماہِ تمام“ کے نام سے مارکیٹ میں آئیں اور جس طرح چاند اپنے عروج پر پہنچ کر مدہم ہو جاتا ہے۔جس طرح پھول مختصر مدت میں اپنی خوشبو پھیلا کر مرجھا جاتا ہے اسی طرح پروین شاکر بھی مختصر مدت میں اپنی شاعری کی کوشبو چہار سو پھیلا کر رخصت ہو گئی۔
Browse More Famous Literary Women

ٹانی ماریسن
Taini Morrison

روتھ پرائر جھب والا
Ruth Prawer Jhabvala

ہیلن کیلر
Helen Keller

انیتا ڈیسائی
Anita Desai

خالدہ ادیب خانم
Khalida Adeeb Khanam

بی بی لیلیٰ خانم
Bi Bi Laila Khanam

سلمہ لیگر لوف
Selma Lagerlof

حبہ خاتون
Habba Khatoon

اینا مولکا احمد
Anna Molka Ahmed

خیرالنساء بہتر
Khair Ul Nisa Bahtar

خدیجہ مستور
Khadijah Mastoor

پادشاہ خاتون
Padshah Khatoon
Special Famous Literary Women article for women, read "Parveen Shakir" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.
Child CareBeauty
MakeupHairsBaalon Ki BleachingChehraJildJild Ki BleachingKhoobsoorti Kay Naye AndazDulhan Ka MakeupMassageShampooWarzishNails
VideosIslam Aur AuratGharelu TotkayArticles100 Naamwar KhawateenKhanwada E RasoolQaroon E AulaaAzeem MaainAzeem BeevianFun O AdabQayadat O SayadatFlaah E Aama O KhasKhailRang O AahangBadnaseeb Khawateen
Ghar Ki AaraishRehnuma E KhareedariIbtedai Tibbi ImdadBaghbaniMarried LifeMehndi Ky Designs