Dandruff - BalooN K Liye Aik Azab - Article No. 2478

Dandruff - BalooN K Liye Aik Azab

ڈینڈرف بالوں کے لئے ایک عذاب - تحریر نمبر 2478

ہیئر اسپرے‘جیل (Gel)‘ الیکٹرک کرلرز اور بالوں کو رنگے جانے والی اشیاء کا نامناسب استعمال ڈینڈرف پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے

جمعرات 3 دسمبر 2020

یاسمین عبدالعزیز
ڈینڈرف یا خشکی سر میں پیدا ہونے والی ایک عام بیماری ہے۔اسے عام طور پر ایک طرح کا انفیکشن بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘لیکن اسے صرف انفیکشن ہی سمجھنا درست نہیں ہو گا۔اس عام بیماری کی روک تھام کے لئے گھریلو نسخے بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ ایلو پیتھک اور یونانی نسخے بھی۔ڈینڈرف ایک ایسی بیماری ہے جس سے انسان کو اکثر و بیشتر شرمندگی سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔
جب آپ کو اپنے شانوں پر بھوسی جیسے چھلکوں کا چھڑکاؤ نظر آتا ہے‘یاسر میں بار بار کھجلی محسوس ہوتی ہے تو آپ خود کو سماجی طور پر پریشان محسوس کرتی ہیں‘کیونکہ کسی بھی محفل میں اطمینان سے بیٹھنا آپ کے لئے دشوار ہو جاتا ہے۔ڈینڈرف ایک ایسی بیماری ہے جس سے تقریباً ہر شخص کو ہی کسی نہ کسی وقت‘ اپنی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں سابقہ پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ ڈینڈرف سر کی تکلیف کی ایک ایسی شکل ہے جس سے ساری دنیا کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔اٹھارہ سال کی عمر سے زیادہ کے تمام مردوں اور عورتوں کی بیس فیصدی تعداد ڈینڈرف میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس میں سے پانچ فیصدی اس کے شدید حملے کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے سروں سے بے تحاشہ بھوسی جھڑتی ہے۔ان کے شانوں اور قمیض کے کالروں میں ننھے ننھے سفید چھلکوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
بعض لوگوں کے لئے یہ ایک ایسا مسئلہ ہوتا ہے جس سے وہ برسوں سے نبرد آزما ہوتے چلے آرہے ہیں جبکہ بعض لوگوں کے سروں میں یہ بیماری وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی رہتی ہے۔
حال ہی میں اے۔سی۔نیلسن کی جانب سے ہیڈز اینڈ شولڈرز کے تعاون سے تھائی لینڈ‘انڈونیشیا‘ملائیشیا اور ہندوستان کے لئے ایک اسٹڈی کی گئی۔اس کا عرصہ چھ ماہ سے زیادہ پر محیط تھا۔
اس اسٹڈی میں سترہ سے تیس سال تک کی عمر کی پانچ سو عورتوں اور دو سو پچاس مردوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔اس اسٹڈی کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ ہر دو ہندوستانیوں میں سے ایک‘گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈینڈرف میں مبتلا رہا۔خواتین اپنے سر کی اس تکلیف کو ایک عذاب سمجھتی ہیں اور اس سے بہت زیادہ پریشان رہتی ہیں۔ان کے لئے یہ بال گرنے کی شکایت سے زیادہ پریشان کن صورت حال ہوتی ہے‘جبکہ مرد اسے بال گرنے کی تکلیف کے بعد دوسری سب سے بڑی تکلیف قرار دیتے ہیں۔
عورتوں کی آدھی سے زیادہ تعداد (چھپن فیصدی) اور مردوں کی ایک تہائی سے زیادہ تعداد (اڑتیس فیصدی) نے جنس مخالف کے ان افراد کو اپنے لئے کم پرکشش پایا جو ڈینڈرف میں مبتلا تھے۔تقریباً تمام عورتوں (ترانوے فیصدی) اور تمام مردوں (اسی فیصدے) نے ایسے کسی بھی شخص کے قریب جانے‘یا اس کے جسم یا بالوں کو چھونے سے گریز کیا جو ڈینڈرف کا شکار تھا۔

اب تک اس بات کا قطعیت کے ساتھ علم نہیں ہو سکا ہے کہ ڈینڈرف کے پیدا ہونے کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟تاہم اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ ایک پریشان کن اور بہت عام بیماری ہے۔مردہ خلیوں کا جھڑتے رہنا اور ان کی جگہ نئے خلیوں کا پیدا ہوتے رہنا ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل جاری رہتا ہے اور یہ عمل انسان کے پورے جسم میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔لیکن اگر اس توازن میں کوئی بگاڑ پیدا ہو جائے تو اس کے نتیجے میں بھوسی جیسے سفید چھلکے بننے لگتے ہیں جو ڈینڈرف کہلاتے ہیں۔
اگرچہ اس عمل کے اسباب تو واضح نہیں ہیں‘تاہم فیملی ہسٹری‘دباؤ اور غذا‘یہ ساری چیزیں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتی ہیں۔جلدی امراض کے ماہرین کی اس بارے میں یہی رائے ہے۔ ڈینڈرف کے سلسلے میں ہمارے ذہنوں میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔اکثر اوقات اسے ”خشک سر کی بیماری“ کہا جاتا ہے۔لیکن اس بیماری کو سر کی خشک جلد کے ساتھ منسوب کرنا سراسر غلط ہے۔
فی الحقیقت‘معاملہ اس کے برعکس ہے۔دراصل روغنی کھوپڑیوں میں ڈینڈرف جلد اور آسانی سے پیدا ہوتا ہے۔ڈینڈرف کے شکار لوگ اس بیماری کو پریشان کن محسوس کرتے ہیں‘لیکن پریشانی اس مسئلے کو اور زیادہ سنگین بنا دیتی ہے۔
خشکی کے باعث ڈینڈرف میں جو اضافہ ہوتا ہے تو اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ڈینڈرف موسمی ہوتا ہے۔سردیوں میں ڈینڈرف کی موجودگی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔
Sebaceous glands ایک دہرا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ hypersecretion کے نتیجے میں روغنی چھلکے پیدا ہوتے ہیں اور hypersecretion خشک چھلکوں کو جنم دیتا ہے۔ہم سب لوگ ہی ڈینڈرف کا شکار ہوتے ہیں‘لیکن بیشتر اوقات میں یہ اس طرح کنٹرول میں رہتا ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ قابو سے باہر ہونے لگتا ہے اور کھوپڑی پر سفید سفید دھبے نمودار ہونے لگتے ہیں۔
اس وقت جلدی امراض کے ماہرین اس کو Seborrheic dermatitis کا نام دیتے ہیں۔Seborrheic کا مطلب ہے sebaceous glands سے تعلق اور dermatitis کا مطلب ہے جلد کی سوزش۔اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سر میں مستقل طور پر کھجلی ہوتی رہتی ہے۔
تحقیق سے اس میں pityrosporum ovale کی شمولیت کا پتہ چلتا ہے۔یہ ایک ایسا lipophilic فنگس ہے جو کہ نارمل سروں میں بھی موجود رہتا ہے۔لیکن تحقیق کنندگان کے درمیان اس فنگس کے کردار کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتاہے۔
ایک مکتب فکر کا خیال یہ ہے کہ فنگل(فنگس کا)انفیکشن بھی ڈینڈرف کا سبب ہے‘جبکہ دوسرے مکتب فکر کا خیال ہے کہ فی الحقیقت چھلکوں کا جمع ہو جانا ہی فنگس کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ڈینڈرف کے ساتھ جو کھجلی وابستہ ہوتی ہے وہ سوزش کی وجہ سے ہوتی ہے۔جیسے جیسے بال کمزور ہوتے جاتے ہیں‘ویسے ویسے ان کی تعدادمیں کمی ہوتی جاتی ہے اور سنگین صورتوں میں اس کا نتیجہ گنجے پن کی شکل میں بھی نمودار ہو سکتا ہے۔
جلدی امراض کے ماہر ڈاکٹر شفیق حسین زیدی کا کہنا ہے کہ ڈینڈرف دراصل جلد کے چھلکے اترنے کا عمل ہے۔”ایک عام کھوپڑی میں اندازاً ہر مربع سینٹی میٹر میں تقریباً تین ہزار سات سو خلئے موجود ہوتے ہیں‘لیکن ڈینڈرف والی کھوپڑی میں ان کی تعداد پچیس ہزار تک جا پہنچتی ہے اور ان لوگوں میں تو یہ تعداد 76 ہزار تک ہو جاتی ہے جو Seborrheic dermatitis کا شکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر زیدی کا کہنا ہے کہ ”دیکھا گیا ہے کہ ڈینڈرف کے عروج کے دوا دوار ہوتے ہیں۔پانچ اور دس سال کے درمیان اور پھر دس اور بیس سال کے دوران۔ان دونوں مرحلوں کے دوران Sebaceous glands سب سے زیادہ فعال ہوتے ہیں۔دوسرے مرحلے میں یہ چیز زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس دوران بہت ساری ہارمونل تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔“
کیا کوئی ایسی چیزیں موجود ہیں جو ڈینڈرف کو فروغ دیتی ہیں؟جی ہاں‘ہیں۔
جلدی امراض کے ماہرین اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چیزوں کا ذکر کرتے ہیں:
ہےئر اسپرے اور جیل (Gel) کا بہت زیادہ استعمال۔
بالوں کو رنگنے والی اشیاء کا نامناسب استعمال۔
الیکٹرک ہیئر کرلرز (Curlers) کا بہت زیادہ استعمال۔
سرد موسم اور گھر کے اندر خشک ہیٹنگ (heating)۔
سر پر منڈ جانے والی ٹوپیاں اور اسکارف۔
شیمپو کرنے میں یا بالوں کو ملنے میں بے احتیاطی۔

اگرچہ ڈینڈرف کے بہت سے ایسے علاج موجود ہیں جو کہ بہت موٴثر بھی ہیں‘لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے‘کیونکہ آپ خواہ کتنی ہی توجہ اور محنت کے ساتھ اس کا علاج کیوں نہ کریں اور وقتی طور پر اس پر کتنا ہی قابو کیوں نہ پالیں‘یہ مسئلہ بار بار ابھر کر آپ کو پریشان کرتا رہے گا۔ایسا کیوں ہوتا ہے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں‘کسی نہ کسی شکل میں آپ اپنے آپ کو ری انفیکشن کا شکار بنا لیتی ہیں۔
جب ڈینڈرف کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے تو پھر علاج اور ری انفیکشن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔علاج کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
اپنے بالوں کے برش اور کنگھوں کو روزانہ دھوئیے۔
اگر ممکن ہو سکے تو تکیے کے غلاف کو روزانہ بدل دیجئے۔انہیں پانی میں ابال کر دھونا چاہئے اور اس وقت تک ابالنا چاہئے جب تک ڈینڈرف پر قابو نہ پا لیا جائے۔

چونکہ ڈینڈرف اور کیل مہاسوں کے درمیان ایک تعلق موجود ہوتا ہے‘اس لئے اگر آپ ان دونوں تکالیف میں بیک وقت مبتلا ہیں‘تو اس کے لئے آپ کو چاہئے کہ اپنے تولیے اور منہ پونچھنے کے کپڑے کو روزانہ تبدیل کریں اور انہیں ابال کر دھویا کریں۔
صابن‘کاسمیٹکس‘الکحل یا جسم پر منڈھے ہوئے جدید وضع کے لباس کا زیادہ استعمال بھی فنگس کی پیداوار کو اسی طرح بڑھاوا دے سکتا ہے جس طرح نمی‘پسینہ‘ہارمونل تبدیلیاں یا دباؤ فنگس کی پیداوار کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر شفیق زیدی کا کہنا ہے کہ ڈینڈرف پر روز اول سے ہی قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس غرض سے بعض اینٹی ڈینڈرف شیمپوز کا استعمال کیا جانا چاہئے۔اگر اس کے باوجود بھی ڈینڈرف موجود رہے اور آپ کی تکلیف میں کوئی افاقہ نہ ہوتو جلدی امراض کے کسی ماہر سے رجوع کیجئے۔وہ اینٹی فنگل دواؤں کی شکل میں آپ کو کھانے والی یا لگانے والی دوا دے گا۔

جلدی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے جس کی مدد سے مردہ کھال کے جھڑنے کے عمل کو روکا جا سکے۔لیکن اگر سر کا مساج کیا جائے اور اس کے بعد برش کرکے یا بالوں کو دھو کر چھلکوں کو نکال دیا جائے تو اس چیز کو نظروں سے پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے۔
ڈینڈرف کے ایلو پیتھک دواؤں کے ذریعے علاج میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہوتی ہیں۔

سیلینم سلفیٹ سسپینشن:سیلینم خلیاتی پھیلاؤ کو روکتا ہے اور خمیری عضویوں کو ہلاک کرتا ہے۔یہ لوشن کی شکل میں عام طور پر دستیاب ہے۔
زنک پائی ری تھیون (زیڈ پی ٹی):یہ وہ پہلا سائنسی بنیاد پر استوار نامیاتی معالجاتی مادہ ہے جس کے ذریعے ڈینڈرف میں کمی کی جا سکتی ہے ۔ یہ دھلائی کے بعد مسلسل معالجاتی اثر کا حامل ہے۔
کولتار شیمپوز بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ڈینڈرف شیمپو کے موٴثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اسے دو تین منٹ تک بالوں میں لگا رہنا چاہئے۔اگر آپ کو صحیح علاج فوری طور پر دستیاب نہیں ہوتا تو بھی آپ اپنی کوششوں کو ترک مت کیجئے۔کیونکہ جو چیز کسی ایک شخص کے لئے بہت زیادہ موٴثر ثابت ہو سکتی ہے‘قطعی ضروری نہیں ہے کہ وہ دوسرے شخص کے لئے بھی اتنی ہی زیادہ موٴثر ثابت ہو۔
آیورودیک طریقہ علاج میں ڈینڈرف کو ”روسی“ (Roosi) کہتے ہیں جو پسینے اور sebaceous glands سے نکلنے والی رطوبت کے جمع ہونے کے باعث پیدا ہوتا ہے۔
ڈینڈرف متاثرہ حصوں میں تیل کی کمی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔نیز یہ دیگر غذا بخش اجزاء کی کمی کے باعث بھی پیدا ہوتا ہے‘جیسے ایسے کنگھوں کے استعمال سے جو ڈینڈرف پیدا ہو سکتا ہے جو پہلے سے انفیکشن کا شکار ہوں۔اگرچہ سر دھونے کے بعد تیل لگانا ضروری ہے‘تاہم فیشن کے دلدادہ بہت سے لوگ سر کو دھونے سے پہلے اس میں تیل لگاتے ہیں۔جلدی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بالوں میں تیل رات کے وقت لگایا جائے۔
ڈینڈرف کے آیورودیک طریقہ علاج میں یہ چیزیں شامل ہیں:
براہمی یا آنولہ‘اس میں وٹامن سی بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
ناریل کا تیل(سوزش کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے)
تلوں کا تیل جلد سے متعلق ہر تکلیف میں فائدہ پہنچاتا ہے۔
آملہ‘سکاکائی اور ریٹھوں کو ساری رات بھگو کر رکھئے اور پھر اسے سر پر لگائیے۔یہ عمدہ کنڈیشنر کا کام دیتے ہیں اور سر کو صاف کرتے ہیں۔
ڈینڈرف کے علاج کے لئے کچھ گھریلو نسخے بھی موجود ہیں:
اپنے سر پر تھوڑا کیسٹر آئل ملئے۔پانچ منٹ تک انتظار کیجئے اس کے بعد سر کو اچھی طرح سے دھو لیجئے۔
دو بڑے چمچے میتھی دانے کو پانی میں ساری رات بھگو کر رکھئے۔ صبح کو میتھی دانوں کو پیس کر ان کا لیپ بنا لیجئے اور اسے اپنے سر پر اچھی طرح مل لیجئے۔ایک گھنٹے تک اسے لگا رہنے دیجئے۔
اس کے بعد سکا کائی یا کسی ہلکے شیمپو سے اسے دھو ڈالئے۔غذا سے بھی چھلکے بننے کے عمل پر اثر پڑ سکتا ہے۔ایک تعجب انگیز انکشاف یہ ہے کہ پنیر‘بہت زیادہ سیزن کی ہوئی اشیائے خوردنی اور ملک چاکلیٹ جیسی چیزیں چھلکے بننے کے عمل کا سبب ہو سکتی ہیں۔غذا کے بعض ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ڈینڈرف کے پیدا ہونے کا تعلق وٹامن بی 6 ‘بی 12 اور سیلینم کی کمی سے ہے۔
ڈینڈرف کے بارے میں ایک عجیب و غریب بات یہ بھی ہے کہ ڈینڈرف اور کیل مہاسوں کے درمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے اور بہت سے لوگ جو ان میں سے کسی ایک تکلیف کا شکار ہوتے ہیں‘وہ دوسری تکلیف کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔یہ بات قطعی طور پر واضح نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے اور ان دونوں تکالیف کے درمیان تعلق کی کیا وجہ ہی؟اس کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو‘تاہم ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ ڈینڈرف اور کیل مہاسے‘دونوں ہی تکالیف میں بیک وقت مبتلا ہوں تو دونوں تکالیف کا بیک وقت علاج اکثر اوقات صرف کسی ایک بیماری کے علاج کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتا ہے۔
اگرچہ ڈینڈرف کو عام مفہوم میں ایک انفیکشن کہا جا سکتا ہے‘تاہم‘عام خیال کے برخلاف یہ ایک سے دوسرے کو نہیں لگتا اور ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ڈینڈرف کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔اس سے صحت پر کوئی خراب اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی یہ بالوں کے گرنے کا سبب بنتا ہے۔ اور آخر میں‘ایک اور بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے‘ڈینڈرف کے خلاف جدوجہد کرتے وقت‘بہت زیادہ دواؤں اور تدابیر کا استعمال مت کیجئے‘کیونکہ ڈینڈرف کے مکمل اور مستقل علاج کی تلاش و دریافت میں آپ مزید مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔ڈینڈرف اگر کبھی کبھار نمودار ہو جاتا ہے تو اس سے بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

Browse More Hair Care, Hair Color & Hair Styling

Special Hair Care, Hair Color & Hair Styling article for women, read "Dandruff - BalooN K Liye Aik Azab" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.