
Sarojini Naidu - Famous Women Leaders
سروجنی نائیڈو - قیادت و سیادت
منگل 7 جولائی 2015

سروجنی نائیڈوان چند خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے برصغیر کے انگریز حکمرانوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا۔ آپ میں تعصب نام کو بھی نہ تھا۔ اگرچہ آپ ہندو تھیں لیکن آپ نے اپنا آئیڈئل محمد علی جناح کو بنا رکھا تھا۔آپ صاحب طرز ادیبہ، بے مثال شاعرہ اور ایک شعلہ بیان مقررہ تھیں آپ نے برصغیر میں ہندومسلم اتحاد کو اپنی سیاست کا جزو بنا رکھا تھا۔
قائداعظم کے قریب آنے کی وجہ قائداعظم کی وہ مساعی جمیلہ تھیں جو کہ انہوں نے 1912 سے 1917 کے دوران ہندوستان میں ہندومسلم اتحاد کے لیے کیں۔انہوں نے قائداعظم کے کردار کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا تو ان پر قائد کی شخصیت میں پائے جانے والے سچائی، ذہانت، دور اندیشی اور قوم کے درد کے عناصر منکشف ہوئے۔
سروجنی نائیڈو بھی برصغیر میں انگریزی راج کے خلاف تھیں اور اس کے لئے وہ ہندو مسلم اتحاد کو ضروری خیال کرتی تھیں۔1913 میں ان کی قائداعظم سے لندن میں ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں بڑے خوبصورت الفاظ میں کیا ہے۔ان کے خیال میں:
”پورے ہندوستان میں محمد علی جناح واحد حکمران تھے جو ہر دو جماعتوں کے ممتاز لیڈروں کے لیے قابل قبول تھے۔ وہ سب ان کا احترام کرتے تھے۔ اور ان کی ذہانت اور قابلیت کے دل سے قائل تھے۔“
برصغیر کی سیاست میں ہندواور مسلمان انگریز راج کے شروع میں ہی علیحدہ ہو گئے تھے۔ اس وقت برصغیر میں عوام کمزور اور حکومت مضبوط تھی اس لئے برصغیر کے ہندومسلم رہنماوٴں نے خیال کیا کہ مضبوط انگریز حکومت کے سامنے برصغیر کی دوبڑی قوموں یعنی ہندو اور مسلم کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔چنانچہ جب قائداعظم کی کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگریس کا متحدہ اجلاس 1916 میں لکھنوٴ میں ہوا تو اس میں برصغیر کے تقریباََ تمام بڑے رہنما شامل تھے۔مسز سروجنی نائیڈو بھی اس اجلاس میں شریک تھیں اور انہوں نے اس ہندومسلم اتحاد کی ضرورت پر زوردیا اور انگریر حکومت کے خلاف مشترکہ سیاسی جدوجہد کے اصول کی حمایت کی۔ 1916 کے اس اجلاس میں مسلمانوں نے اپنی آبادی کے تناسب سے زائد نشستیں طلب کیں تو اس کے پیچھے نفساتی اور سیاسی وجوہات تھیں۔ ہندورہنما اس مسئلہ پر ہچکچاہٹ کے شکار تھے لیکن مسز سروجنی نائیڈو نے قائد کے موٴقف کو اپنی کتاب میں اس طرح واضح کیا:
”مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت یا ان کی زیادہ نمائندگی ملنا اصل مسئلہ نہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح بیورو کریسی سے ڈیمو کریسی کی طرف سفر کا آغاز ممکن ہو سکے گا اور یہی اصل نکتہ ہے۔ ہندووٴں اور مسلمانوں کو اپنے آئینی اور قانونی حقوق حاصل کرنے کے لئے متحد ہو جانا چاہیے تاکہ انتقالِ اقتدار کا مسئلہ جلد از جلد طے ہو سکے۔“
جب مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق مل گیا تو مسز سروجنی نائیڈو اس بات پر ازحد خوش ہوئیں۔
اس وقعہ کے بعد مسلمانوں اور ہندووٴں کا اتحاد 1924تک چلا لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کے راستے الگ الگ ہو گئے تو اس کادکھ مسز سروجنی نائیڈو نے بھر پور طریقے سے محسوس کیا۔ مسز سروجنی نائیڈو کی تاریخ پر گہری نظر تھی اور وہ آنے والے وقت کے متعلق اندازہ بھی لگا سکتی تھیں۔ اگر چہ وہ مسلم لیگ یا تحریک پاکستان کی حمایت میں نہ تھیں لیکن وہ غیر متعصب تھیں اور ہندومسلم اتحاد کے لئے قائداعظم کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں قائداعظم کے ایک عظیم لیڈر بننے کی پیش گوئی کی جوکہ بعد میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
ہندومسلم اتحاد کے خواب کی تعبیر جب مختلف نکلی تو مسز سروجنی نائیڈو نے ادبی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اب ان کی قائداعظم سے زیادہ ملاقاتیں نہ ہوتی تھیں۔وہ بمبئی میں رہتی تھیں اور ان کی بمبئی سے پیار تھا۔ ان کا بمبئی میں قیام زیادہ تر تاج محل ہوٹل میں ہوتا تھا اور تاج محل ہوٹل کا ایک حصہ ہمیشہ ان کے لیے مخصوص رہتا تھا۔ جن دونوں وہ تاج محل ہوٹل میں قیام کرتیں تو ان کے پاس ملک کے بے شمار نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کا اجتماع ہوتا۔ ایسے ہی ایک کانگریس نواز اجتماع میں کسی نے قائداعظم کو انگریزوں کا زر خرید کہا تو مسز سروجنی نائیڈو نے اس شخص وک بری طرح جھڑک دیا اور انہوں نے کہا کہ میں بک سکتی ہوں، نہرو اور گاندھی بک سکتے ہیں لیکن جناح انمول ہیں۔ ان کو کوئی نہیں خرید سکتا۔
اگرچہ سروجنی نائیڈ اور قائداعظم کے راستے جدا جدا تھے لیکن انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق ہر موقع پر حق بات کی۔ ان کی قائداعظم سے حد سے بڑھی عقیدت تھی کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ مسز سروجنی نائیڈو قائداعظم سے عشق کرتی ہیں جبکہ قائداعظم ان کے لئے ایسے کوئی جذبات نہیں رکھتے ۔
سروجنی نائیڈو کی بے مثال ادبی او ر سیاسی خدمات کی بناء پر ان کو بلبل ہند کے لقب سے پکارا گیا۔
قائداعظم کے قریب آنے کی وجہ قائداعظم کی وہ مساعی جمیلہ تھیں جو کہ انہوں نے 1912 سے 1917 کے دوران ہندوستان میں ہندومسلم اتحاد کے لیے کیں۔انہوں نے قائداعظم کے کردار کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا تو ان پر قائد کی شخصیت میں پائے جانے والے سچائی، ذہانت، دور اندیشی اور قوم کے درد کے عناصر منکشف ہوئے۔
(جاری ہے)
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاندار کتاب ” Muhammad Ali jinaah the Ambassador of peace“ لکھی تو قائداعظم کا لقب ہندومسلم اتحاد کے سفیر کی حیثیت سے مشہور ہو گیا۔
اس کتاب میں سروجنی نائیڈ و نے اپنی خوبصورت انگریزی تحریر کے خوب رنگ بکھیرے ہیں اور قائداعظم کی شخصیت کے روشن پہلو بھر پوا انداز میں اجاگر کئے ہیں۔سروجنی نائیڈو بھی برصغیر میں انگریزی راج کے خلاف تھیں اور اس کے لئے وہ ہندو مسلم اتحاد کو ضروری خیال کرتی تھیں۔1913 میں ان کی قائداعظم سے لندن میں ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں بڑے خوبصورت الفاظ میں کیا ہے۔ان کے خیال میں:
”پورے ہندوستان میں محمد علی جناح واحد حکمران تھے جو ہر دو جماعتوں کے ممتاز لیڈروں کے لیے قابل قبول تھے۔ وہ سب ان کا احترام کرتے تھے۔ اور ان کی ذہانت اور قابلیت کے دل سے قائل تھے۔“
برصغیر کی سیاست میں ہندواور مسلمان انگریز راج کے شروع میں ہی علیحدہ ہو گئے تھے۔ اس وقت برصغیر میں عوام کمزور اور حکومت مضبوط تھی اس لئے برصغیر کے ہندومسلم رہنماوٴں نے خیال کیا کہ مضبوط انگریز حکومت کے سامنے برصغیر کی دوبڑی قوموں یعنی ہندو اور مسلم کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔چنانچہ جب قائداعظم کی کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگریس کا متحدہ اجلاس 1916 میں لکھنوٴ میں ہوا تو اس میں برصغیر کے تقریباََ تمام بڑے رہنما شامل تھے۔مسز سروجنی نائیڈو بھی اس اجلاس میں شریک تھیں اور انہوں نے اس ہندومسلم اتحاد کی ضرورت پر زوردیا اور انگریر حکومت کے خلاف مشترکہ سیاسی جدوجہد کے اصول کی حمایت کی۔ 1916 کے اس اجلاس میں مسلمانوں نے اپنی آبادی کے تناسب سے زائد نشستیں طلب کیں تو اس کے پیچھے نفساتی اور سیاسی وجوہات تھیں۔ ہندورہنما اس مسئلہ پر ہچکچاہٹ کے شکار تھے لیکن مسز سروجنی نائیڈو نے قائد کے موٴقف کو اپنی کتاب میں اس طرح واضح کیا:
”مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت یا ان کی زیادہ نمائندگی ملنا اصل مسئلہ نہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح بیورو کریسی سے ڈیمو کریسی کی طرف سفر کا آغاز ممکن ہو سکے گا اور یہی اصل نکتہ ہے۔ ہندووٴں اور مسلمانوں کو اپنے آئینی اور قانونی حقوق حاصل کرنے کے لئے متحد ہو جانا چاہیے تاکہ انتقالِ اقتدار کا مسئلہ جلد از جلد طے ہو سکے۔“
جب مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق مل گیا تو مسز سروجنی نائیڈو اس بات پر ازحد خوش ہوئیں۔
اس وقعہ کے بعد مسلمانوں اور ہندووٴں کا اتحاد 1924تک چلا لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کے راستے الگ الگ ہو گئے تو اس کادکھ مسز سروجنی نائیڈو نے بھر پور طریقے سے محسوس کیا۔ مسز سروجنی نائیڈو کی تاریخ پر گہری نظر تھی اور وہ آنے والے وقت کے متعلق اندازہ بھی لگا سکتی تھیں۔ اگر چہ وہ مسلم لیگ یا تحریک پاکستان کی حمایت میں نہ تھیں لیکن وہ غیر متعصب تھیں اور ہندومسلم اتحاد کے لئے قائداعظم کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں قائداعظم کے ایک عظیم لیڈر بننے کی پیش گوئی کی جوکہ بعد میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
ہندومسلم اتحاد کے خواب کی تعبیر جب مختلف نکلی تو مسز سروجنی نائیڈو نے ادبی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اب ان کی قائداعظم سے زیادہ ملاقاتیں نہ ہوتی تھیں۔وہ بمبئی میں رہتی تھیں اور ان کی بمبئی سے پیار تھا۔ ان کا بمبئی میں قیام زیادہ تر تاج محل ہوٹل میں ہوتا تھا اور تاج محل ہوٹل کا ایک حصہ ہمیشہ ان کے لیے مخصوص رہتا تھا۔ جن دونوں وہ تاج محل ہوٹل میں قیام کرتیں تو ان کے پاس ملک کے بے شمار نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کا اجتماع ہوتا۔ ایسے ہی ایک کانگریس نواز اجتماع میں کسی نے قائداعظم کو انگریزوں کا زر خرید کہا تو مسز سروجنی نائیڈو نے اس شخص وک بری طرح جھڑک دیا اور انہوں نے کہا کہ میں بک سکتی ہوں، نہرو اور گاندھی بک سکتے ہیں لیکن جناح انمول ہیں۔ ان کو کوئی نہیں خرید سکتا۔
اگرچہ سروجنی نائیڈ اور قائداعظم کے راستے جدا جدا تھے لیکن انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق ہر موقع پر حق بات کی۔ ان کی قائداعظم سے حد سے بڑھی عقیدت تھی کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ مسز سروجنی نائیڈو قائداعظم سے عشق کرتی ہیں جبکہ قائداعظم ان کے لئے ایسے کوئی جذبات نہیں رکھتے ۔
سروجنی نائیڈو کی بے مثال ادبی او ر سیاسی خدمات کی بناء پر ان کو بلبل ہند کے لقب سے پکارا گیا۔
تاریخ اشاعت:
2015-07-07
Your Thoughts and Comments
Special Famous Women Leaders article for women, read "Sarojini Naidu" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.
مزید قیادت و سیادت سے متعلق
Articles and Information
بچے کی نگہداشتبچوں کی پرورش اور غلط نظریاتمحبت اور جزباتی خلفشارخواتین کی خوبصورتیمیک اپ کرنے کے طریقے اور تجاویزبالوں کی نگہداشت اور سٹائلنگبالوں کو رنگنے کے طریقے اور تجاویزچہرے کی حفاظتجلد کی حفاظتچہرے کا فیشل، بلیچ اور مساجخوبصورتی کے نئے اندازدلہن اور شادی کا میک اپخواتین کا مساج، چہرے اور باڈی کا مساجبالوں کیلئے شیمپو کا استعمالخواتین کیلئے وزن کم کرنے کی ورزشیںںاخنوں کی حفاظت اور خوبصورتیخواتین سے متعلقہ متفرق ویڈیوزاسلام اور عورتگھریلو ٹوٹکے خواتین کیلئے مضامینمختلف رویےخواتین کے ملبوسات 100 نامور خواتینخانوادئہ رسولقرونِ اولیٰعظیم مائیںعظیم بیویاںفن اور ادب میں نام پیدا کرنے والی خواتینمشہور سیاستدان اور حکمران خواتینفلاحِ عام کرنے والی مشہور خواتینمشہور کھلاڑی خواتین مشہور آرٹسٹ خواتینبدنصیب عورتیںگھر کی آرائشخواتین کیلئے خریداری کے طریقےابتدائی طبی امدادخواتین کیلئے باغبانی کے مشورےکامیاب شادی شدہ زندگیPicture Galleries
مہندی کے ڈئزائنہاتھوں کے مہندی کے ڈئزائنپیروں کے مہندی کے ڈئزائن ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2022 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2021 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2022, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.